کہانی کا دکھ

کہانی شروع ہو نے سے پہلے ہی مرنے لگی ہے کیو نکہ اس کے مرکزی کردار کی بقیہ زندگی صرف چند گھنٹے ہے۔ہاں البتہ ذیلی کردار بات کو جاری رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔مگر ایک ساٹھ سالہ بوڑھی عورت ،جس کی قد میں اوپر کا دھڑ اس کی ٹانگوں کی لمبائی سے کچھ زیادہ دکھائی دیتا ہو اس کی شاید ہی کو ئی ایسی خصوصیت ہو جو آپ کو کہانی میں الجھائے رکھنے میں میری معاونت کرے۔مرکزی کردار ایک اسی پچاسی برس کی بوڑھی عورت ہے جس کے پوپلے منہ سے بات کو سمجھنے لے لیے رضیہ کو پھر سے آگے جھکنا پڑا۔بات کی سمجھ کو تو شاید اس کو بھی نہ آئی ہو مگر اس نے ایسے ماں کا پاسا پلٹ کر اس کے بستر کی چادر پر ہا تھ پھیرا تو اس کی انگلیاں تر ہو گئیں۔سر پر لیے دوپٹے کو اس نے کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے ، منہ ہی منہ میں بڑبڑانا شروع کردیا۔
نی اماں !!تیرا بھلا ہو جاوے۔۔۔
اللہ !میری اماں نوں سنبھال لےَ۔۔۔
اس نے یہ بات کہہ کر خود کو میلے میں کھو جانے والے بچے کی طرح اکیلا محسوس کیا۔
ایک لرزتا ہاتھ منہ کی طرف کر کے ،اس کی اماں نے اشارہ کیا تو رضیہ نے لپک کر ہاتھ دھوئے اور انڈہ ابالنے کے لیے اٹھ کھڑی ہو ئی۔
آپ کو شاید رضیہ کا کچن میں کوسنے دینا ، گالیاں دینا اور زور زور سے آسمان کی طرف انگلی اٹھائے اللہ سے اپنے شوہر کی موت کی بد دعائیں کرنا عجیب لگے گا۔ مگر ہر بات کے پس منظر میں دوسری بات ضرور ہو تی ہے۔اس کے خاوند نے ایک بار گیس کا سلنڈر اٹھا کر بیچ دیا تھا۔
قارئین ! عموما رضیہ کے مزاج میں اس طرح کا چڑ چڑا پن کم ہی دیکھا گیا ہے مگر آج وہ اس قدر تھکی ہو ئی ہے۔
آج صبح سے ہسپتال کی قطار میں کھڑے ہو کرمسلسل مریض کے لیے دوائیں لیں مگر ڈاکٹر نے نسخے کے ساتھ اچھی غذا کا لکھ دیا۔رضیہ ڈاکٹر کی کم علمی پر دل ہی دل میں طنزیہ مسکرائی کہ مفت ہسپتال کی لائین میں کھڑے کسی ایک آدمی کی شکل دیکھ کر اس کو سمجھ نہیں آیا کہ ، اچھی غذا، ملتی تو شاید قطار بہت مختصر ہو تی۔دوائیں تو اسے مفت مل گئیں مگر انڈے خریدنے کے لیے اسے رکشے کی بجائے پیدل گھر آنا پڑا۔
مرکزی کردار کس قدر جینے پر بضد ہے ،حالانکہ اس کے پاس سر اٹھانے کی طاقت بھی نہیں۔
وہ اپنی زندگی کے ایک ایسے حصے میں چین سے جی رہی ہے جب وہ اپنی سکھیو ں کے ساتھ گڑیا کھیلاکرتی تھی۔ مرکزی کردار کی کہانی میں بھی نہیں نہیں جھانکا جا سکتا کیو نکہ وہ یادداشت کے بڑے حصے کو کھو کر محض بچپن اور لڑکپن میں زندہ ہے۔ اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ سامنے کے گھر میں ایک شادی کا ہنگامہ مسلسل جاری ہے ،جس پر ڈھولک کی تھاپ پر سکھیاں گیت گاتی جا رہی ہیں۔اس لیے مرکزی کردار کو چوڑیاں بھی چاہیے اور مہندی بھی۔مگر رضیہ جو اسی گھر میں نائن کا کا م کر رہی ہے ، اسے اس ہنگامے سے کو ئی دلچسپی نہیں کیو نکہ اس کی زندگی میں لڑکپن اور جوانی نام کا کو ئی پل شاید گزرا ہی نہیں۔یو ں یہ دونوں کردار اپنی عمروں کے اعتبار سے نہیں مگر کیفیتوں کے اعتبار سے بڑی اور چھوٹی سمجھی جائیں۔۔وہ کام میں جتی ہوئی ہے ، پہلے اپنے گھر کاکام ، اماں کا گیلا بستر، ہسپتال سے پیدل لوٹنا پھرلکڑیوں پر انڈا ابالنا اور اب شادی والے گھر میں کام کام اور بس کام۔رضیہ بس دل ہی دل میں اماں کی موت کے وسوسے اور خوف کے درمیان میں کہیں اس مسلسل تیمارداری اور اماں کی بے نطق داستانوں ، سے تنگ آ چکی ہے۔