آل انڈیا بلوچ کانفرنس

بلوچ کانفرنس نزع کے عالم میں

یوسف عزیز مگسی 27مارچ 1934کو بمبئی سے لندن روانہ ہوگیا۔اُس کی سرداری کا کیا بنے گا، اور ”علاقہ کون چلائے گا“ کا معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ نہ رکھا گیا۔ اور وقتی طور پر سرداری کو اس کے بھائی محبوب علی کے سپرد کیا گیا۔ یہ عرصہ چھ ماہ رکھا گیا۔ یوسف کے واپس نہ آنے کی صورت میں محبوب کی چھ ماہ کی سرداری کی مدت کو بڑھایا جانا تھا۔

محبوب علی ایک نوجوان،مستعد، شریف النفس اور اپنے فرائض پر پورا پورا اترنے والا انسان تھا۔ اس کی طبیعت میں کافی تحمل،بردباری اور سنجیدگی پائی جاتی تھی۔ اس کی اعلیٰ اہلیت سے محکمہ نظامت کا کام نہایت خوش اسلوبی سے ہوتارہا۔جملہ سردار خیل اس کی فرمانبرداری کے تحت چل رہے تھے۔بقول روزنامہ آزاد”بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ علاقہ مگسی اس وقت ایک گوشہِ عافیت ہے جہان نہ کسی قسم کا شور و شرابہ ہے۔ نہ کسی قسم کا جھگڑا، فساد۔ اور نہ کسی قسم کے اندرونی مخمصے پائے جاتے ہیں۔

بلوچستا ن صدیوں کی غفلت کے بعد بیدارہوا۔ اس کے نوجوان چاہتے تھے کہ ان کا پسماندہ ملک بھی اخلاقی،اقتصادی، تمدنی اور معاشرتی لحاظ سے کم از کم ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے برابر ہوجائے۔بلوچستان جدید اپنی 8مئی 1934کی اشاعت میں لکھتا ہے:”مگر بلوچستان کی حکومت کے بعض ناعاقبت اندیش عمال اور ملک وقوم کے چند دشمن سردار مخالفت کر رہے تھے“۔ (سردار اور ملک دشمن؟۔ تیری یہ مجال؟)۔جو غالباً یہ چاہتے تھے کہ آنے والی صدیوں تک بلوچستان تباہی اور زبوں حالی کے تباہ کن بھنور میں پھنسا رہے۔یہی وجہ ہے کہ سرکار نے ایسے نوجوانوں پر ستم ڈھانا شروع کردیا جو بلوچستان کی سرزمینِ بے آئین کے لیے آئینی حکومت چاہتے تھے۔ جولوکل سیف گورنمنٹ مانگتے تھے۔ جو جرگے کی اصلاح اور اس کے لیے آزاد الیکشن چاہتے تھے۔

یہ لوگ بے زبان عورتوں کی حقِ وراثت سے محرومی،زرِ ولورا ورزرِ خون کی مخالفت کرتے تھے۔ اور تقریرو تحریر کی آزادی چاہتے تھے۔یہ نوجوانوں کے وہ جرائم تھے جن کی پاداش میں وہ گردن زدنی کے سزا وار ٹہرائے جارہے تھے۔

میر یوسف مگسی کی زیر قیادت اِس ساری سامراج دشمنی اور جمہوری جدوجہد کا مقصد بے عقل حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ یہ سب کچھ سرداری حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہے۔ اس لیے اسے قبیلہ مگسی کی سرداری دی گئی۔مگر ہم سب نے دیکھا کہ حکومت کی غلط فہمی جلد ہی دور ہوگئی۔ اور دنیانے دیکھ لیاکہ سرداری پانے پر بھی یوسف عوام کی تکالیف سے بے چین ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔کوئی حربہ، کوئی لالچ، کوئی عہدہ اُس انقلابی کو عوام دوستی سے دور نہیں کر پارہا تھا۔

لہذا اُس مصیبت سے نجات کے لیے کوئی اور تدبیر چاہیے تھی۔انگریز سازشیوں، مکاریوں،اور بازی گریوں میں استاد تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ یوسف عزیز مگسی عوام میں اس قدر مقبول ہے کہ اُس کی موجودگی میں اُس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا 27مارچ 1934کو اُسے انگلینڈ بھیج دیا گیا۔ اور اس کی غیر حاضری میں اُس کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کردیں۔

