فیض احمد فیض

انسانی حقوق کا عالمی دن ہو ،چائلڈ لیبر ڈے ہو،عورتوں کا عالمی دن، اساتذہ کا دن ہو یا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے شب و روز، کوئی نہ کوئی دن دنیا میں منایا جاتا ہے۔ لیکن روز بروز زندگی کے دردناک حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ ادویات کی مہنگائی، سرکاری اور غیر سرکاری ہسپتالوں کا حال، لوٹ کھسوٹ اور مار دھاڑنے ایسی بے امنی پیدا کی ہے کہ دور دور تک امن و امان کی صرف باتیں ہورہی ہیں۔ زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ ٹریفک کے نظام نے زندگی جس طرح جام کردی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا جو حال ہے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ زیر و زبر سے غافل، ڈیل اور ڈھیل کی دنیا میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ اخبار، ٹی وی، سوشل میڈیا، فیس بک اور لیپ ٹاپ کی زندگی نے تعلیمی درسگاہوں میں درس و تدریس پر جو اثر ڈالا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک سال کے بچے سے لے کر جوان اور بوڑھے سب اس کی لپیٹ میں ہیں۔ جس سے تعمیری کم تخریبی حالات جس طرح سے جنم لے رہے ہیں انہوںنے معاشرے کو مزید کھوکھلا کردیا ہے۔ دوسری طرف عالمی طاقتوں نے جس تیزی سے ہماری طرف رخ کیا ہے۔ اس سے حالات مزید خرابیوں کی طرف جارہے ہیں۔ جس کا اندازہ آپ معیشت کی حالت کو سامنے رکھ کر بخوبی لگاسکتے ہیں۔دوسری طرف روسی اور یوکرائنی جنگ نے پوری دنیا کو ایک نئے بحران میں مبتلا کردیا ہے، جس کے اثرات سے ہم بچ نہیں پائیںگے۔ ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے ان اکابرین کی قربانیون اور اذیتوں کا خیال شدت کے ساتھ سوچنے پر مجبور کررہاہے۔ وہ ایسے حالات چھوڑ کر نہیں گئے نہ ہی ایسی سیاست کا بیج بویا تھا جو ہمیں آج اس صورت میں مل رہا ہے۔ دور دور تک کوئی بہتری کی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ زندگی کی اس جنگ میں نقصان صرف عوام کا ہورہا ہے۔ عوام کے ذہن کو اس طرح تبدیل کیا گیا ہے یا کہ انہیں اس نہج پر پہنچایا گیا ہے کہ وہ ان حالات سے بے خبر ہوکر روزِ شبینہ کے محتاج ہی رہیں۔ جس کا جی چاہے ،جو جس طرح چاہے اُسے اُس طرح استعمال کرے۔ وہی چہرے ہیں وہی ایوان ہیں، طریقہ کار مختلف ہے۔ نظریہ بھی نظریہِ ضرورت بن گیا ہے۔ جس کو جہاں سکوں ہے وہ وہاں ٹھیک ہے۔ جس سے جس کا کام نکل آئے وہی اچھا ہے۔ جاگیرداری، سرداری ، سرمایہ داری کی شکلیں مختلف ہوگئی ہیں۔ لیکن بندوق غریب عوام کے کندھوں پر ہے۔ تیر وہی چلاتے ہیں مرتے مزدور اور عوام ہیں۔ اب تو مزدوروں کا دن بھی وہی مناتے ہیں جو مزدور دشمن ہیں۔ ووٹ انہی کا ہوتا ہے حکمرانی وہی کرتے ہیں۔ مارتے بھی ہیں اور مسیحا بھی ہیں۔ لوٹتے بھی ہیں اور صدارت بھی کرتے ہیں حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی ہے کہ اس کا شکار عام طبقہ ہی ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ یہ وہ سوالیہ نشان ہے جس پر جتنا غور و فکر کیا جائے صفر کے بعد صفر ہی آتا ہے۔ چند شہروں میں بیٹھ کر ہم پورے عوام کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ووٹ کے وقت ہم ایوانوں سے دوبارہ اُن جگہوں کا رُخ کرتے ہیں جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی نہ گیس ہسپتالوں کا فقدان، اسکول نہ کالج اور ہم خوشی خوشی اپنا ووٹ ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں اور ان کو اپنے تقدیر کا مقدر سمجھ کر پھر سے ہتھیلیوں پر بیٹھا کر ایوانوں تک پہنچاتے ہیں۔
