سنگت ایڈیٹوریل فروری

عمران پراجیکٹ ہو، یا ، نواز پراجیکٹ
بدلے گا کچھ نہیں

ایک طبقاتی سماج میں ریاست حاکم طبقے کے ہاتھ کا ڈنڈا ہوتی ہے جس سے وہ اپنے مخالفوں(غریبوں )کو سیدھا کیے رکھتا ہے ۔ اس غرض سے وہ ریاست کے ذریعے آہنی ہاتھوں سے عوام سے نمٹتا ہے ۔ عوام کو لاٹھیاں مارتا ہے ، جیلوں میں بند کراتا ہے ، جلاوطن کراتا ہے ،گمشدہ کردیتا ہے ، مار ڈالتاہے،مسخ شدہ کرتا ہے ۔۔۔ اور ایک عمومی خوف مسلط کرتا ہے ۔۔
حکمران طبقات کی ریاست جب اکیلا ایسا نہیں کرسکتی تو پھر خود ہی ٹیررسٹ پیدا کرتی ہے اور اُن کے ذریعے خوف و دہشت مسلط کرتی ہے ۔یعنی ٹیررسٹ اور ریاست ایک دوسرے کی خوب مدد کرتے ہیں ، اور بہت سی جگہوں پر یہ مل کر کام کرتے ہیں۔ ۔۔ بلوچستان میں انہیں ’ڈیتھ سکواڈ “ کا نام دیا گیا ۔
پاکستان کے حکمران طبقات 1947ہی میں اس ملک پر قبضہ کرچکے تھے ۔ ان طبقات میں سید اور پیر تھے ، جاگیردار اور فیوڈل تھے ، خان اور سردار تھے اور محتاج و منحصر سرمایہ دار تھے ۔ انہوں نے خود کو مضبوط کرنے کے لیے امریکہ کی غلامی اختیار کی ۔ اور وہ سوویت یونین کے خلاف امریکی فوجی معاہدوں سے بندھ گئے ۔ چنانچہ جب 1978میں افغانستان کے اندر انقلاب ہوا تو ضیاءالحق اُس پورے عرصے میں امریکہ اور سعودی عرب کا ایجنٹ بنا رہا جب اُس انقلاب کے خلاف پوری کپٹلسٹ دنیا نے شدید اور طویل جنگ کی، اور بالآخر اُس انقلاب کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوگئی ۔ بہت عرصہ بعد تک جاری اس کی جارحیت سے سوشلسٹ بلاک بہت زخمی ہوا ، اس کا بے تحاشا خون بہا ۔ہر ہر جگہ کپٹلزم نے ردانقلاب کیا۔ اور یوں کپٹلزم نے کولڈ وار میں فتح حاصل کی ۔اس نے پورے مشرقی یورپ کو اکھاڑ پچھاڑ کر کے رکھ دیا۔ کمال بات ہے کہ عالمی سطح پرسماج کے پسماندہ پڑاﺅنے اپنے سے اگلے اور ترقی یافتہ مرحلے کا تختہ الٹ دیا۔ سوشلزم کپٹلزم میں واپس لوٹا ۔
ہمارا خطہ چونکہ اس پوری متشدد نصف صدی کا مرکز رہا اس لیے یہ بہت بڑے پیمانے پر متاثر ہوا ۔یہاں ایک لاکھ انسان قتل ہوئے ، سماج ملٹرائز ہوا، اور پیچھے کی جانب اس کی مراجعت بہت سبک رفتار اور دیرپاہوئی ۔یہاں کے حکمران طبقات ارب پتی بنے ۔چونکہ ہمارے حکمران طبقات سارے کے سارے سو فیصد بنیاد پرست ہیں، اس لیے عوام کے اندر بھی یہ مائنڈ سیٹ خوب خوب پھیلا۔
چنانچہ مارا ماری سے بھری ہوئی اس نصف صدی میں یہ خطہ ابلتا رہا،کھولتارہا اور خون اگلتا رہا ۔ گو کہ اس مائنڈ سیٹ کی مزاحمت ہوتی رہی ۔مگر جب پوری دنیا اُس کی طرفدار تھی تو اس مزاحمت کے مقدر میں جیلیں ، پھانسیاں ،جبری گم شدگی اور مسخ شدگیاں ہی آنی تھیں۔