۔8مئی1934(صفحہ8)کا ”بلوچستان جدید“لکھتا ہے:”تازہ اطلاعات مظہر ہیں کہ حکومت کے ارباب بست وکشاد کے جور و استبداد کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتاجارہا تھا۔ بلوچستان کے مجاہدِ اعظم خان عبدالصمد خان اچکزئی او رضیغمِ بلوچستان میر عبدالعزیز خان کرد کو سنگین سزائیں دینے کے بعد بھی اُن کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوسکی۔اس لیے اب انہوں نے فخرِ بلوچستان نواب محمد یوسف علی خان تمندار مگسی کو سرداری سے معزول کرنے کی ٹھان لی “۔

سرداروں کی اکثریت انگریز کے ساتھ تھی۔(کب نہ رہی!)۔انگریز کا سب سے بڑا نمک خوار ادارہ تو خود کلات کی سٹیٹ کونسل تھی۔ چنانچہ ہمیں (8مئی 1934کے) اخبار ”بلوچستان جدید“میں سٹیٹ کونسل کے سامنے پیش کردہ یہ ایجنڈا ملتا ہے:

۔ ”1۔ جرگہ میں سردار میر محمد یوسف علی خان نے شمولیت نہیں کی۔ کیا وہ سرداری کا اہل ہے۔(سبی دربار میں۔ اور خان قلات کی رسم تاجپوشی میں شرکت نہ کی)۔

۔2۔ سردار محمد یوسف علی خان ہزہائی نس خان قلات سے اجازت حاصل کیے بغیر یورپ چلا گیا ہے،کیا وہ سرداری کا اہل ہے؟“۔

حالانکہ سردار جانتے تھے کہ مگسی کو کس طرح بیرون ملک بھیجا گیا۔ اور دو تین ماہ ہوگئے کہ اس کے علاقے کا نظم ونسق سردار محبوب علی خان کے حوالے ہے۔ حالانکہ خود نواب مگسی بھی اِس سارے معاملے کی اطلاع باقاعدہ طور پر افسران ِمتعلقہ کو دے چکا تھا۔

اس کے علاوہ تمام سرکاری، سرداری اور خان کے اجتماعات وغیرہ میں اس کا قائم مقام حاضر ہوتا رہا ہے۔ہزماسٹر ز وائس اور کیا ہوتا ہے؟۔سوال یہ بھی ہے کہ ایسی کسی میٹنگ میں مگسی سردار کا نمائندہ بھی شامل نہ ہوتا تب بھی یہ عدم شرکت کوئی ایسا جرم نہیں تھا، جس کی پاداش میں وہ سرداری سے معزول کئے جانے کا سزا وار ہوسکتا تھا؟۔

اسی طرح یہ بھی غور طلب بات ہے کہ کیا مگسی سردارخانِ قلات کا نجی ملازم ہے کہ اُس سے اجازت لے کر جاتا؟۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ تو خانِ کلات کے بھی آقا یعنی انگریز کے مقرر کردہ پولیٹکل ایجنٹ قلات اور وزیراعظم کے مشورے سے ”بغرض علاج“لندن گیا تھا۔

مگر سٹیٹ کونسل کے سامنے موجود سوالات اپنے اندر ہی جواب لیے ہوئے تھے ۔بھیڑیا خواہ بہاؤ کے اوپر ہو تب بھی بھیڑ کے بچے پر ہی پانی گدلا کرنے کا الزام لگاتا ہے۔زور آور دلیل اورجواز کا محتاج نہیں ہوتا۔ چنانچہ انہی دو بھدے الزامات کو بنیاد بنا کر:”سٹیٹ کونسل نے فیصلہ صادر فرمایا کہ سردار محمد یوسف علی خان سرداری کے اہل نہیں“۔چل چھٹی۔

