گم کردہِ راہ

میں جانتا تو تھا کوئی
نظر بچا کے چل پڑا
مرے قدم کی چاپ سے

کبھی نگاہ اِس طرف
کبھی نگاہ اس طرف

میں تھک گیا تلاشتے
کوئی نہ تھا بجز ہَوا
نہیں کھلا یہ ہیولا

نگاہ کی تو یہ کھلا
کہ کور چشم دیکھنے کے فن میں تاک تھے سبھی
میں گنگ آدمی کی بات کا برا منا گیا
یہ لنگ لول کون ہیں؟
اکیلے پن کے شور میں ، میں جیسے رچ رچا گیا
کہ جیسے خامشی کی لے
پنگھوڑ کی چہک کوئی
صدا دلِ گرسنہ کی

قدم قدم میں ڈھونڈتا
تلاشتا چلا گیا
مجھے گمان تک نہ تھا
میں جانتا تو تھا کوئی
نظر بچا کے چل پڑا
مرے قدم کی چاپ سے
گمان تک نہیں ہوا کہ دھوپ تھی وہ جسم کی
مرا ہی ہیولا تو تھا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*