پاگل

اس کارنگ پیلا پڑ گیا تھا

اور چہرا اڑا اڑا سا

کوئی اس کو پتھر مارتا اور کوئی اس کا مذاق اڑاتا

سب اس کو ستا کر لطف اٹھا رہے تھے

پاگل اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا

پتھر کے ہر وار پر وہ کہتا

”بھیڑیوں کے غول میں مظلوم رہنا چاہیے

پتھروں سے آؤ بھگت ہونی چاہیے“

میں نے جب پاگل کی باتیں سنیں

پاگل کے نزدیک گئی

کانپتے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا

اور اسکو کہا!

”اچھا فلسفی!

تمہیں کیسے پتہ لگا کہ وہ بھیڑ یئے ہیں؟“

پاگل مجھے غضبناک آنکھوں سے دیکھنے لگا

اور نفرت سے مجھے کہنے لگا

”جاؤ

مجھے فلسفی مت کہو

میں پاگل ہوں۔ پاگل!۔

تم بھی مجھے پتھر مارو“

میں نے اس کو بتایا

نہیں نہیں

میں تمہیں پتھروں کے چوٹ کھانے کے لیے تنہا نہیں چھوڑونگی

تم پاگل ہویا فلسفی، بات انسانیت کی ہے

اور تم انسان ہو

بھیڑیوں کے ہاتھوں میں آگئے ہو

سب لوگ بھیڑ یئے

اور آدم خور نہیں ہیں“

پاگل کی آنکھوں میں آنسو آگئے

لمحہ بھر خاموش ہوا

کڑوی ہنسی ہنسا

اور ہنستے ہنستے اس کے چہرے پر آنسوؤں کی دو بوندیں چمکنے لگیں

غمزدہ اور بیٹھی ہوئی آواز میں کہنے لگا

”ہاں۔ میں پاگل نہیں تھا

لوگوں اور اس سماج کے ظالموں اور آدمخوروں

نے مجھے پاگل کردیا

ملک صاحب نے میری فصل کی زمین زبردستی لے لی

حاکم صاحب نے میرے پیسے لے لیے

رئیس صاحب نے میری پیاری بیٹی کی بے عزتی کی

قاضی صاحب نے میرا گھر لوٹ لیا۔

کوتوال صاحب میرے سر کی پگڑی اور بدن کے کپڑے

زبردستی لے گیا

اوردوسروں نے جب مجھے ننگا دیکھا تو پتھر مارنے لگے

اور۔۔۔“

پاگل اپنی بات پوری بھی نہ کرپایا تھا

کہ پھر ہر طرف سے پتھروں کے وار شروع ہوگئے

میرے ہاتھ پاؤں پتھر لگنے سے زخمی ہوگئے

کیونکہ میں پاگل کی مدد کر رہی تھی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*