حکمران طبقات متبادل کا پہلے ہی انتظام کر چکے تھے۔(اِن کا ہوم ورک کبھی نامکمل نہیں رہتا)۔چنانچہ سٹیٹ کونسل کے حکم کے اگلے دو فقرے یہ تھے۔”اس کو ہٹا کر سردار گل محمد سابق معزول شدہ سردار کو دوبارہ سردار بنایا جائے“۔ کیوں؟۔ ہاہاہا۔ اس لیے کہ ”پچھلی دفعہ سردارگل محمد کو بلاقصور سرداری سے ہٹادیا گیا تھا“۔۔۔ہت تیری!۔دیکھا؟۔انگریز اپنا ضرب المثل خوب جانتا تھاکہ: When cat is away mice play۔ حربہ کامیاب۔

سرداروں کے تو طبقاتی مفاد میں یوسف کے نعرمائے مستانہ پہلے ہی بلوچی تھیریم جتنی بڑی شگاف ڈال چکے تھے۔ وہ توبقول نور محمد ترہ کی ”بیل ذبح ہونے کے بعد بہت زور زور سے ٹانگیں مارتا ہے“۔ مگر سردار کا تو ذبح ہونا ابھی پوری ڈیڑھ صدی قبل از وقت کی بات تھی۔یہاں تو اسے تو محض سرمیں یوسفی ڈنڈا لگ گیا تھا۔

چنانچہ مگسی کی طرف سے اپنے قبیلے کے اندر زبردست حسنِ انتظام اور سکون و آرام اور رعایا کی خوشی خوشحالی کے قیام کے باوجود فیوڈل وسردار طبقہ موقع کی تاڑ میں تھا۔ ترازو میں عوام کا پلٹرا بھاری ہو تو سمجھو مراعات یافتگی کا پلڑاہوا میں!!۔چنانچہ نواب یوسف علی خان ولایت کیا گیا کہ جملہ سرداران قلات بیک آہنگ اس قدر مشتعل اور پُر خوں ہوکر سامنے آئے کہ وہ نواب یوسف علی کو سرداری سے علیحدہ اور معزولی کے مشورے او رپروپیگنڈا زور شور سے کرنے لگے۔ اس کے باوجود کہ تمام تمن مگسی میں اس خبرِوحشت اثر سے ایک زبردست ہچان پیدا ہورہا تھا اور قوم مگسی کسی طرح سے بھی اس امر کو گوار ا کرنے کے لیے ہرگز تیارنہیں تھی کہ نواب یوسف علی خان کو سرداری سے بر طرف کر کے کسی نئے سردار کا انتخاب عمل میں لایا جائے۔ سرداروں کا سردار اور خانوں کا خان”حضور ہزہائی نس والی ِقلات“بھی ان سرداروں کے مشوروں سے متفق تھا۔ چنانچہ سردارانِ قلات اور والئے قلات کی طرف سے چار افراد (ارباب کرم خان اسسٹنٹ وزیراعظم، خان محمود خان ای۔اے۔ سی،سردار نور محمد بنگل زئی، سردار رسول بخش مینگل)پر مشتمل ایک گروپ 1934کے 26اپریل کو جھل پہنچا۔ اُس سے ذرا پہلے کوئٹہ میں لطف علی خان نندائی افسر مال جھل، حسین بخش خان مگسی،میر امیر جان مگسی کو بلاکر انہیں خوف ولالچ دے دے کر ان سے نواب یوسف علی خان کے خلاف دستخط لیے گئے۔ اور بعد میں دوسری مقدمین ومعتبرین قوم مگسی اور سردار خیلانِ مگسی کے دستخط لینے اور انہیں سٹیٹ کو نسل کی رائے سے متفق کرنے کے لیے ان چار آدمیوں کا گروپ جھل پہنچا۔27اپریل کو جملہ مقدمین مگسی اور ان چار آدمیوں کے گروپ کے مابین ایک طویل بحث تمحیص ہوئے۔بالآخر تمام مقدمیں، معترین اور سردار خیلانِ مگسی نے بڑی جرح قدح کے بعد اپنے سردار کے خلاف دستخط دینے سے صاف انکار کردیا۔(27اپریل اب تک اچھا دن ثابت ہوتا رہا ہے)۔