ترقی پسند ذہن، سوچ اور جہدوجہد کی جہاں بات ہوگی وہاں ترقی پسند قوتوں کا ذکر بھی ہوگا جنہوں نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ سیاست کی بات ہو، شاعری کا ذکر ہو، دنیا کی تحریکوں کا حوالہ ہو، خواتین کا کردار ہو، مزدوروں کی جدوجہد ہو، وہاں ہر وہ سوچ نمایاں نظر آئے گی، جس نے انسانی اقتدار کی خاطر خودکو عوامی جدوجہد میں نہ صرف شامل کیا ہے بلکہ بالواسطہ اور بلا واسطہ اس تحریک کا حصہ بنے۔ ہمیشہ سیاسی شخصیات کا ذکر چلتا آرہا ہے۔ لیکن جہاں مزدور تحریکوں نے جنم لیا اور دنیا میں اپنا کردار ادا کیا، اُن کا ذکر تو ہے لیکن ہر اول دستہ ہونے کے باوجود گردش دوسری قوتیں کرتی رہی ہیں اسی طرح شاعری کے حوالے سے بھی اُن اکابرین کا ذکر ضروری ہے۔ جنہوں نے اپنی شاعری سے بائیں بازو کی قوتوں کو نہ صرف عزت دی بلکہ وقت آنے پر آکسیجن کا کام بھی کیا۔ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاءالحق سے لیکر مشرف جیسے مکہ لہرانے والے ڈکٹیٹروں کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ جدوجہد میں اپنا حصہ بھی ڈالتے رہے۔ حبیب جالب، فیض احمد فیض، کیفی اعظمی، جان نثر اختر، ساحر لدھیانوی و دیگر نہ صرف اپنی شاعری سے عوامی شعور کا پرچار کرتے رہے ہیں بلکہ زندانوں میں وقت گزارا اور تکلیفیں بھی برداشت کیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر طرف اسلحہ، بارود اور بم ہی نظر آرہے ہیں جنہوںنے پوری دنیا میں امن و امان کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ایران،سعودی عرب، شام، یمن، قطر، لیبیا، عراق، اُردن، ترکی، افغانستان اور خصوصاً بلوچستان (گوادر) بین الاقوامی اہمیت کا حامل بن گیا ہے۔ سب کی نظریں یہیں جمی ہوئی ہیں۔ بے دریغ ایٹمی و کیمیائی (ہائیڈروجن بم) ہتھیاروں کی بھاگ دوڑ میں مصروف سامراجی طاقتیں ہیں دوسری طرف سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد حالات ابھی تک یک طرفہ ہیں اور اب بنیاد پرستی، نسل پرستی نے رہی سہی کسر کو پورا کرکے مزید حالات کو خراب کردیا ہے۔ اور آگے کوئی خاطر خواہ صورت حال نظر نہیں آرہی ہے۔ آئی ایم ایف کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ ڈالر آسمان سے باتیں کررہا ہے۔ روپے کی اہمیت ختم ہوچکی ہے۔ دیوالیہ ہی دیوالیہ ہے جو حال ہے وہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی ہے جس کا شکار صرف عوام ہیں۔ لیکن شعور و آگہی کا سفر بھی تو جاری ہے وقت اور حالات نے فیض احمد فیض جیسے انسانوں کو بھی تو جنم دیا ہے۔
موجودہ حالات مکمل آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہیں، زندگی ویران، سڑکیں سنساں، موت سے بھی بدتر زندگی ۔۔۔ ایسے ہی حالات کے نشاندہی فیض احمد فیض نے کی ہے۔ ۔۔ جسم پر قید۔۔ جذبات پہ زنجیریں۔۔ گفتار پہ تعزیریں۔۔ ہر گھڑی درد کے پیوند۔۔

لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

فیض صاحب نے زندگی کی تلخیوں کو قریب سے دیکھا ۔ قیدو بندو، ظلم اور تنہائی نے انہیں بہت کچھ سکھایا تھا۔ اور وہ سب کچھ کاغذ پر اتارے چلے گئے۔ سخت سے حالات میں بھی کھل کر اظہار خیال کرتے رہے۔ مایوسی کی قید اور فکر کی محبوسی سے لڑتے رہے ، اور ہماری عاقبت سنوارتے رہے۔:
کبھی تو صبح تیرے کنج لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سر کاکل سے مشکبار چلے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔ یقینا وہ وقت بھی آئے گا وہ منزل بھی آئے گی گو یہ چار سو مایوسی کا عالم ہے، تاریکی نے زندگی کو مکمل طور پر اندھیرے میں دھکیل دیا ہے لیکن فیض احمد فیض نے ایسے لمحوں کو جس طرح قید و بند کے دوران قید تنہائی کے عالم میں شعور اور جدوجہد کی بات کی ہے وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ شاید انہی اکابرین کی وجہ سے ہم مایوس نہیں۔ زندگی کے اندھیروں میں روشنی کی جس تلاش میں کبھی وہ صبح بھی آئے گی۔ انا الحق کا نعرہ بلند ہوگا مسند پر عوام کا ہی راج ہوگا جہاں ظلم ہوگا وہاں امن کی جنگ جاری رہے گی جہاں جبر ہوگا وہاں ہر ستم ظریفی کے خلاف جنگ رہے گی۔ امن اور جنگ کا یہ سلسلہ صدیوں سے چلتا آرہا ہے اور چلتا رہے گا جیت عوام کی ہوتی ہے سچ، صداقت، خوشحالی اور آگہی کی ہوتی ہے۔ جیت عشاق کے قافلے ، غم دوراں، نقشِ فریادی ، میرے دل میرے مسافر، دستِ صبا زنداں نامہ، لوح و قلم کی ہوتی ہے۔ جیت حبیب جالب کی آوارگی،بھگت سنگھ، حسن ناصر، نذیر عباسی، کاسترو چی گویرا، نیلسن منڈیلا ، صاحرکی صبح کی اور فیض احمد فیض کی سوچ و فکر کی ہوتی ہے۔ اس لیے تو فیض امید کی کرن بن کر سامنے آتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ امید کی کرن کو اُجاگر رکھا اور مایوسی کو زہر قاتل سے کم نہیں سمجھا۔ وہ خود سوال کرتے ہیں خودی جواب دیتے ہیں۔
”جینے کے فسانے رہنے دو، اب ان میں اُلجھ کر کیا لیں گے“
یہ عالم بھی فیض پر طاری ہوتے رہے ہیں لیکن فیض صاحب جواب میں کہتے ہیں:

یہ بزم چراغاں رہتی ہے
اک طاق اگر ویراں ہے تو کیا ہے

فیض احمد فیض کی شاعری اور اس کی شخصیت کو عوام نے وہ مقام دیا جو اس کا حق تھا۔ ترقی پسند اور بائیں بازو کی قوتیں اور وہ طبقہ جس کے بارے میں فیض احمد فیض لکھتے رہے ان کی لکھی گئی نظموں، غزلوں کو مزدوروں کے دن کے حوالے سے، سخت تکلیف اور حکمرانی کے دنوں میں جہاں حکمرانی کا بول بالا رہاہو، جاگیرداری نظام ہو کہ سرمایہ داری تلے لوگ کچلے جارہے ہوں، مہنگائی کا سفر ہو کہ آئی ایم ایف کا نظام پروان چڑھ رہا ہو، وہاں فیض احمد فیض کی شاعری بول رہی ہوتی ہے:

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، بول، زباں اب تک تیری ہے
بول ، یہ تھوڑا وقت بہت ہے۔ بول کہ سچ زندہ ہے اب تک

فیض احمد 1934 میں کالج سے فارغ ہوئے اس کے بعد انہوں نے ایم اے او کالج امر تسر میں ملازمت کی۔ یہاں سے فیض صاحب کی ذہنی صلاحیتیں اجاگر ہونا شروع ہوئیں اور پروان چڑھتی رہیں اور ذہن ان قوتوں کی طرف بھر پور انداز سے مائل ہونا شروع ہوا جس نے آگے چل کر ترقی پسند اور مزدور تحریکوں کی آبیاری کی، غمِ جاناں سے غمِ دوراں کا سفر شروع ہوا۔ 1936ءسجاد ظہیر اور دیگر دانشوروں کی جدوجہد کی شکل سامنے آئی جنہوں نے فیض احمد فیض کو بھی اپنے حصار میں لے لیا اور لکھنو میں پہلی پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن (پی ۔ ڈبلیو۔ اے)کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فیض صاحب شامل ہوئے ۔غم دوران کا یہ سفر ڈاکٹر رشید جہاںاور صاحبزادہ محمود لظفر کی ہمسفری سے شروع ہوا۔ فیض کی زندگی کے اس سفر میں ڈاکٹر رشید جہاں اور محمود الظفر کا بڑا ہاتھ ہے جس سے سمت بدل گئی راستے سیدھے ہوگئے ۔فیض صاحب لکھتے ہیں ”ایسا دور جو شباب کا دور بھی ہو اور مرضِ عشق کا بھی اوراس کے ساتھ ساتھ غمِ ذات سے غمِ زمانہ کا سفر بھی“۔ اسی سفر میں مرضِ عشق سے نکل کر انہیں پوری قوم کا محبوب بننا تھا۔ اسی سفر میں فیض نے عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی، سکھ درد اور روحِ زرد کے معنی سیکھے ”میرا دل غمگین ہے تو کیا۔۔۔۔ غمگین یہ دنیا ساری ہے۔“

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*