مگر کہانی بھی مرکزی کردار سے کسی ایک متوقع یا غیر متوقع انجام کی متقاضی ضرور ہے ،مگر بد قسمتی سے اس کہانی میں صرف ایک پھیکا پلاٹ اور ایک مرکزی کردار ہے۔رضیہ نے ساتھ والی خالہ سے کچھ دیر اماں کے ساتھ باتیں کرنے کا کہا تو اس نے اپنے پلپلے منہ میں ہنسی کا فوارہ روکتے ہو ئے صرف اتنا کہا اور دوپٹہ سے آدھا منہ چھپائے شرمائی۔تیری اماں کو ور چاہیے۔۔۔کیا خالہ پاگل ہو گئی ہو۔۔۔۔میں نہیں تیری ماں پاگل ہو گئی ہے ، وہ اپنے منگیتر اللہ دتہ کو آوازیں لگا رہی تھیں۔ رضیہ نے کل چوڑیو ں کی فرمائش کا سوچ کے ، دل ہی دل میں اعتراف تو کر لیا مگر منہ سے ہاری کیسے مانتی۔
اماں تجھے کیا کہو ں ، بس شر مندہ کرا دیا۔ اللہ میاں۔۔۔تو ہی سنبھال لے اماں کو
کہانی میں رضیہ کا ہی کردار کچھ کلائمکس پیدا کر سکتا تھا مگر اس کا نشئی شوہر ،ہی اس کا زندگی کا ہیرو بھی ہے اور ولن بھی۔ ہیرو اس لیے کہ ابھی بھی اس کی توجہ حاصل کر کے ، بچہ پیدا کرنے کی چاہت اس کی مری نہیں تھی ، اور ولن اس لیے کہ اس کے کم صورت ہو نے کی ایک وجہ ، غصے میں پھینکی گئی وہ درانتی ہے جس نے اس کی ایک آنکھ ایسی چھینی کہ وہ سکڑ کر بند ہو گئی۔
شادی والے گھر سے دوسری بار بلاوہ آیا تو اس نے پھر ہمسائی کو ماں کا خیال رکھنے کا کہہ کر تیز تیز قدم اٹھاتی جا پہنچی۔برتنو ں کے انبار تلے دبی سوچتی رہی کہ کم از کم درمیان ایک چکر دوڑ کر گھر کا لگا آئے گی۔اب صفائی ستھرائی کا کام کرتے ہو ئے اس کی نگوڑی ایک آنکھ سے جو کوڑا رہ گیا ، اس پر بھی کہرام برپا تھا۔ مہمانو ں کی فرمائشیں چائے پانی کی الگ تھیں جو ختم ہو نے میں نہ آ رہی تھیں۔اس کو اپنی ماں پر اچانک پیار آیا تو اس کی ایک آنکھ سے آنسو چھلک پڑے۔ میری ماں بھی تو بے سہارا ہے۔ جوانی میں بیوگی کاٹی ، بھتیجے کو گھر داماد کیا تو اس نے میرا اور اس کا کیا حشر کر دیا۔ ا
"اللہ میاں۔۔۔مینو ں معاف کریں ، میں اپنی ماں واسطے جو بولیا ، اس نوں ورقے وچوں پھا ڑ دے۔”
ہمسائے کے بچے کو دیکھ کر ہی اس کا دل دہل گیا۔اماں جی۔۔۔۔فوت ہو گئے نیں۔۔۔۔
رضیہ برتنوں کے اوپر سے چھلانگ لگاتی دوڑی۔مہمان ابھی ناشتے میں مگن تھے کسی نے اس کی طرف توجہ ہی نہ کی۔
اماں کو اللہ نے سنبھال لیا تھا مگر رضیہ کو اس بات کی شر مندگی کھائے جا رہی تھی کہ شاید نوے سال کی اماں کی موت کی وجہ اس کی دعا یا بد دعا تھی۔
اماں کے کفن دفن کا انتظام ارد گرد سے ہو گیا تھا ،اماں کو آخری بار دیکھنے کی خواہش کے باوجود جو وقت پر ہی اللہ کے سپرد اس کی امانت کرنا چاہتی تھی۔سہ پہر کے بعد ، گھر بالکل خالی تھا ، ایک طرف اماں کے کپڑے غسل کے لیے کھڑی کی گئی چارپائی پر پڑے تھے ، گھر میں چولہا تھا ہی نہیں ، گھر والا تو آخری کاندھا دینے بھی نہ پہنچا تھا۔اس نے واپس شادی والے گھر کا رخ کیا ، کام ہی کام اور ہنگامہ ہی ہنگامہ۔۔۔اس نے ایسے ہی ایک مہمان کی توجہ پا کر کہا ” اماں نوں اللہ نے سنبھال لیا اے ”
شور شرابے میں اس کی آواز کے جواب میں مہمان نے ہزار روپیہ اس کی ہتھیلی پر رکھتے ہو ئے کہا ،” ہا ں ہاں رضیہ تم نے سارے کام اچھے سے سنبھالے ہو ئے ہیں "۔وہ بات دہرائے بغیر سہ بارہ اکٹھے ہو جانے والے برتنوں میں بیٹھی خود کا دکھ ، اپنے آپ کو سناتی رہی۔شاید رضیہ کا دکھ ہی کہانی کا دکھ ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*