مقدمین مگسی نے کہا کہ سردار یوسف علی خان کے عہد ِسرداری میں آج تک ہمارا کوئی مقدمہ یا کوئی مثل کسی افسر بالا کے دفتر میں نہیں گیا۔ اُلٹا سابق سردار گل محمد کے وقت سے جو فائلیں پی۔ اے قلات کے دفتر میں فیصلہ کے لیے رکھیں تھیں۔ وہ بھی واپس ہمارے ہاں فیصلے کے لیے آرہی ہیں۔ ہمارے علاقہ میں ہر طرح کا امن وامان ہے۔ بچہ سے لے کر بوڑھا تک تمام آبادی امن وآشتی کی زندگی گزار رہی ہے۔یہ کیا ظلم ہے کہ باوجود امن وآرام اور راحت وسکون کے، ہمارے سردار کو معزول کیا جارہا ہے۔ ہمارا سردار چھ ماہ کے لیے معالجہ کی غرض سے ولایت گیا ہے۔ واپس آئے گا۔ ہمیں ہر گز دوسرے کی سرداری منظور نہیں ہے۔ (2)۔

مگر انگریز جانتا تھا کہ پارٹی اب ختم کرنی ہے۔ مگسی اور اس کی بلوچ کانفرنس ایک مستقل ومسلسل کانٹا ہے جو سامراجیت اور فیوڈل سرداروں کے گلے میں اٹکی ہوئی ہے۔ سامراج کو لُوٹ چاہیے ہوتی ہے اور سردار کو اس عمل میں حصہ دار۔بدامنی، بے چینی، خوف اور لالچ کی فضا سخت اور طویل ہو تو زیادہ سر جھکنے کو تیار ہوتے ہیں۔چنانچہ جس سردار کی رعایا اس قدر اپنے سردار سے خوش اور با آرام ہو۔ امن وامان میں ہو۔ اور علاقہ میں بھی کسی قسم کا بیرونی واندرونی خطرہ یافتنہ وفساد نہ ہوتو وہ تو سرداری نظام کے لیے بڑا خطرہ تھا۔ علاج؟۔ یہ کہ اس سردار کی رعایا کے جذبات کا خون کرکے اس سردار کی معزولی سے تمام تمن میں ایک قسم کا اشتعال یاجوش پیدا کیا جائے۔ اور اپنی ہرناتمام سعی کو اس پر ختم کرڈالا جائے کہ کسی نہ کسی طرح سے قوم سردار کے خلاف ہوجائے۔

”بلوچستان جدید“ نامی مذکورہ اخبار ہمیں بتاتا ہے کہ ارباب کرم خان اسسٹنٹ وزیراعظم نے گنداوا پہنچ کر وہاں سے آرڈر بھیجا کہ ہمارے جھل پہنچنے سے پہلے پہلے میر محبوب علی خان جھل سے باہر نکل جائے۔ اور فوراً کوئٹہ پہنچے۔ تاکہ اس کی موجودگی قوم مگسی کو اپنے سردار کی مخالف کرنے کے سلسلے میں اثر انداز یا منافی نہ ہوسکے۔ اس وقت میر محبوب علی خان معہ معتبران میر اعتبار خان، سمیڑ خان، میر عظیم خان، میر شکر خان، میر گاجن خان، میر لعل بخش خان، میر بلوچ خان، میر امیر جان خان، میر گوہر خان مستونگ بلائے گئے ہیں۔ جاتے وقت یہ تمام معتبرین اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو ہدایت کر گئے کہ خبردار اپنے عزیز اور محبو ب سردار کے پیچھے قید ہوجاؤ،پھانسی پر لٹکاجاؤ، مارے جاؤ، شایدان معتبرین کو وہاں دوسرے سردار کے انتخاب کو عمل میں نہ لانے کی پاداش میں قید رکھا جائے گا۔