ہمارا ملک اس پورے عرصے میں مغربی سامراج کا پسندیدہ ملک رہا۔ آنکھوں کے اس تارے کو حمایت و پیسہ کے انبار ملتے رہے۔ یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہا جب تک کہ نیٹو افغانستان میں موجود رہا ۔ افغانستان ہی کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت تھی اور اسے قرضہ ، امداد اور دیگر سہولتیں حاصل تھیں۔
مگر جب وہ باب ختم ہوا تو بہت سارے تجزیہ نگاروں کو لگا کہ پاکستان کے لیے ایک نارمل ملک کی طرح چلنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا ۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا کہ اب اسے اپنی معیشت خود چلانی ہے ، ملکیت و جائیداد کو جمہوری بنانا ہے ، پارلیمنٹ کو خود مختار کرنا ہے، فیڈریٹنگ یونٹس کو بہت اختیار دینے ہیں ، ہمسایوں سے تعلقات بہتر کرنے ہیں۔ ۔۔۔۔
مگر ان سب باتوں اور اقدامات کی تو اُسے ہی عادت نہیں رہی۔
اس دوران ایک اور واقعہ ہوا۔ریاست کا نظریہ بنانے والی اور عوام کا مائنڈ سیٹ بنانے والی اسٹیبلشمنٹ دو حصوں میں بٹ گئی۔ بڑا اور اصلی حصہ ایک کرشماتی پلے بوائے کرکٹ چیمپین کو سامنے لایا اور سارے سرکاری بیانیہ کو اس کے حوالے کردیا۔ اس نے عمران پر دیانتدار ہونے کا سرخی پاﺅڈر لگایا،اور ریاستی بیانیے کو اُس طرح کا ایک نیا لباس اوڑھایا کہ یہ شہری ماڈرن لوگوں کے لیے قابل ِ قبول بن جائے۔ بات وہی اسلام کی تھی مگر اب اسے نظریہِ پاکستان ، یا نظامِ مصطفےٰ کے بجائے ”مدینہ کی ریاست “ کا نیا لیبل دیا گیا ۔”ماڈرن “عورتوں مردوں کو مغرب اور برطانوی نظامِ عدل کی باتیں سنا سنا کر متاثر کیا گیا۔ کرپشن زدہ شہری مڈل کلاس کو چین میں کرپشن کرنے والوں کے خلاف سزاﺅں والے معاشی ماڈل کی عینک پہنادی ۔ نسیم حجازی کے موٹے اسلامی ناولوں کے بجائے سکرین پہ ترکی کے ڈارمہ سیریل نوجوان ذہنوں کے سامنے ڈال دیے ۔ مذہبی ٹچ کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک عورت تلاش کی گئی ، اسے نام نہاد روحانی کرامات سے لاد دیا گیا اور پھر اس سے عمران کی شادی کرادی گئی ۔اُس کے جلسوں جلوسوں میں تقریباً تقریباً مکس ڈانس ہونے لگے ۔کلین شیو لیڈر کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور نوجوان لڑکیو ں کی گالوں پہ پارٹی پرچم ، اور دل پینٹ تھے ۔ پرانے ریاستی بیانیہ کو اس نئی ،رنگین اور حسین ڈیزائن والی بوتل میں ڈال کر پیش کیا گیاتو شہری اپر مڈل کلاس پاگلوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑی۔ ریاست اور ریاستی ڈھانچہ irrelevantہوگئے ۔سماج مزید رائٹسٹ ہوگیا۔ ۔۔۔۔عمران مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔
اب سرکار لوگوں کو غدار اور کافر نہیں کہہ سکتی تھی بلکہ اب عمران نے یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہی اب افسروں ، ججوں جرنیلوں پر آزادانہ غدار ، جانور ، ڈرٹی ہَیری کے فتوے لگاتا پھرتا تھا۔۔۔۔ لوگ اسے ”عمران پراجیکٹ “ کے نام سے جانتے ہیں۔
یوں سرکار بالکل بے بیانہ رہ گئی۔ ہم اِس وقت ریاست کے اسی سٹپٹائے بے بیانیہ پن میں جی رہے ہیں۔
ریاست اپنے پرانے بیانیے کو ترک نہیں کرسکتی ۔ اُس لیے کہ یہ اس کے رگ رگ میں پیوست ہے ۔اسے ترک کردینے سے اُس کے اپنے اندر رینک اینڈ فائل میں بغاوت پھیل جائے گی ۔
بغاوت تو بہر حال ہوگئی ۔عمران پراجیکٹ کو چلانے والی ایسٹبلشمنٹ کے حصے نے شہری مڈل کلاس والے لشکارے مارتے عمرانی بیانیہ کو اس قدر مقبول کردیاکہ ریٹائرڈ اور سرونگ فوج کا ایک بڑا حصہ بھی اُس کے ساتھ مل گیا۔ اور 9مئی کی بغاوت ہوگئی۔
مگر ، یہ بغاوت وقتی طور پر کچل دی گئی اورموجودہ سیٹ اپ بال بال بچ گیا ۔
تب ایسٹیبلشمنٹ کے فاتح حصے نے عمران پراجیکٹ کو رول بیک کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پہلا کام تو یہ ہوا کہ معاشی بحران ،مذہب کی بالادستی ،اور اسٹیبلشمنٹ کی آمریت میں غلطاں ملک کو دیوالیہ پن سے آئی ایم ایف نے بچالیا، اسے انتہائی سخت شرائط کے تحت قرض دیا۔ ان سخت شرائط میں سرکاری غیر ضروری اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کی بات تو نہ تھی مگر عوام پہ ٹیکسوں کا بار چڑھا دیا ۔ گیس بجلی اور پیٹرول مہنگا کر کے عوام پہ جان کنی طاری کردی گئی۔ کچھ انتظامی اقدامات لے کر اداروں کا خسارہ کم کردیا گیا ۔ کچھ املاک بیچے گئے ( پرائیوٹائز کیے گئے) ،کچھ کو رہن رکھا۔ سرمایہ کاری کے نام پہ اچھی خاصی زرعی زمین خلیجی ممالک کے حوالے کی گئی۔
معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے بچ جانے کے ساتھ ایک نئی بات یہ ہوئی کہ تو اہمات اور مفلسی میں گھری ریاست کو امیر ممالک سے معاملہ کرتے ہوئے اب ایک نارمل ریاست کے بطور چلنے کا چیلنج درپیش ہوا ۔
کبھی کبھی غلط فہمی ہونے لگی بھی تھی کہ دنیا بھر میں مذہب برآمدگی کا ہمارا سرکاری جنون ذرا سا کم ہوا۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ سرحدوں پہ باڑھ لگا کر ایک قومی ریاست بننے کی طرف جانے کی ابتدا ہوئی، جہاد کے نام پہ جمع کردہ لاکھوں افغانوں کو اُن کے ملک واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ مذہب کے نام پر خارجہ امور چلانے میں کمی آئی، اسلامی ایران کے حملے کا بظاہر”جواب“ دے دیا گیا۔
لیکن یہ سراسر غلط فہمی تھی ، ایسا سوچنا بھی خوش فہمی ہوگی۔ ۔۔۔
