طاقت اور آزادی

ایک وقت تھا جب انسان پتھر کے زمانے میں رہتا تھا، زراعت کا کوئی نظام موجود نہیں تھا، لوگ شکار سے اپنی پیٹ پوجا کرتے تھے، دور دراز چند ایک لوگ اکٹھے ہو کر ایک کالونی سی بنا کر رہتے تھے تاکہ وہ موسمی اور جنگلی مصیبتوں سے اکھٹے مقابلہ کر سکیں اور ایک دوسرے کی مدد کر سکیں، یہ شعور انسان کو تب بھی تھا کہ مل کر رہنے میں ہی بھلائی ہے۔ تاہم مل کر رہنے میں آسانی تو ہے لیکن کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی تھیں، جیسا کہ کسی ایک کا جھونپڑا ٹوٹ گیا تو سب مل کر بناتے تھے، مختلف دکھ درد میں سب مل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے، کوئی پولیس، فوج یا حکومتی نظام موجود نہیں تھا، ہر بات کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر ہوتا تھا، مثلاً دو لوگوں میں لڑائی ہو گئی ہے اور وہ دونوں آپس میں لڑیں گے جو جیت گیا وہی اس جھگڑے میں بھی جیت جاتا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب عدلیہ کا کوئی نظام موجود تھا نہ کوئی قاضی تھا، گو کہ اب بھی یہاں اس ملک میں یہی نظام موجود ہے، عدلیہ صرف طاقتور کو اس کا حق دلانے میں مدد کرتی ہیں ۔کمزور توپتھر کے زمانے میں بھی حق سے محروم تھا آج بھی ہے۔
پتھر کے زمانے کے بعد زرعی دور کا آغاذ ہوتا ہے، انسان جھونپڑیوں سے نکل کر مستقل بستیاں آباد کرتے ہیں، وہ زمین، ندی، نالے، ہوائیں، دھوپ اور موسم جو انسان کو کبھی ناگوار گزرتے تھے اب انسان ان پر حکمرانی کرنے لگ گیا، دریائوں سے نہریں نکال کر کھیتوں کو سیراب کرنے لگ گیا، دھوپ اور موسمی شدت سے بچنے کے لیے مکانات تعمیر کر لیے گئے، اور حکومتی ڈھانچہ پہلی بار تشکیل دیا جاتا ہے، مذاہب وجود میں آتے ہیں۔ دیوی دیوتاو¿ں کو پوجا جاتا ہے۔
لیکن اب بھی کمزور کی کوئی نہیں سنتا، وقت گزرتا رہتا ہے، کمزور صدیوں کا جبر برداشت کرتا ہوا تاریخ سے گزرتا ہوا کئی ادوار کی بربریت سہتا رہتا ہے، اور اس دوران وہ کسی نہ کسی معجزے کی تلاش میں مگن ہو جاتا ہے، کمزوروں نے کبھی نہیں سوچا کہ کہ وہ مل کر کوئی انقلاب برپا کر سکیں گے، بلکہ انفرادی طور پر وہ خود کو کمزور سمجھ کر غلامی اور ذلت کا شکار رہے۔ افریقہ کے مضبوط جسامت والے، لمبے قد والے اور بھرپور طاقت والے لوگوں کو عرب، فارس، اور آج کے یورپ میں غلام بنا کر بیچا جاتا تھا، اس پورے غلامی کے نظام میں کمزور اور پسے ہوئے لوگوں کے جسموں کو بیجا جاتا تھا لیکن وہ کمزور اور پسے ہوئے طبقے پھر بھی اکٹھے ہو کر یک مشت ظلم اور بربریت کے خلاف نہیں نکلے۔