۔۔بالآخر حکومت نے جام نوراللہ خان کو علاقہ مگسی کا انچارج کر کے بھیج دیا۔ 3۔۔

چنانچہ وہ ساری تحریک جو کرد، صمد اور مگسی کی گرفتاریوں، مالی قربانیوں اور جسمانی تگ ودوسے اچھی خاصی قد آور درخت بن چکی تھی ایک بار پھر طبقاتی معروض کی پینتر ے بازیوں کی نذر ہوگئی۔۔۔ ارے بھئی۔ابھی بلوچ معاشرہ رد عمل کی پوزیشن ہی میں نہ تھا۔ بلکہ مگسی کی سرحدوں سے پرے مکران وڈیرہ جات کو معلوم تک نہ تھا کہ جھل کیا انقلابی کروٹیں لے رہا تھا۔ اس لیے بلوچ عوام اپنی بے خبری میں جھل سے کوئی یک جہتی نہ دکھا سکا۔جبکہ طبقاتی دشمن یعنی سردار سندھ وہندکا اکھٹے ہو کر بلوچ قوم اور جمہوری تحریک پہ پِل پڑا تھا۔ ہماری تحریک ایک بار پھر 1940کے نفسک جنگ تک کے لیے ”آب ِگم“ ہوچکی۔

پتہ نہیں کچھ لوگوں کے فقرے قوموں کی تقدیر کیسے بنتے ہیں۔بس اِدھر امین کھوسو کے دو پیرا گراف نقل کرنے کو انگلیاں مچل رہی ہیں:

”۔۔۔اور جو حضرات یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ عبدالصمد یا یوسف وغیرہ کو کان میں کوئی مخصوص ملک کہتا ہے اور وہ رقص میں آکر آپے سے باہر ہو کراصلاحات اصلاحات پکارتے ہیں۔ ایسے حضرات بھی شکریہ کے مستحق!۔ لیکن ہم لوگوں کو ایسے نظریہ سے ذرہ اتفاق نہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عبدالصمد کا وجد میں آنا اور یوسف پر حال کا حاوی ہونا صرف ان چند نفوس تک محدود نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی ملک کے دردوالم کی ایک پکار ہوتی ہے جو یوسف کی صورت پکڑ لیتی ہے۔ یا کسی رسم ورواج سے خونخوار زخم کھائے ہوئے معصوم دوشیزہ کے آنسو ہوتے ہیں جو کسی امین کے قلم سے ٹپک ۔پڑتے ہیں۔ یا ہزاروں بے گناہ مظلوم لوگوں کی صدائیں ہوتی ہیں جو کسی کرد کی تحریروں اور تقریروں کا جوش بن جاتی ہیں۔۔۔“(4)

***

افقِ بلوچستان سے ساری بتیاں گل کردی گئی تھیں۔ ایک طرف جگمگاتا لندن اور دوسری طرف مچ کی تاریک کو ٹھری ہماری روشنیاں ہڑپ کر چکی تھیں۔ ہماری عوامی تحریک نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی۔آگے نمودار ہونے کے لیے اس نے ایک بار پھر اپنا نام اور جھنڈا حلیہ بدلنے تھے۔ ایک حل تو یہ سوچا گیا کہ، انجمن اتحاد بلوچستان کو دوبارہ متحرک کیا جائے۔ اب چونکہ 1934میں آل انڈیا بلوچ کانفرنس تتر بتر کردی گئی۔ یعنی اس کا وجود ہی غائب ہوچکا، توسالانہ جلسے کے لیے انجمن کے ارکان سے اپیل کی گئی:

”۔۔۔ میں آج بلوچستان کے غیور وطن پرست فرزندوں کو نہایت زور کے ساتھ اپیل کرتا ہوں کہ اس سال شاید بلوچستان اینڈ آل انڈیا کانفرنس کا سالانہ جلسہ منعقد نہ ہو۔۔ میں انجمن اتحاد بلوچستان کے جملہ اراکین و ممبران کی توجہ اس امر کی طرف جلب کرنا چاہتا ہوں کہ اس آنے والی کرسمس تعطیلات میں وہ انجمن کے پندرھویں سالانہ جلسہ کے انعقاد کی تیاری کریں۔ (5)مگر بات نے نہ بننا تھا نہ بنی۔

