بہاولپور یونیورسٹی

چند دن سے جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے کچھ واقعات سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور اخباروں کی زینت بنے ہوئے ہیں جن میں بہت سے شواہد کے ساتھ اس بات کو سامنے لایا گیا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی کی طالبات کو ہراساں کیا جاتا رہا اور پھر ان کی نازیبا ویڈیوز بنا لی گئیں تاکہ بعد میں بھی ان کو بلیک میل کر کے اپنی مرضی کے مطالبات منوائے جا سکیں افسوس کہ اس سب میں کوئی اور نہیں بلکہ یونیورسٹی کے اعلی عہدیداران اور اساتذہ بھی شامل رہے ہیں تعلیمی اداروں کے تقدس کو پامال کرنے والے یہ خود ہیں رہی سہی کسر سمیسٹر سسٹم نے پوری کر دی ہے کہ جو سیکشنل نمبرز کا استحقاق استاد کو ہے وہ ان کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے اور ان نمبروں اور گریڈز کے چکر میں طلباء و طالبات کو بلیک میل کیا جاتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ آج کل کے نام نہاد اساتذہ کو یہ بھی بہت بڑی بیماری ہے کہ اختلاف رائے سننا پسند نہیں کرتے کوئی طالب علم ان سے اختلاف رائے کرے تو اس کو فیل کر دیتے ہیں ہر شعبہ کا اپنا بنایا ہوا قانون ہے جس کو کسی بھی سزا سے استثنیٰ حاصل ہے
یہاں بات صرف ایک یونیورسٹی کی نہیں اگر دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب سمیت پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں یہی کچھ ہو رہا ہے مگر یہاں سوال یہ ہے کہ اس سب کا زمہ دار کون ہے ؟ آپ لوگوں کو کیا لگتا ہے یہ کوئی پہلا واقعہ ہے؟ جی نہیں! اس سے پہلے بھی کئی ایسے گھناؤنے واقعات ہوتے رہے ان معاملات پر آواز بھی اٹھائی گئی مگر شنوائی نا ہوئی ، کوئی کاروائی نا کی گئی اور مجرم کو شہہ ملتی رہی معاملے کو دبا دیا جاتا رہا
آپ کو کیا لگتا ہے یہ سب آسان ہے۔۔؟ نہیں کسی بھی جرم کے ثابت ہونے پر بچنا آسان نہیں ہے لیکن ہمارے ملک میں مجرم کیوں بچ جاتا ہے کبھی سوچا ہے آپ نے؟؟
صرف اس لیے کہ ساری انتظامیہ اس واقعہ میں ملوث ہوتی ہے ان کالی بھیڑوں کا اثرورسوخ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ دنیا جہان کے ثبوت بھی ان کو سزا دلوانے سے قاصر ہیں ہمارے ملک میں قانون نام کی کوئی چیز اپنا وجود نہیں رکھتی سارے بکاؤ مال ہیں برائی کو مکمل طور پر سپورٹ کرتے ہیں بلکہ خود بھی اس میں شامل ہوتے ہیں انتظامیہ کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے وہ معاملے کو رفع دفع کردیں وگرنہ اوپر سے نیچے تک شامل سب درندوں کے نام سامنے آئیں گے یہ تمام سرگرمی باقاعدہ ایک پلاننگ سے ہوتی ہے کہ اگر ایک بھی پکڑا جائے تو باقی سب کس طرح سے اس کو بچائیں گے اس لیے تو یہ اسکینڈلز ہر دوسرے روز سامنے آتے ہیں چند برائے نام انکوائریاں ہوتی ہیں اور معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے کیوں کہ یہاں مجرم بھی یہ خود ہیں اور منصف بھی تو کہاں سے ملے گا انصاف
فیض صاحب نے کہا تھا نا کہ
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
فرض کیا معاملہ زیادہ سنگینی اختیار کر بھی جائے تو حکام بالا تسلیوں اور تشفیوں کے علاوہ کچھ کر نہیں پاتے حالانکہ سارا سچ سامنے بھی ہوتا ہے مگر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا اگر بہت ضروری بھی ہو تو چند لفظ مذمت کے بول کر سمجھتے ہیں ان کا فرض پورا ہو گیا کہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا تو اپنے پول نا کھل جائیں کہ ماسٹر مائنڈ تو وہ خود ہیں اور یہیں مجھے شاعر کی یہ بات بہت شدت سے یاد آئی
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے ان کیسز کی روک تھام کے لیے ایچ-ای-سی کو ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں جامعات میں ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو کہ غیر جانبداری سے تمام معاملات کو حل کریں کوئی بھی جانبداری کا مظاہرہ کر کے کسی طالب علم سے نا انصافی نا کر سکے گورنر یعنی چانسلر کو چاہیے تمام جامعات میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دے جو بروقت کارروائی عمل میں لائیں تاکہ بچیوں کے لیے جامعات میں موجود یہ مسائل ختم ہو سکیں اور گزشتہ دنوں سے جو پریشانی اور تشویش کی ایک لہر والدین میں پیدا ہو چکی ہے وہ بھی کم ہو اور والدین بغیر کسی خوف کے اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹیوں میں بھیج سکیں اور اگر حکومت اور ایچ-ای-سی یہ اصطلاحات نافذ نہیں کرسکتی تو پھر واحد حل یہی ہے والدین بجائے یہ کہ اپنی بچیوں کو اس خوف سے گھر بٹھائیں کہ ماحول اچھا نہیں ہے بلکہ ان کو اتنا مضبوط بنا کر یونیورسٹی تک بھیجیں اور ان کو یہ باور کروا دیں کہ نمبروں اور گریڈز کہ چکروں میں نہیں پڑنا بلکہ اگر کوئی ایسا مطالبہ کرتا ہے تو اس کو اس کی اوقات کیسے یاد دلوانی ہے اور ان درندوں کو خود سزا دیں کیونکہ ہمارا قانون اندھا ہے ، ہماری عدالتیں بہری ہیں اور ہمارے افسران نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں لہذا اپنا دفاع خود کریں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*