نیا رُخ

برا وقت بری باتیں اور برا موسم آج کل بڑی تیزی دکھانے لگے ہیں،گھر محلہ،شہر اور ملکی حالات تیزی سے بدلتے جارہے ہیں۔ بریکنگ نیوز نا ہو تو پریشانی ہوتی ہے اگرکچھ دن سناٹا اور خاموشی ہوتوذیادہ خوف محسوس ہوتا ہے
تازہ ترین بریکنگ نیوزیہ تھی کہ ہماری اسٹریٹ کے چند معززافرادکے گھر چھاپا پڑا ہے بجلی چوری کے الزام میں چند سفید پوش گرفتار ہو چکے ہیں ایک طرف خاموشی اور دوسری طرف طنز کے تیر چل رہے ہیں۔ عصر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلنے والوں میں سیاسی حریف حق نواز اور رحیم بھی شامل تھے۔ دونوں الگ الگ پارٹیوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے شدید نفرت کرنے لگے تھے ۔وہ دشمنی کی حد تک ایک دوسرے کے خلاف تھے ۔گزشتہ برسوں میں رحیم کی پارٹی نے نئے سے نئے رجحانات اور نئی ٹیکنالوجی کی باتیں کرتے ہوئے نئے حوالوں کے ساتھ اپنی حکومت کے انے پر جشن منایا تھا اور اپنے لیڈر کے فرشتہ سیرت ہونے پر دلیلیں دئیے جاتا اس کا دعوی تھا کہ ہمارا لیڈر ہماری حکومت اب روشن مستقبل کی نوید ہے آنے والے دنوں میں ہم امن بھائی چارے کے ساتھ غربت کا خاتمہ کریں گے روز گار کے بند دروازے کھول دیں گے،سارے قرضے اتار دیں گے۔ ہم پر فخر کیا جائے گا۔ اب ایک بڑی طاقت بن کر اس خطے میں ابھریں گے۔ہمارا لیڈر ایک وقت میں کئی سیٹوں سے کامیاب ہوکر آیا ہے،اس کی ایک آواز پر لاکھوں لوگ باہر آجاتے ہیں،اس کو چاہتے ہیں،وہ تبدیلی کی علامت بن کر آیا ہے۔۔۔۔۔،چوروں لٹیروں کو سزائیں دینے اور کرپشن سے پاک معاشرہ بنانے جارہا ہے”
حق نواز یہ باتیں سنتے ہوئے عجیب کیفیت کا شکار ہو جاتا ۔وہ ان لوگوں کو حیرت سے دیکھتا جو رحیم کی سٹیریو ٹائپ باتوں پر کان دھرے کھڑے ہیں۔ وہ بابو کی دکان سے بیڑی لے کر گھر کی طرف روانہ ہوا رحیم کی اواز دور ہوتی گئی بلکہ گھر کے دروازے تک پہنچ کر دم توڑ گئی حق نواز بریکنگ نیوز دیکھتے ہوئے چونک گیا رحیم کی پارٹی اور اسٹبلش منٹ میں اختلافات کی تصدیق کی گئی دوسری طرف اپوزیشن نے جھوٹ موٹ کے وعدوں کی عدم تکمیل مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث احتجاج کی کال دی اور بااختیار اداروں انہیں موقع دینے کی درخواست کی گئی ۔ایک طرف دعوے دوسری طرف قرضے۔ ان دونوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مہنگائی نے صورتحال ہی بدل ڈالی اب کچھ تبدیلی کے اثار نظر آنے لگے ۔اخبارات اور اور نیوز چینلز پر جو باتیں سامنے آ رہی تھی اس کے مطابق اب تبدیلی سرکار تبدیل ہوتی نظر آرہی تھی ۔حق نواز خوش ہو رہا تھا بلکہ اپنی پارٹی کے اچھے دنوں کو یاد کر کے وہ اندر ہی اندر آنے والی حکومت میں اپنے بیٹے کی نوکری کسی تیل یا فروٹ کے مٹ یا عارضی بنیادوں پر کوئی پوسٹ ملنے کی امید کے ساتھ باہر نکلااور اپنے شیر لیڈروں کے حق میں نعرے لگانے لگا ۔