جو امید باقی تھی وہ یہ کہ ابھی تینوں ستارے زندہ تھے۔ جلاوطنی اور قید وبند تحریکوں تنظیموں کو مارتی نہیں، الٹا مضبوط بناتی ہے۔ امکانات اُس وقت بڑھ گئے جب میر یوسف علی خان ایک سال لندن میں جلا وطن رہنے کے بعد31جنوری 1935 کو لندن سے واپس کراچی پہنچا۔یہ چھلاوہ وہاں سے وہ سکھرگیا اور پھر وہاں سے ڈھاڈر گیا اور ایک ہفتہ تک خان احمد یار خان کے ساتھ رہا۔ (6)

مگریہاں واپسی پر بھی اُسے معلوم ہوگیا کہ اس کے لیے کوئی آڑو نہیں پکے تھے۔ آتے ہی اُس پہ پابندیاں لگ گئیں۔یوسف کو سب باتوں کی خبر ہوتی رہی۔ وہ واپس آیا تو یہ ساری کا یا پلٹ ہوچکی تھی۔ اس نے امین کھوسہ کو ایک خط میں یوں کہا:

” جام صاحب کے چارج لینے کے بعد بندہ آج کل فارغ زندگی بسر کر رہا ہے۔ سوائے ایک چھوٹے سے باغ میں کام کرنے اور درختوں کی دیکھ بھال کرنے کے، تقریباً فارغ ہوں۔ مگسی اُسے محسوس کر رہے ہیں، مگر میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔

جو کچھ ہوا ہے، واقعات کی اپنی رفتار ہے۔ میں جھل کے لیے یہ کچھ نہیں چاہتا تھا جس طرح کہ ہورہا ہے۔

بلکہ میرا ذاتی ششم حصہ بھی گورنمنٹ کے زیرِ انتظام ہے۔ اور طرہ یہ کہ سب کو الاؤنس مل رہا ہے۔ مجھے اس سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ خیر بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا علاج نہیں ہوسکتا۔ جام نور اللہ بذاتہ میرے مہربان ہیں مگر پھر بھی ان کی موجودہ ذمہ داری بحیثیت گورنمنٹ افسر ہے جس کے برخلاف یوسف اِس وقت تک لڑتا رہا۔ مگر قوم کے حالات نے قدر ے شکستہ دل بنا رکھا ہے۔ جب تک جَھل میں ہوں، میرا مرکزِ توجہ جامعہ کے بچے اور باغبانی ہے۔۔۔

محبوب نے بھی سرداری سے استعفادے دیا ہے۔

”اب جُھل کا کوئی سردار نہیں۔ مالی اور سیاسی امورات سب جام کے ہاتھ میں ہیں۔ اس وقت تک اچھا کامیاب رہا ہے،آگے کون جانے۔“

اُسے ایک اور خط میں اس نے لکھا: ”سرداری کے بارِ گراں سے تو سبکدوش ہوا، اب گزارہ بھی تو آخر کرنا ہے۔۔۔۔ خان قلات نے اپریل کے بعد بیس دن قلات میں آکر اپنے کے پا س رہنے کی دعوت دی ہے۔ کاش کہ آپ بھی چلتے۔ ان کے پاس سیاست لڑانے تھوڑا ہی جائیں گے۔ یہ صرف ایک آزاد وقت تفریح میں گزارا جائے گا“۔

کیا آپ نہیں سمجھتے تھے کہ مجھے سرداری پھر حاصل کرنے کی کس قدر تمنا تھی اور میں ٹھوس، عملی خدمت کے اس موقع کو پھر سے حاصل کرنے کے لیے کس قدر مضطرب تھا۔ بایں ہم حالات وواقعات اور حکومت کے ارباب ِاقتدار کے اندازواطوار کو جانچ کر اس کے مطابق کوشش بروئے کار لانا، یہ سب چیزیں ایسی تھیں کہ اگر اس جذبے کے حاصل کرنے کی تمنامیں نظر انداز کی جاتیں تو وہی بات ہوتی:

بات بھی کھوئی التجا کر کے

اس ساری صورتحال کا خلاصہ21مئی 1935کو روزنامہ انقلاب نے یوں لکھا:

