کتاب ریویو

روزن زندان
مصنف ڈاکٹر سلیم کرد

بلوچستان کا سیاسی کارکن نظریاتی وابستگی، ایثار اور بلند کردار کی وجہ سے اس خطے میں سیاست کی آن سمجھا جاتا ہے وہ سماجی طور پر مسلمہ انسانی روایات کا آمین بھی تھا۔

اللہ بخش بزدار کا مذکورہ بالا بیان ڈاکٹر سلیم کرد اور اس کے دیگر سیاسی ساتھیوں پر بلکل صادق آتا ہے۔ ان کی تمام تر زندگی اس جدوجہد میں گزری ہے کہ وہ اپنے نئے نسل کو فتنہ انگیزیوں اور شر پسندوں سے بچنا چاہتے تھے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آج بھی اس خطے کا وہی حال ہے جیسا ڈاکٹر سلیم کرد نے اپنے ڈائری میں اس وقت کے احوال نوٹ کئے تھے۔

روزن زندان ڈاکٹر سلیم کرد کی وہ دائری ہے جس میں 1973ء سے لیکر 1984ء تک وقت زندان میں بسر کی اور وہ لکھتے ہیں کہ انہیں پاکٹ ڈائری رکھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ جن میں وہ اس وقت کے بدلتے ہوئے حالات اور واقعات نوٹ کرتا رہا۔ یہ کتاب 1973 کی ڈائری کے توسط سے پایہ تکمیل تک پہنچی اور 1973 میں لکھی گئی پہلی گرفتاری سے متعلق ہے۔ جس میں اس دور میں رونما ہونے والے واقعات اور ان کے پس منظر کو بیان کیاگیا ہے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر سلیم کرد نیپ بلوچستان کا ایک سرگرم کارکن رہاہے انہوں نے اپنے بڑے بھائی اسلم کرد کے ہاں اسکول کے زمانے سے سیاست میں قدم رکھا ہے۔ ابتدائی سیاست کا آغاز یوں ہے کہ 15 فروری 1973 میں مرکزی حکومت کی طرف سے نیپ بلوچستان کا گھیرا تنگ کیا اور اس سلسلے میں نیپ کے قائدین کے گرفتاریاں عمل میں آئی اور میر غوث بخش بزنجو کو سبکدوش کرکے ان کی جگہ نواب اکبر خان بگٹی کو بلوچستان کا گورنر نامزد کیا۔ اس کے ساتھ صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمیعت العلماء اسلام کی مخلوط حکومتیں توڑدی گئیں اور یہ سب کچھ اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہدایات پر ہوا۔ نواب اکبر بگٹی کا گورنر نامزد کرنا ایک چال تھا جس میں نواب اکبر بگٹی بری طرح پھنس گئے اور اس نامزدگی کے بعد وہ اپنے سرداروں اور اپنے لوگوں کے بھی مخالف ہوگئے اور اس کا براہ راست فائدہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ہوا۔ ان گرفتاریوں کے بعد بلوچستان میں آرمی کا آپریشن سر انجام دینے پر سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنے خطاب میں اس پر بیان دیا کہ مسلح افواج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس عمل سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت وزیراعظم کے کیا ارادے تھے۔

اگست 1973 میں نیپ کے قائدین کو گرفتار کیاگیا جن میں سردار عطاء اللہ مینگل، میر غوث بزنجو اور دیگر کارکنان شامل تھے ان گرفتاریوں کے خلاف بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پشتون اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے سائنس کالج کے سامنے احتجاجی مظاہرہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں احتجاج کرنے والوں میں سے کئی کارکن گرفتار ہوئے۔ ان گرفتار کارکنوں میں سلیم کرد بھی شامل تھا اور یہ سلیم کرد کی پہلی گرفتاری تھی اور اس وقت میٹرک میں پڑھتے تھے۔

ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں ان کے ساتھ دیگر سیاسی کارکنان بھی تھے جن میں علی احمد کرد، امان اللّٰہ بازئی، امان اللہ شادیزئی اور آغا وہاب شاہ دلسوز بھی تھے۔ان میں سے دیگر کئی سیاسی کارکنان اس سے پہلے بھی کئی دفعہ گرفتار ہوچکے تھے خاص کر وہ کارکنان جو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور پشتون اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی گرفتاری کی وجہ اس وقت کے احتجاجی مظاہرے تھے جو ون یونٹ کے خاتمے کیلئے ہورہی تھی یہ سیاسی کارکنان ان احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش تھے۔ ون یونٹ کے خاتمے کیلئے جتنی قربانیاں بلوچستان کے سیاسی کارکنوں اور تنظیم کے کارکنوں نے دی ہے شاید ہی اس قدر مزاحمت کسی اور جگہ پر ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے سیاسی کارکنوں نے کراچی میں بھی ون یونٹ کے خاتمے کیلئے احتجاجی مظاہرے کئے تھے۔ انہوں نے ایوبی آمریت میں بھی بہت کچھ سہا جو کہ ایک ڈکٹیٹر تھا اور سویلین گورنمنٹ میں بھی بہت کچھ سہا جسے نام نہاد جمہوریت کا نام دیا تھا۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ نواب اکبر خان بگٹی ذوالفقار علی بھٹو کے چال میں پھنس گئے اور نواب اکبر بگٹی نے اپنے سرداروں کے خلاف ہی سازش کیا اور ان پر غداری کا فتویٰ لگایا جیسا کہ میر شیر محمد مری کا ایک بیان ہے
میر شیر محمد مری سے کہاگیا کہ ایک تحریری بیان موجود ہے جس میں نواب اکبر بگٹی نے ایک سازش تیار کی تھی اور اس سازش کیلئے اس نے میر شیر محمد مری کو بھارت بھیجا تھا اس پر شیر محمد مری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حیران کن بات ہے کہ آپ کے پاس ملک کے دشمن کا ایک ایسا بیان موجود ہے اور پھر بھی آپ نے اسے بلوچستان کا گورنر مقرر کیا ہے۔ پولیس آفیسر نے شیر محمد مری سے کہا اکبر بگٹی وعدہ معاف گواہ ہے اور مرکز کی حکومت نے اس کی قیمت ادا کی ہے اس پر شیر محمد مری نے کہا کہ اگر میں بھی نیپ بلخصوص اس کے قائدین ولی خان، غفار خان، میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ مینگل کے خلاف وہ باتیں کہوں جو پولیس مجھے بتاتے تو مجھے اکبر بگٹی سے زیادہ نوازا جاسکتا ہے۔

حالات بدلتے گئے اور جیسے جیسے اکبر بگٹی کو اس چال کا پتہ لگنے لگا انہوں نے گورنری سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا مگر ذوالفقار علی بھٹو اس پر زور ڈالتے اور ایک سال کیلئے اسے روکنے کو کہا۔ اندازہ لگائے تو واضح ہوتا ہے کہ جو ان کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرتے تھے وہ تو تھے ہی غدار اور ملک دشمن مگر انہوں نے ان لوگوں کو بھی نہیں بخشا جو ان کے وفادار تھے ان پر غداری کے فتوے صادر کئے اور غداری کے الزام سے نہیں بچ سکیں۔

ڈاکٹر سلیم کرد کی یہ کتاب بلوچستان کی تاریخ میں ایک اہم پیش رفت ہے اور اس حوالے سے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب ہر بلوچستانی کو ضرور پڑھنی چاہئے۔ خاص کر وہ لوگ جو نیپ بلوچستان اور ون یونٹ کے حوالے سے بلوچستان کی سطح پر اس وقت کے حالات سے واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کیلئے یہ کتاب ایک انمول تحفہ ہے۔ انور ساجدی کا ڈاکٹر سلیم کرد کے کتاب پر یہ جملہ دل آویز ہے کہ ڈاکٹر سلیم کرد کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک لکھاری بھی ہے اور عمر کے سنجیدہ حصے میں بلوچستان کے تاریخی واقعات ان کا پسندیدہ موضوع ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*