بھانڈا

کن تکالیف کا ذکر کروں۔ بچپن سے ہی میرا ناتا دکھ اور غم سے جڑ گیا۔ اذیتیں، تکلیفیں، رنج و محن زندگی کا حصہ رہے۔ کوئی دن یاد نہیں پڑتا کہ میں نے سکھ کا سانس لیا ہو! آج میں جیسے ہی گاڑی ڈرائیو کرتی ،اپنے دفترکو آرہی تھی تو راستہ میں مٹی کے برتنوں کا ایک ریڑھا دیکھا ، جس پر بہت سارے بھانڈے رکھے ہوئے تھے۔ میں نے بھانڈے دیکھے تو اپنے ماضی میں چلی گئی۔
مجھے وہ دن یاد ہے جب میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی۔ ایک دن آدھی چھٹی کے بعد اچانک بابا بڑے غصہ میں سکول آ گیا۔ اس نے پوری جماعت کے سامنے مجھے تھپڑ مارتے ہوئے کہا، "تیرا باپ پڑھا کہ اب تو پڑھ کر آسمان چھولے گی!؟”
اتنا کہہ کر وہ مجھے بازو سے پکڑ کر سکول سے گھر لے آیا۔ ماں پاپڑ بناتی تھی۔ چھوٹے بھائی اماں کو تنگ کرتے تھے ،انہیں سنبھالنا میرا ذمہ تھا۔ میں سکول جاتی تو چھوٹے بھائی اماں کو کام کرنے نہ دیتے۔ ابا تو کوئی کام کاج کرتے ہی نہیں تھے ، بس ماں پاپڑ بیلتی اور محنت کرکے جو رقم جمع کرتی ، بابا اس رقم پر عیاشی اور نشہ پانی کرتا۔ میں گھر میں سب بھائیوں بہنوں سے بڑی تھی ، لہٰذا گھر کی ہر ذمہ داری میرے کندھوں پر ہوتی۔ اس دن بابا نے جماعت کے سامنے جو میری بے عزتی کی ، اس سے میرا سکول جانے سے جی اچٹ گیا۔ میں سوچتی کہ تمام سکول والے مجھ پر ہنسیں گے اور میری پھبتیاں اڑائیں گے ، لیکن امتحان سر پر تھے ، اس لیے سکول جانے کا خیال بار بار میرے دل میں کروٹیں لینے لگتا۔
سکول کے رجسٹر میں نام حمیدہ درج تھا ، لیکن مجھے گھر والے اور سکول کے بچے حمی کہتے تھے۔ امتحان میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا کہ آپا نے پیغام بھیجا:
"حمی کے امتحانات ہیں، اسے سکول بھیجو۔”
باوجود اس کے ماں اور بابا نے مجھے سکول جانے کا نہیں کہا۔ بالآخر امتحان سے چار دن قبل آپا خود ہمارے گھر آنکلیں اور کہنے لگیں، "کیوں اے حمی! تم سکول نہیں آرہی ؟امتحان سر پر کھڑے ہیں اور تم ایسی ہوشیار لڑکی ایسا کرے ، یہ اچھا نہیں لگتا!”