”اچکزئی اور کرد کے علاوہ بلوچستان کے ایک اور سیاسی کارکن نواب یوسف علی خان عزیز مگسی کی برطانوی حکومت کے ظلم و استبداد کا شکار تھے۔ درد مند مخلص، جواں ہمت، بیدار مغز،اورروشن خیال عزیز مگسی نے بلوچستان میں سیاسی بیداری کے سلسلے میں بے حد مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ یورپ میں علاج کے لیے دس ماہ قیام کے بعد جب وہ بلوچستان واپس لوٹے تو برطانوی حکومت اس خطرے کے پیش ِنظرڈرگئی کہ کہیں وہ واپسی پر اس رجعت پسندانہ نظام کے خلاف آواز بلند نہ کریں۔اس نے یہ حکم جاری کردیا کہ وہ تین سال تک اپنے علاقے یوسف آباد میں رہیں اور پولیٹیکل ایجنٹ کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکلیں۔برطانوی ہندکے کسی سیاسی اور اندرونی اور بیرونی سیاست سے بے تعلق رہیں ۔۔۔۔“

مگر اِن سب سے ایک بڑی تبدیلی آنی تھیں۔ اور اس بار یہ تبدیلی اورسیاسی معاشی نہ تھی۔ ایک، ضلع فرد یا قبیلے کی بات بھی نہ تھی۔ اس بار ”ٹکٹانک پلیٹس“میں ہمارا نمائندہ ”شیودیوتا“ کسی دِکشا ؔ سے ناراض ہوگیا۔ مئی1935 کے تیسرے ہفتے میں وہ بلوچستان واپس آیا اور کوئٹہ میں سرکاری ڈاک بنگلے میں اقامت گزیں تھا (7) کہ 30اور31 مئی1935کی درمیانی شب3بج کر5منٹ کو غصے سے بپھرے شیو دیوتا نے وحشیانہ رقص شروع کردیا۔ ایسا ہولناک رقص کہ وادی کوئٹہ، مستونگ اور قلات کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ ایسا زلزلہ جو جانی و مالی بربادی تو لایا ہی،مگر ہماری سیاست کا جنت نظیر جبل المُوت کا قلعہ بھی گرا گیا۔ ہمارا محبوب لیڈر اور بانیِ تحریک میر یوسف علی خان عزیز مگسی کو بھی اس زلزلے نے نگل لیا۔اُس کی عمر اُس وقت27برس تھی۔

بلوچستان صدموں میں سے گزرنے میں پی ایچ ڈی شدہ خطہ ہے۔ مگر کچھ صدمات ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے خود آسمان روتا ہے۔اس زلزلے کی تباہیاں تاریخ میں کبھی فراموش نہ ہوں گی اور یوسف عزیز کی موت تو پوری تحریک کا سکتہ تھی۔ ہماری زقندیں بھرتی ہوئی قومی آزادی کی تحریک کو تباہ کن جھٹکاتھا۔

اب بڑا شعلہ زلزلے نے بجھا دیا تھا اور عبدالصمد اچکزئی اور عبدالعزیز کرد جیل میں تھے۔

بلوچ کانفرنس نامی یہ سیاسی پارٹی تحلیل ہو گئی۔

مگر سماج سلامت تو سیاست تو ہونی ہی ہوتی ہے۔ آل انڈیا بلوچ کانفرنس نامی سیاسی پارٹی کا اگلا جنم کن حالات میں ہونا تھا، اس کانام اور تنظیمی ساخت کیا ہونی تھی اور نظریاتی وسیاسی تسلسل کس طرح چلنی تھی، ہم دیکھیں گے۔

حوالہ جات

۔1۔ بلوچستان جدید، یکم جون 1934صفحہ 6

۔2۔ بلوچستان جدید، 8مئی 1934۔

۔3۔ نجات، کراچی۔ 4مئی 1935

۔4۔ کھوسہ، محمد امین۔ بلوچستانِ جدید کراچی۔ یکم مئی 1934صفحہ 90

۔5۔ محمد حسین عنقا سہ روزہ ”ینگ بلوچستان“ 20نومبر1934

۔6۔ ینگ بلوچستان، 16اکتوبر1934صفحہ 5

۔7۔ پناہ،ملک۔ ”بلوچستان کے اولین عوامی او رسیاسی رہنما“ نوکیں دور یکم جون1971 صفحہ نمبر4۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*