کیا آزادی کا کوئی وجود ہوتا ہے !

جی ہاں سیاسی تشدد اجتماعی طور پر ہمارے ذہنوں پر بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ ہماری تشویش و پریشانی اس حد تک بڑھ رہی ہے کہ ہماری ذہنی صحت تک متاثر ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ یہی سیاسی تشدد مختلف ملکوں کے بیچ سماجی تعلقات کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ یقینا بہت سوچ بچار کے بعد یہ طاقت دنیا پر حکومت کرنیکی خواہش کو جلا بخشی ہے۔ جمہوریت موجودہ حالات و واقعات کی رَو میں بہتی ہوئی وہ سنجیدہ لہر ہے جو بلا شبہ طوفان ہی لاتی ہے۔ تمام تر سیاست دان بادشاہ ہی بننا چاہتے ہیں۔ خدمت گار کوئی نہیں۔ ان کے تمام تر افعال کی قیمت بیچارے عوام کی زندگیاں اور ان کا مستقبل ہے۔ سیاست دان دھچکے کھاتے نہیں بلکہ لگاتے ہیں۔ تاریخ دان آج جس کو یورپی طاقت گردانتے ہیں وہ سترہویں صدی کے ایک ایسے نظام کا نظریہ تھا جس میں رومن سلطنت اور کیتھولک چرچ کی روایتیں آپس میں مد غم ہو گئی تھیں۔ بادشاہ خود کو خدا سمجھنے لگا اور سارے عالمگیر گرجا پر ایک پوپ حکومت کرنے لگا۔ جرمنی اور شمالی اٹلی کی جاگیردارانہ ریاستوں کو رومن بادشاہ کی مقدس حاکمیت سے جوڑ دیا گیا۔ سترھویں صدی میں رومن سلطنت نے یورپ پر غلبہ پالیا۔ فرانس اور برطانیہ چونکہ د±ور تھیں لہذا وہاں حاکمیت قائم نہ ہو سکی۔ کلیدی تقرریاں مرکز کی حکومت کے تابع اس لیے تھیں کہ حکومت اور مذہب یکجا تھے۔ کسی بھی مذہبی پوپ یا پادری کو خود مختاری کے کوئی وسائل حاصل نہ تھے یعنی آزادی نہ تھی۔ حالانکہ عیسائیت اس کی خود مختاری کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس بات کو تھوڑا مزید بڑھاتے ہیں۔ مغربی یورپ میں پوپ اور بادشاہ کے درمیان جب طاقت اور آئین کے سبب الحاق ٹوٹا تو جدید جمہوریت کا رنگ منظر پر آیا۔ اس کی وجہ سے جاگیر داروں کو دونوں کی طاقتوں یعنی مذہب اور حکومت سے خراج وصول کر کے مزید خود مختاری کے مواقع ملے۔ ان حالات میں یورپ تقسیم ہوا۔ بشپ کی ریاستیں، ڈیوک کی ریاستیں، کاونٹیز اور مختلف شہروں کا ایک سلسلہ سا بن گیا۔ فرانس، برطانیہ اور سپین مقدس رومن بادشاہ کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے کیوں کہ وہ عالم گیری گرجا کا حصہ تھے۔ سولہویں صدی میں بادشاہ پنجم نے شاہی حاکمیت کو عروج پر پہنچا دیا جہاں مرکزی یورپ کی سلطنت کا تصور بن گیا۔ اس یورپی سلطنت میں آج کا جرمنی، آسٹریا، شمالی اٹلی، سلواکیہ، ہنگری، مشرقی فرانس، بیلجیم، ہالینڈ اور چیک ریپبلک شامل ہیں۔ یقینا اس وقت بھی اتنی ریاستیں مل کر یورپی طرز کی طاقت کے توازن کو ابھرنے نہ دیتی تھیں۔ اس دور میں بادشاہ کو پوپ اپنا مذہبی حریف گردانتا تھا۔ بادشاہ اپنے آپ کو خدائی نمائندہ سمجھتا اور عوام سے بھی یہی توقع رکھتا تھا۔ پھر بہت سی اور صدیاں گزر گئیں۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی کے آخر تک یورپی ہم آہنگی نے تقریباً سو برس تک امن قائم رکھا۔ ہر بڑی طاقت نے کم نظری کا چھانٹا مارا۔ یورپی اقوام نے اندھے پن میں طاقت کے توازن کو اسلحے کی دوڑ میں بدل دیا۔ یہ بھی نہ جانا کہ جدید ٹیکنالوجی سے بڑے پیمانے پر جنگ کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ 1914کے گرما میں آسٹریا کے ڈیوک فرینذ فرڈینیڈ کے قتل کے فوراً بعد پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی جو چار برس سے زیادہ عرصہ جاری رہی۔ اس جنگ میں تقریباً 20 لاکھ سپاہی مارے گئے اور 21 لاکھ زخمی ہوئے۔ 1900 میں بہت سی یورپی ریاستوں نے وسیع زمینوں پر قبضہ کر رکھا تھا۔ بہت سے نو آبادی علاقے جیسے ہندوستان، ویت نام، جنوبی اور شمالی افریقہ وغیرہ بھی پہلی عالمی جنگِ کا باعث کہلائے۔ ملٹری ازم، امپیریل ازم، نیشنل ازم، خفیہ حکمتِ عملی، قرابت کے معاہدے، اسلحہ سازی وغیرہ بھی اس جنگ کے چند محرکات تھے۔ پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں پتہ چلا کہ جب ممالک آپس میں جھگڑتے ہیں تو چیزیں کیسے پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ دو بادشاہتیں گریں۔ چار نئے ملک یورپ اور ایشیا میں بنے۔ یورپ بھر میں افرا تفری پھیل گئی۔ یہ سب باتیں تاریخ کا ایک استاد اپنی کلاس میں شاگردوں کو پڑھا رہا تھا۔ ایک لڑکے نے پوچھا سر! یہ جرمن اتنے برے کیوں تھے؟ کیونکہ وہ یورپ پر حکومت کرنا چاہتے تھے۔ سر! یہ عالمی بحران کب شروع ہوا؟ جنوری 1933میں جب ہٹلر نے جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تب۔ سر! جارحانہ ہتھیاروں کے خاتمے کا کوئی سمجھوتا کیوں نہ ہوا؟ یہ اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک ہر قوم بلا امتیاز ایک پختہ ذمہ داری کے ساتھ اس مہم میں شامل نہ ہو: سر! ایک اور بات بتائیے کہ جب جرمن فوجیں روس کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں تو تب ہٹلر نے کیا کیا؟ اس وقت ہٹلر نے امریکا سے بھی جنگ کا اعلان کر دیا۔ دوسری طرف چر چل چاہتا تھا برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا توازن برقرار رہے۔ مگر دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا ہمیشہ کے لیے بدل چکی تھی۔ سوویت یونین اور چین میں عظیم نقصانات ہوئے۔ پولینڈ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ بہت سے ممالک کو بڑے پیمانے پر تعمیرِ نَو کی مشکلات اٹھانی پڑیں۔ جنگ کے پتے بانٹنے والوں کو بھی سزا بھگتنی پڑی۔ سر! لیکن کیا اس سے لوگوں کو حقیقی آزادی حاصل ہوئی۔ رافع نے پوچھا: بھلا جنگ بھی کبھی یا کہیں سکون لاتی ہے۔ خون بھلے دشمن کا ہی کیوں نہ ہو ہے تو نسلِ آدم کا ہی۔ آنگنوں کے چراغ بھی بجھ جاتے ہیں۔ ہاں اس جنگ کے بعد زندگی کی کایا ضرور پلٹی۔ لیکن آج بھی اقوام خصوصاً جنوبی ایشیا میں ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک آزادی حاصل نہیں کر سکے۔ سر ہمیں تو چھوڑیں بتائیں دنیا میں کہیں حقیقی آزادی ہے؟ اچھا سوال ہے ینگ مین! میرے خیال میں ہر جگہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات دیکھتی ہیں۔ چاہے اس کے لیے انہیں بے قصور ملکوں میں جنگ کے اقدامات ہی کیوں نہ اٹھانا پڑیں۔ ایتھوپیا کو ہی دیکھ لیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے دوران وہاں قحط ہی پڑتے رہے۔ پاکستان تو آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہوا۔سر! کیا آزادی کا کوئی وجود ہوتا ہے؟ مجھے نہیں لگتا۔۔۔ استاد نے حسرت بھری نگاہوں سے چھت کو دیکھنا شروع کر دیا۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*