رحیم بے حد غصے میں تھا وہ مسلسل گالیوں اور بدتمیزیوں پر اتر ایا تھا بہرحال عوام کی دعائیں قبول ہو گئیں اور تبدیلی سرکار ٹوٹ گئی۔ بلکہ توڑ دی گئی اخری ایک سال کے لیے نئی مشترکہ پارٹیوں کی حکومت بنی جس میں حق نواز کے لیڈر پیش پیش تھے ۔اعلی عہدے دئیے گئے وہ جو کل تک قید بھی تھے وہ آج دوبارہ آرام دہ اور خوشگوار دفاترمیں آ کر بیٹھ گے۔ اب فیصلے اس طرح کیے جانے لگے کہ جن میں پچھلی حکومت کے الزامات،کیسوں اور چوری کی وارداتوں اور جرائم کو پاک کرنے کی کامیاب کوشش اور اس کے بعد دعوے اور سارا ملبہ گزشتہ حکومت پر ڈالتے ہوئے خود کو بری الزمہ قرار دیتے دوسری طرف بڑھتے قرضوں کی وجہ سے سیاسی نظام ملیامیٹ ہونے لگا ۔ کوئی چیز قابو میں نہ رہی باوجود کوشش کی مہنگائی کا طوفان بڑھتا جا رہا چلا جا رہا تھا گیس بجلی اور دیگر گھریلو سہولتوں کے بل ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئے تھے۔ اس صورتحال میں حق نواز کی پارٹی اور لیڈرشپ مقتدر کی ہر فیصلے پر انکھیں بند کیے دستخط کرتی رہی اورحق نواز اور رحیم جیسے لوگوں کے بڑے بڑے بت گرنے لگے اب چند دنوں سے نئے انتخابات کی تیاری کاعمل جاری ہے رحیم اور حق نواز دونوں ایک دوسرے سے شرمندہ اور افسردہ نظر آتے ہیں ۔ان دونوں کی جیسے قبائلی دشمنی بن گئی تھی وہ ایک دوسرے پر وار کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں ۔ایک عرصے بعد علاقے میں فکر،نظریے اور جمہوری رویوں کی سیاست دم توڑ گئی تھی ۔سیاسی اختلاف سیاسی دشمنی بن کر سامنے آگئی تھی، اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور گیس بجلی کے بلوں کا طوفان اٹھا ہے ۔اب کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں ۔اب جب بجلی کے بل سر راہ جلائے جا رہے تھے اور مہنگائی کے ہاتھوں خود کشیوں میں اضافہ ہو رہا تھا رحیم اور حق نواز چوک پر ایک دوسرے کی پارٹیوں کے دفاتر پر تالا لگا کر اپنی اپنی پارٹی کے جھنڈے اتار کر گھر لے جا رہے تھے۔ لوگ اب کسی پارٹی کے کسی لیڈر کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ اب ان کی نگاہیں آسمان کی طرف تھی ۔ سب کے دل میں یہ سوچ تھی کہ شاید شاید کوئی معجزہ ہو جائے شاید وہ پرانے دن اچھے دن واپس آئیں۔ شاید رحیم اور حق نواز جیسے لوگ سدھر جائیں اپنے مفاد اور جذبات میں سب کی تباہی کا سامان نہ بنیں،بستی کے سارے ب±رے کام،بجلی چوری،نالے اور گلی کوچوں کی مرمت،سٹریٹ لائٹ حتیٰ کہ غریبوں لاچاروں کے نام پر آنے والے فنڈ ہڑپ کرتے رہے،۔۔۔۔۔۔،
اب چینی آٹے کی قلت اور پٹرول کی مہنگائی کے خلاف نعروں میں کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے،۔۔۔۔۔یا شاید اپنے جھوٹے وعدوں کے ملبے تلے پناہ ڈھونڈنے چلے گئے ہوں گے۔۔۔۔!!
ایک مرتبہ پھر عام آدمی زندگی کی جنگ لڑنے کے لیے تنہا ہوگیا ہے ،ایک مرتبہ پھر ڈوب کر ابھرنے کے لئے۔۔۔۔!!!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*