پھر انہوں نے ماں اور بابا سے مخاطب ہوکر کہا، "لڑکی کو سکول بھیجو ، دو جماعتیں پڑھ لے گی تو اسے زندگی بھر کام آئیں گی۔”
ماں اور بابا نے اقرار کرکے آپا کو روانہ کیا۔ میں سکول کا سوچ کر پریشان ہوگئی کہ جتنے دن سکول نہیں گئی تھی ، ان دنوں میں چھوٹے بہن بھائیوں نے میری سلیٹ، کتابیں اور بستہ وغیرہ توڑ پھوڑ دیا تھا۔ میں نے سوچا کہ سکول کس طرح جائوں؟ میں نے ماں سے بات کی تو اس نے منہ پھلاتے ہوئے کہا، "ہمارے پیسہ دھرے نہیں ہیں کہ تمہیں سلیٹ ، کتابیں اور بستہ لے کر دیں۔۔۔”
میں روتی روتی کمرے میں چلی گئی۔ اچانک میری نظریں دیوار میں بنے جوف میں شکستہ بھانڈے پر پڑگئیں، جس میں مَیں جیب خرچ کی ملی ہوئی رقم جمع کرتی تھی۔ ایک بار قبل جب گھر میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی ، ماں کے بنائے ہوئے پاپڑ بھی نہ تھے ، تب میں نے یہ بھانڈا پھوڑا تھا، جس سے تئیس روپے نکلے تھے۔ اس زمانہ میں تئیس روپے تئیس سو کے برابر تھے۔ ارزانی کا زمانہ تھا۔ لہٰذا پورے ایک ہفتہ گھر کا خرچہ اور بابا کی عیاشی کی رقم میرے بھانڈے سے نکل آئی تھی۔اب وہی بھانڈا دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میں نے ایک اور بھانڈے میں بھی تو پیسے جمع کیے تھے اور وہ میں نے بابا اور ماں کے پھوڑدینے کے ڈر سے زمین میں گڑھا کھود کر چھپایا تھا۔ میں فوراً اٹھ کر صحن میں آئی اور زمین کھود کر بھانڈا نکالا ور اسے اپنی قمیص کے نیچے چھپا کر کمرے میں چلی آئی کہ کہیں بابا کی نظر نہ پڑجائے۔ میں نے جب بھانڈا پھوڑا تو اس سے پانچ پیسوں، دس پیسوں، چونیوں۔ اٹھنیوں کے ساتھ ایک پانچ روپے کا نوٹ بھی نکل آیا۔ یہ نوٹ مجھے سکول ڈبیٹ کے دوران بطور انعام ملا تھا۔ اس زمانہ میں پانچ روپے کا نوٹ پانچ سو روپے کے برابر تھا۔ میں بھانڈے سے برآمد ہوئی کل رقم گنی تو پچاس روپے ہوئے۔ میں بڑی خوش ہوئی۔ میں نے کچھ رقم ماں کو دی ، کچھ رقم ایک پوٹلی میں رکھی اور اسے برآمدے میں ٹانگ دیا۔ میں کچھ رقم لے کر چھوٹی بہن کو لے کر بازار آگئی ، اپنے قلم، سلیٹ اور کتابوں کے ساتھ چھوٹی بہن کو وہی سامان لے کر دیا۔ میرے دل میں آیا کہ پلاسٹک کی جوتی بھی لے لوں، وہ بھی خریدی اور پھرکاکا خانو کی کپڑے کی دوکان پر گئی۔ کیوں کہ اتنا سامان لینے کے بعد بھی میرے پاس ابھی رقم باقی تھی۔ میں نے کاکا خانو سے فلیٹ کا ریشمی کپڑے کا نرخ پوچھا اور پھر کاکا خانو کو بھی رقم دیتے ہوئے کہا، "کاکا! ہمارے پاس بس یہی رقم ہے ، ہمیں ریشمی فلیٹ کا ایک جوڑا دے دو۔”
کاکا خانو بڑا حساس اور نیک دل انسان تھا، اس نے ہنستے ہوئے کہا، "ہاں، کیوں نہیں۔ تھوڑی سی رقم ہی تو کم ہے، پانچ روپے، جب ہوجائے تو دے جانا ، البتہ ایک ایک جوڑا دونوں بہنوں کو دیتا ہوں۔”
اس نے چھ گز فلیٹ کا کپڑا ہمیں دیا۔ ہم کپڑا اور دیگر سامان اٹھائے، ہنستے، ناچتے، گیت گاتے گھر پہنچے تو دیکھا بابا ماں کے ساتھ لڑرہے ہیں۔ میں نے جو رقم ماں کو دی تھی ، وہ بھی اس سے چھین رہا تھا۔اس کی نظر ہم پر پڑی تو ہمارے ہاتھوں میں سامان دیکھ کر سیخ پا ہوگیا۔ اس نے مجھے اور چھوٹی کو آڑے ہاتھوں لیا، "چھوریو! بتائو ، کہاں سے آئے اتنے سارے پیسے کہ یہ ڈھیر سامان لے آئی ہو۔۔۔!؟”
ماں نے مجھے چھڑاتے ہوئے کہا، "حمی نے اپنا بھانڈا توڑا ہے۔”
