کیسی تبدیلی آئی؟

باتوں باتوں میں ایک روز ایک بات ہوئی کہ دنیا کیسے تبدیل ہوگی اور کون اسے تبدیل کرے گا۔ وہ رسوم وروایات جن سے عزت اور بے عزتی بندھی ہوئی ہیں اس قدر گڈمد ہوگئی ہیں کہ کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ عزت کس کام اور کس بات میں ہے اور بے عزت کام اور کردار کون سے ہیں۔ ہمارے زمانے میں اگر کسی نے سر کے بال کھلے رکھے ہوتے تو اسے محفل میں اس طرح دیکھا جاتا جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہو۔ مگر آج لڑکیوں کے بال کٹے ہوئے ہیں اور وہ ننگے سر گھومتی ہیں مگر انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ ہمارے وقتوں میں اپنی مانگ پہ ہاتھ رکھ کر قسم کھائی جاتی تھی، آج وہ بال ہی بازاروں میں کاٹے جاتے ہیں۔ شہروں کا تو نہیں جانتی مگر دیہاتوں میں کوئی مرجاتا تو اسی وقت سب کو خبر ہوجاتی۔ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو سب کو معلوم ہوجاتا کہ فلاں کے ہاں پیدائش ہوئی ہے ۔ کسی کے گھر کی چار دیواری نہیں ہوتی تھی۔ سارا گاﺅں ایک گھر ہوتا تھا ۔ بعد میں گھروں کے گرد دیواریں آگئیں، گیٹ اور دروازے ہوئے ۔ پھر دلوں کے گرد دیواریں بنادی گئیں اور مہر و دوستی کم ہوگئی۔
میری ایک بہن نے ایک روز مجھ سے کہا ”تم ان لڑکیوں کو نصیحت کرو کہ ایسا نہ کریں“۔ مجھے ہنسی آئی ۔ میں اب کیسے انہیں کہوں کہ پچاس سال پیچھے چلی جائیں۔ اُن کا دور یہی ہے ۔ تم نے کبھی دیکھا کہ کسی نے کہا ہو کہ وہ غلط کر رہی ہیں۔ اب سب کو یہ بیماری لگ گئی۔ 1970میں گرل گائیڈ کے دو تین افسر افسر کوئٹہ سے نوشکی ہمارے گاﺅں آئیں۔ اس زمانے میں صرف ہمارے گاﺅں میں لڑکیوں کا سکول تھا ۔ وہ افسر لڑکیوں کے سکول کے بعد گاﺅں بھی گھومیں۔ عورتوں کو نصیحت کرتی رہیں کہ یوں صفائی کریں۔ ہم سے ان افسروں کی پہلے ہی شناسائی تھی۔ اس لیے ہر روز ہمارے گھر آتی تھیں۔ ایک روز کہنے لگیں کہ ہم سارا گاﺅں گھومتی رہیں،گھر گھر گئیں۔ سارے گھر امیر غریب کے ایک جیسے ہیں۔ بستر ایک طرح دیوار کے ساتھ تہہ رکھے ہوئے ہیں، صندوقیں ایک ہی طرح رکھی ہوئی ہیں ، چارپائیاں ایک ہی انداز میں بچھی ہیں۔ برتن تختے پر ایک ہی طریقے سے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔
میں نے فخر سے کہا ہم ایک الگ قوم ہیں، ہمارے الگ رسم و رواج ہیں۔ ہمارا اپنا کلچر ہے ۔ مگر آج ہمارا وہ کلچر گم ہے ۔ رضائیاں بڑی بڑی صندوقوں میں رکھی ہیں۔ برتن شوکیسوں میں بند ہوچکے ہیں۔ کچھ اچھے رسم و رواج تھے ۔ جو گم ہوگئے ۔ اور ان کی جگہ بے فائدہ رواج جن کا مطلب کا دولت دکھاوا ہوتا ہے ، آن گھسے ہیں۔ اور کچھ رسم ورواج اچھا ہے کہ گم ہوگئے ۔۔۔۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*