پہلی نظم

ہونٹ کے زاویوں میں
بھٹکتے ہوئے تم نے کتنے کونے دیکھے
بے معنی آہٹوں
بے شناخت چہروں میں
تم نے۔۔۔کیا کچھ ڈھونڈا ؟
تم کہاں کہاں گئیں ،
انسانی عظمتوں کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر
مگر اس پہ اپنے ہی لفظوں سے پیوند
لگاتی رہیں
حواس کے یہ شعبدے تمہارے سامنے ہیں
تم نے زمینی کھیلوں کو دیکھا کہ
شطرنج کی بساط پر گھوڑا اَڑھائی قدم چلا
اور زمیں کا رنگ بدل گیا
بدلے ہوئے رنگوں میں بھٹکتے ہوئے
کیا تم بغیر سیاہی کے سفیدی کو ڈھونڈ سکیں
کبھی روشنی کی لکیر ، اندھیرے میں
مدغم ہوکر گم ہوگئی
کبھی اجالوں نے اندھیرے کو گلے لگالیا

اور تم نے چکاچوند سے گھبرا کر آنکھیں موند لیں
کیا یہ بھی حواس کا کوئی شعبدہ تھا؟
جب بھی تم نے چاہا لفظ کو بے معنی کردیا
اور جب چاہا خاموشی میں آواز ڈھونڈ لی
تمہارا یہ سفر کس کے لیے تھا؟
کہہ لو۔۔۔۔اپنے لیے
لیکن! یہ سب شریک سفر
تمہارے لفظ کیوں ان کی گواہی بن گئے ہیں
ہاں تم ان کی مقروض ہو
جتنے پیوند ان سے لیے ہیں انہیں دے کر
آج بے لباس ہوجائو

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*