تب اس نے ہمیں چھوڑا ، لیکن غصہ میں ماں کو حاملہ ہوتے ہوئے بھی پیٹ پرزوردار مکا مارکر دوکان پر چلا گیا۔ ماں چوٹ لگنے پر بے حال ہوکر زمین پر بیٹھ گئی اور لگی زاروقطار رونے۔ اس دن ہمارے گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، لہٰذا میں نے برآمدے میں لٹکتی پوٹلی اتاری کہ اس سے کچھ رقم لے کر سامان لے آئوں۔ لیکن میں نے پوٹلی اٹھائی اور اس میں ہاتھ ڈالا تو وہاں خاک بھی نہیں تھی۔ ماں نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا: "حمی! تیرے بابا نے سب پیسے ہتھیالیے اور مجھ سے بھی چھین کر لے گیا۔”
میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ میں باورچی خانہ میں چلی گئی اور کاسہ اور پلیٹ اٹھاکر خالہ شہزادی کے گھر چلی گئی۔ ہمارے گھر میں جب کچھ بھی نہ ہوتا تو میں کٹورا اور پلیٹ اٹھاکر خالہ شہزادی کے گھر چلی جاتی۔ خالہ شہزادی کٹورے میں آٹا اور پلیٹ میں کوئی سالن دیا کرتی۔ اگر خالہ شہزادی کا موڈ برابر نہ ہوتا تو دانٹ پلاتی ، لیکن باوجود اس کے کٹورے میں آٹا اور پلیٹ میں سالن ضرور ڈال دیتی تھی۔ آج اس نے جوں ہی مجھے آتے دیکھا تو کہنے لگی:
"لو آگئی نیک بخت! کچھ نہ کچھ لینے کے لیے۔۔۔!”
اس لمحہ میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ میں دل ہی دل میں اپنے آپ کو بد شد کہنے لگی۔ بس اس دن خالہ شہزادی نے جو کچھ دیا وہ اٹھا کر گھر لے آئی لیکن میں نے پختہ عہد کرلیا کہ اب کبھی خالہ شہزادی کے گھر کچھ مانگنے نہیں جائوں گی۔ آخر کب تک ہم اس طرح ہر ایک کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہیں گے۔ اس دن میرے پاس جتنی بھی رقم تھی، میں اس کے چنے لے آئی۔ صبح بھائی کو چنّوں کا تھال دے دیا بیچنے کے لیے۔میں سکول سے لوٹنے کے بعد گھر میں پڑی پرانی سلائی مشین کو باہر نکالا اور جیسی تیسی سلائی کرنے بیٹھ گئی۔ میں کچھ ہی دنوں میں اچھی سلائی کرنا سیکھ گئی۔ اب میں سکول بھی روزانہ جانے لگی۔ سلائی اور چنّوں کی کمائی سے دو پیسے بابا کو بھی مل جاتے تو وہ بھی خاموش رہتا۔یوں میں نے اپنے گھر کو سنبھال لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میٹرک ، انٹر اور پھر بی اے بھی کرلیا۔ اس کے بعد مجھے ملازمت مل گئی۔ میں نے ملازمت کرتے ہوئے بھائیوں بہنوں کو پڑھایا۔ بھائی جب پڑھ لکھ کر نوکریوں سے لگ گئے تو شادیاں بھی کرلیں۔ بہنیں بھی اپنے گھر والی بن گئیں۔ بھائی اپنے بچوں کی دیکھ ریکھ میں مشغول اور بہنیں اپنے شوہروں بچوں میں مصروف۔لیکن میری تنہائی اور پیڑ آج بھی میرے ساتھ ہے۔ رشتے ناتے اپنے معنی کھو بیٹھے ہیں، نتیجہ یہ کہ وہی رنج و غم اسی تسلسل کے ساتھ چلتے آرہے ہیں اور رفیق ہے وہی تنہائی کہ جس میں کوئی سہارا نہیں بنتا۔
میں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اوراتر کر ریڑھے والے سے ایک بھانڈا لیا۔۔۔۔ میں سیدھی دفتر آئی۔ دفتر کے شیلف میں اس بھانڈے کو رکھ دیا۔ اب میں روزانہ اس بھانڈے کو دیکھتی ہوں، خوش ہوتی ہوں اور یہ سوچ کر اس میں پیسے ڈال دیتی ہوں۔ جب یہ بھر جاتا ہے تب تمام رقم نکال کر کسی غریب لڑکی کو اس کی پڑھائی کی مدد کے طور پر دے دیتی ہوں۔ ایسا کرنے سے میری تکلیف اور تنہائی کچھ کم سی ہونے لگی ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*