یہ کیچڑ چکھ کے دیکھو

تم آخر اس قدر ناراض کیوں ہو؟
بات تو سمجھو
نہ جانے کیوں بگڑ جاتے ہو
ہم جب بھی کسی
احساس_ محرومی کو
مجبوری کو
جبر و ظلم کو تصویر کرتے ہیں
چلو تم ہی بتاﺅ
تم نے جو اب تک
ہمارے واسطے قا نون لکھے ہیں
میں ان کی کون سی شق؟
کونسی تعزیرپر انگلی دھروں ؟
کن کن رواجوں کو گنا ﺅں؟
مجھے معلوم ہے تم بے دلی سے شا نے اچکا ﺅگے، ہنس دوگے
مگر آج ایسا کرتے
چلو۔۔۔۔۔
جوتوں میں میرے پیر ڈالو
اور میرے ساتھ آ ﺅ
تمہیں ناجائز و جائز کی
سب تفصیل تو ازبر ہے نا؟
تو دیکھو یہ قطاریں عورتوں کی
لوٹ کے سامان میں لائی گئی ہیں
ان کے ما تھے پر
دھکتے سرخ انگارے سے
اک فرمان لکھا ہے
” یہ سب جائز کنیزیں ہیں ”
یہ کنیزیں جس کو چاہیں بانٹ دی جا ئیں
تصرف میں رہیں
بھرجا ئے جی تو
ان کے یہ باسی بدن
آگے بڑھا دیں گے
ذرا سی دیر کو اترو اسی جائز غلامی میں
بتا ﺅ کونسی تذلیل کا احساس ہوتا ہے؟
یہ کیچڑ چکھ کے دیکھو
بتاﺅ ذائقہ یہ کیسا لگتا ہے؟
یہ چھوٹی چھوٹی قبریں دیکھتے ہو؟
ہمارا سانس لیتا جسم
ان میں دفن ہے پیارے
مجھے معلوم ہے
برجستہ کہہ دوگے
"پرا نی بات ہے یہ تو”
ہاں !
یہ کہنے کو پرانی بات ہے
لیکن یہ قبرستان
یہ قبریں
زمانوں کا سفر کرتی
ہمارے نام پر یہ وقف رہتی ہیں
مدرسوں، بیٹھکوں، کھیتوں میں
با عزت گھروں کے
گونگے کمروں
اندھے اوطاقوں کی تاکید یں
ہمیں زندہ نگل لینے پہ قادر ہیں
ذرا سی دیر کو اترو
ان ہی قبروں میں
اور سمجھو کہ ایک اک سانس کیسے ٹوٹتی ہے
اور بدن کو اپنے
کیچڑ میں بدلتے دیکھنا
آنکھوں سے اپنی
کیسا لگتا ہے ؟
چتا پر زندہ جلتی عورتوں کے
پگھلے جسموں کی طرف دیکھو
چلو ماضی کو چھوڑو
یہ چتا ئیں آج کی ہیں
ا ک نظر ان کی طرف دیکھو
ہزاروں عورتوں کا جسم ہے
چہرہ نہیں ہے
مرے محسن!!
یہ سب تیزاب سے پگھلے ہوئے چہرے ہمارے ہیں
سو پیارے!
یہ چتائیں سیکڑوں انداز کی ہیں
کیا نہیں ہیں ؟
ہمارے ہونٹ، آنکھیں ، جسم
زند ہ جسم
ان میں جھو نکے جائیں
اور کہتے ہو کہ
اپنے جسم کو اپنا کہا تو ہم خفا ہونگے
تو جاناں !
جانتے ہیں ہم
کسی بھی جبر کی زنجیر جب ٹوٹے
تو جابر تلملا تے ہیں
مگر یہ تلملاتے
طنز کرتے، بھونکتے آقا ہمارے بھول جاتے ہیں
نئے دن کی بشارت کو بھلا
اہل ستم کب روک پا تے ہیں

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*