آخر کیا وجہ تھی کہ انسان صدیوں ساہو کاروں کا ظلم سہتا ہوا آ رہا تھا مگر بولتا نہیں تھا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سرداروں اور جاگیرداری کی چھڑی کے آگے انسان بے بس نظر آتا تھا؟ تو اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے، یہ کہ انسان کو اپنی اصل طاقت کا علم نہیں تھا، وہ جسمانی طاقت کے بارے میں تو جانتا تھا، زورِ بازو سے وہ پتھروں کو ریزہ ریزہ تو کر سکتا تھا۔ لوہے کو کوئی شکل بھی دے سکتا تھا، لیکن اس سے وہ ساہو کار کی زنجیریں نہیں توڑ سکتا تھا۔ تو پھر کونسی طاقت کا اسے علم نہیں تھا؟ وہ طاقت اس کی دماغی طاقت تھی، جب انسان نے سوچنا شروع کیا، پڑھنا شروع کیا،۔لکھنا شروع کیا تب اس نے جانا کہ سب سے بڑی طاقت تو یہی ہے، جب انسانی ذہن نے غلامی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اسے مشترکہ طور پر ظلم اور بربریت قرار دیا تب غلامی کی زنجیریں آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگیں، یہ دیکھ کر ساہو کاروں نے غلامی کے پرانے طریقوں کو بدل کر اسے دلکش بنانے کی کوشش کی لیکن یہ بھی اتنا کارگر نہیں رہا۔ انسان کی سوچ آزاد ہو چکی تھی اور وہ ہر ایک بات جان چکا تھا، وہ سمجھ چکا تھا کہ عدلیہ کا نظام ہو یا حکومتی نظام، وہ صرف ساہو کار کا ہی محافظ اور مددگار ہے۔ پتھر کے زمانے میں جہاں جھگڑوں کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر ہوتا تھا اب بھی طاقتور کے حق میں ہی ہوتا ہے، اس سوچ کی آزادی نے زنجیریں توڑ دیں۔
آج دنیا میں جتنی محکوم اور مظلوم اقوام ہیں، چاہے وہ کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتی ہوں، جتنی بھی طاقت ہو ان کے پاس، جب تک وہ ذہنی طور پر غلامی کو مسترد نہیں کرتیں وہ کبھی غلامی کی زنجیریں کو ہلا نہیں سکتی ہیں۔ آج ان زنجیروں کو نہایت دلکش بنا کر پیش کیا جاتا ہے، کہیں پر انہیں تحفظ کہا جاتا ہے، کہیں پر کہا جاتا ہے، کہ تم ان زنجیروں میں اس لیے بندھے ہوئے ہو کہ باہر جائوگے تو مارے جائوگے، یہ زنجیریں تمہارے تحفظ کے لیے ہیں یہ بیڑیاں تمہارے مفاد کے لیے ہیں، یہ جیل کے باہر پہرہ دار تمہارے تحفظ کے لیے کھڑا ہے، یہ چار دیواری یہ سلاخیں اس لئے ہیں کہ کوئی تم پر حملہ آور نہ ہو سکے۔ ان باتوں کو محکوم سچ مان بیٹھے ہیں، لیکن جس دن ان کے ذہن نے غلامی کو پہچان کر اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، زنجیریں ہٹا کر کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھ لیا، جس دن وہ چار دیواری، سلاخوں اور پہرے داروں سے چھپ کر باہر دیکھنے میں کامیاب ہو گیا اُس دن وہ اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کرے گا، وہ منظر جو وہ دیکھے گا اسے دیکھتا رہ جائے گا، وہ دیکھے گا کہ لوگ کیسے آزاد گھوم رہے ہیں، کوئی حملہ آوار نہیں ہے، یہ جیل تو بس مجھے قید رکھنے کے لیے تھی۔ اصل میں یہ ساہوکار کی ایک چال تھی، وہ اس منظر کو دیکھ کر ساری زنجیریں توڑ کر بھاگے گا، اور ایک ہی لفظ دہراتا دہراتا وہ اس بھیڑ میں گم ہو جائے گا۔۔۔ ”آزادی آزادی آزادی“

ماہتاک سنگت کوئٹہ جولائی

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*