جہاں پی ایچ ڈی لیول کے لوگوں کی ”نظامِ مصطفےٰ “سے ”ریاستِ مدینہ “سن کر طبیعت باغ و بہار ہوجاتی ہو وہاں سب سراب لگتا ہے ۔دنیا پہ آخرت کو ترجیح دینے کا ستر سالہ دیا گیا سبق ہمارے اجتماعی شعور کو چھلنی کرچکا ہے۔ علم تعلیم تہذیب اور تحقیق کب کا پیروں مرشدوں کے رقبوں میں دفن ہو چکے اور وہاں کیکر کے گھنے جنگلات آگ آئے ہیں۔ بیرونی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصل اور دنیا دیکھے ہوئے یہ عالم فاضل لوگ غامدیوں، طارق جمیلوں کے مرید بننے میں منٹ بھی نہیں لگاتے ۔
عمران پراجیکٹ کو ریورس کردینے اور نواز شریف پراجیکٹ لانچ کرنے کے پورے پراسیس (10مئی 2023سے لے کر 8فروری 2024تک ) سے اور اس کے بعد بھی عوام کے حق میں کچھ نہیں بدلے گا۔کوئی بنیادی معاشی سماجی اور سیاسی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ سرمایہ داری ، جاگیرداری اور سرداری نظام کو تحفظ ہی رہے گا۔ محکوم طبقات اور قوموں کے نام پہ سیاست اسی طرح ممنوع ہی رہے گی۔عوام ابھی اپنے حقوق سے متعلق باشعور نہیں ہیں۔ انہیں منظم کرنے والی قوت یعنی سیاسی پارٹی موجود نہیں ہے ۔ اُس پارٹی کے بین الاقوامی اتحادی بہت لاغر اور کمزور ہیں۔ امریکہ اور مغربی یورپ کی قیادت میں کپٹلزم بہت مضبوط ہے ۔ سیاست میں عوام کی شراکت داری ابھی ناممکن ہے ، ابھی اقتدار منتخب اور سویلین حکومت کو منتقل کرنے کا کوئی امکان نہیںہے ، پریس اور پارلیمنٹ کی آزادی ابھی تک خواب ہیں، سیاست اور سیاسی پارٹیاں آزاد نہیں ہیں۔ تنظیم سازی اور بولنے کی آزادی جزوی ہے ۔ قوموں کے مالی وسائل کی لوٹ ابھی جاری ہے ، پنجابائزیشن عروج پہ ہے ۔مسنگ پرسنز کی بازیابی کا مطالبہ ریاست کو برا لگتا ہے ، اور عدالتیں ابھی بھی فیصلوں کے وقت فوج کی طرف دیکھتی ہیں۔
ایک بنیادی انقلاب لائے بغیر اس ملک کی رجعتی پالیسیاں الٹ دینا ناممکن بات ہے ۔پورے بیانیہ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ”اسلامی بم، نیل کے ساحل ۔۔۔۔“وغیرہ کو ترک کرنا پڑے گا، زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ کر جاگیرداری نظام کو ختم کرنا ہوگا، سرداروں کو سرکاری بیساکھیاں مہیا کرنا بند کرنا ہوگااور ”ون یونٹ “ کو بہت گہرا دفن کرنا ہوگا۔
مگر، بہت مزاحمت آئے گی اِن پالیسیوں پہ پلنے والے طبقات کی طرف سے۔ اور یہ مزاحمت مسلح بھی ہوگی اور سیاسی بھی۔ چنانچہ ایک خلفشار ہے جو چاروں جانب موجزن ہے ۔ ابال ہے جسے بیٹھنا ہے ، انارکی ہے جسے ختم ہونا ہے ۔ حکمران طبقے میں دہائیوں سے موجود انتہائی رائٹسٹ وِنگ بہت طاقتور اور لڑاکا ہوچکا ہے ، اسے ابھی بہت سی مراعات ترک کرنی ہیں۔۔۔۔سروں کی قیمت پہ !!۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*