شائستہ جمال

اگلے جنم موہے بٹّیا ہی کیجو

ہمارے شعبے کا پلڑا ہمیشہ لڑکیوں کے حق میں جھکا رہا،ایک سبب تو یہی ہے کہ ڈاکٹر اے۔بی۔ اشرف چار،نجیب جمال چھ اور میں دو بیٹیوں کا باپ ہوں جب کہ افتخار حسین شاہ مرحوم دو،رﺅف شیخ مرحوم بھی نسبتاً سخت گیر دکھائی دینے کے باوجود تین بیٹیوں کے بہت ہی شفیق والد تھے۔ دوسرے ہم میں سے بہت سوں کا موقف تھا کہ جاگیرداروں اور گدی نشینوں کی نحوست میں گرفتار اس خطے میں سماجی تبدیلی تب ئے گی،جب پہلے ہمارے اپنے شعبے میں لڑکیوں کی تکریم کے حوالے سے روشن خیالی اور رواداری پیدا ہو ،نصاب فکر انگیز ہو، شعبے کا کتاب خانہ اصحابِ ایثار کے فیض سے جگمگ جگمگ کرتا ہو، اور استادوں کے دِلوں نے اشفاق احمد کے داﺅ جی [گڈریا] ،مولوی عبدالحق کے نام دیومالی اور منٹو کے بابو گوپی ناتھ، موذیل اور ممد بھائی یا ٹیگور کے’کابلی والا‘ جیسے محبت بھرے آدرش وادیوں کوزندگی کے حقیقی کردار مان رکھا ہو۔ بے شک پنجاب یونیورسٹی اور تختِ لاہور کے دامن میں بہت کچھ ہے، مگر ہمیں بھی یہ فخر کرنے دیجئے کہ ہم وہاں پر قابض زعمِ پارسائی کے دل میں کھٹکتے رہے ہیں۔ آج شاید اس بات کو سمجھنا آسان نہ ہو کہ ہم نے ضیا الحق کے دور میں منٹو،فیض ،بیدی، شوکت صدیقی، سبطِ حسن ،کشور ناہید،حمید اختراور مبارک علی کے ساتھ ساتھ پاکستانی زبانوں کے نمائندہ تخلیق کار کس جتن سے نصاب میں شامل کیے اور اس کے عوض کیسے فتوے اور کیسے وارنٹ ہمارے تعاقب میں رہے۔ کوئی ایک مثال ملتان یونیورسٹی کے سوا پاکستان کی کسی درس گاہ کے سر پھروں کی دے دیجیے، جنہوں نے شاہی قلعے میں پا بہ جولاں رہنے والے صلاح الدین حیدر کو فیض احمد فیض پر ڈاکٹریٹ کامقالہ لکھنے کی اسی دورِ ضیاع میں رجسٹریشن دی ہو، اس شعبے کا مزاج سمجھنے کے لیے محض چند موضوعاتِ تحقیق دیکھئے’پنجاب کے تین کردار، جاگیردار: ملّا اور معلم،اردو افسانوی ادب کے تناظر میں‘، ’اردو ادب میں خرد افروزی اورروشن خیالی کی روایت‘ ،’نسائی شعور کی تاریخ اور ا ±ردو افسانہ‘، ’مشاہیرِادب، خار زارِ سیاست میں‘،’اردو افسانے میں جلاوطنی کا اظہار‘،’ سبطِ حسن کے علمی آثار (اور بت کدہ انجماد میں کہرام)‘ ،’ تہذیبی تصادم کا مفروضہ،فکرِاقبال کے تناظر میں‘،’اقبال کے تصوراتِ فنونِ لطیف کا تنقیدی جائزہ‘،’ثانوی زبان کی حیثیت سے اردو کی تدریس‘،’اردو افسانہ اساطیر کے تناظر میں‘۔ اسی طرح جب چمگادڑ نینوں میں یہ تاثر عام ہوا کہ ہم پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بانٹنے پر مستعد ہیں تو ہم نے ایک ایک کر کے اپنے مقالات کو اپنے وسائل سے شائع کرنا شروع کیا اور ظاہر ہے کہ اس سارے عمل میں ہمیں اپنے شاگردوں کی محبت،اعتماد اور سرگرم تائید حاصل رہی۔
بے شک ٹوٹے ہوئے گھر،وعدے اور خواب ہمارے بچوں کو بھی تنہائی اور رائیگانی کے دشت میں لا پھینکتے ہیں مگر ہماری بچیوں کے لیے یہ اذیت دو گونہ بلکہ سہ گونہ ہوتی ہے کہ عاقبت فروشوں کے دامن میں بیٹیوں کے لیے کوئی ایک وعدہ یا امید کی کرن نہیں،اہلِ دستار کو ہمیشہ یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ لڑکیوں کی زبان کہیں کھل ہی نہ جائے اور ان کی گھٹی ہوئی سسکیاں تکیے بھگونے کی بجائے مردانہ برتری پر قائم اداروں کے بچے کھچے ضمیر میں خلش ہی پیدا کرنا نہ شروع کر دیں، وہ جو ہکلاتے غلاموں اور گونگی کنیزوں کی قطاروں کو سعادت کی نشانیاں خیال کرتے ہیں، جو اپنے بر گزیدہ مصاحبین کے ذریعے انہیں باور کراتے رہتے ہیں کہ تذلیل اور تشدد کا سب نصاب خالقِ کائنات کا منظور شدہ ہے اس لیے درس گاہوں میں کبھی زبان کھول سکنے والی اور مزاحمت کا دیا جلا سکنے والی شائستہ جمال ہو یا ملالہ یوسف زئی،ان کی کٹھنائیوں کی کہانی مختصر تو ہو ہی نہیں سکتی۔ یاد رہے ہم نے اپنے بچوں اور بچیوں سے محبت بھرے دل اور نم ناک آنکھوں کے باوجود کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم آپ کی راہ میں آنے والے ہر کانٹے کوچ ±ن لیں گے،ان ہونی کو روک لیں گے، رسمی رشتوں کی ریاکاری کو مٹا دیں گے اور کڑوے، کھاری اور گدلے پانی کو دو چار تعویذوں سے میٹھے پانی کے چشمے میں بدل دیں گے ،بلکہ کہا تو یہی کہا کہ ادبیاتِ عالیہ کے مطالعے اور تخلیقی جوہر سے آپ میں ایک ایسی بصیرت پیدا ہو سکتی ہے کہ اس دنیا کے دکھ درد قابلِ برداشت یا گوارا ہو جائیں اور اپنے جیسوں کی ناطاقتی کو جوڑ کے ایسی قوت بنا سکتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو اتنی قیمت نہ چکانی پڑے جو پاکستان میں،دو سے تین نسلیں چکا ہی رہی ہیں۔
شائستہ جمال ملتان یونیورسٹی میں ایک طرح سے ہماری تیسری کلاس کی شاگرد تھی،پہلی کلاس تو ارشد خانم،مختار عزمی،فاروق تسنیم، نسیم گل،طاہرہ سلیمی اور وحید کمال وغیرہ کی تھی،جو یونیورسٹی بنتے ہی ایمرسن کالج سے اس سکول میں طالب ِعلموں اور استادوں سمیت شفٹ ہوئی تھی،جس پر ملتان یونیورسٹی کا بورڈ لگایا گیا تھا۔پھر سمسٹر کی پہلی کلاس کا داخلہ ہوا،جس میں فاروق مشہدی(مرحوم)،مسرت حفیظ(مرحومہ)، شگفتہ حسین ،راﺅ تسنیم(مرحوم)،نگینہ گل،جاوید سہو(مرحوم) سمیت سترہ طالب ِعلم داخل ہوئے اور اس کے بعد شائستہ جمال کی کلاس آئی،جس میں شعبے کی موجودہ ڈین ڈاکٹر روبینہ ترین بھی شامل تھی۔ شائستہ کی آنکھوں کی چمک ،چہرے کی معصومیت، لہجے کی کھنک اور اپنی شخصیت پر اعتماد سے بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ کبھی بچپن میں پولیو کی یلغار نے اس سے کچھ چھینا بھی ہے،یا محبت کرنے والے باپ نے آنکھیں موند کر ’لکن میچی‘ کے المناک کھیل کوایک زندگی سے بھی زیادہ طول دے دیا ہے ، اس کے ددھیال والے رشتے ایسے ٹوٹے کہ ان کی بازیابی کی تمنا اس کے دل سے اب تک نکل نہیں سکی، اس کی بیوہ ماں نے اورشادی کر کے اس کے معصوم دل کو خراش لگائی ،جو تب بالکل نہیں جانتا تھا کہ ایک خوب رو بیوہ کے لیے اپنے یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والے درد مند ہاتھ اور دستِ ہوس میں امتیاز کرنا کس قدر دشوار ہو جاتا ہے۔ تاہم یونیورسٹی کے زمانہ طالبِ علمی میں یہ اندازہ ضرور ہوتا تھا کہ وہ تنہائی سے بہت خوف کھاتی تھی، سوکوئی نہ کوئی سہیلی ایک مہربان چھتری کی طرح اس کی جذباتی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا،جب صالحین کو پاکستان اور اہلِ پاکستان سے زیادہ نظریہِ پاکستان کی سلامتی کی فکر تھی،جو چور دروازے سے اقتدار میں آنے والوں کو تا حیات ظلِ الٰہی کے درجے پر فائز کر نے کا پروانہ دے سکے۔
ممکن ہے کہ بعض روایتی لوگوں کو شائستہ کی زندگی میں نا رسائی اور تشنگی کا کوئی پہلو دکھائی دے جائے،مگر میرے نزدیک اس نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے،جیسے کسی باشعور مگر درد مند مثالی استانی اور بیماری،تعصب اور تنہائی سے نبرد آزما ان تھک لڑکی کو گزارنی چاہیے،اس زندگی میں کچھ چیزیں ،رشتے ،رویے اس پر مسلّط ہوئے،کچھ اس نے اختیار کیے اور کچھ اس کی تحویل میں عارضی طور پر آئے اور اس نے چاہا کہ اسے یہ احساس نہ دلایا جائے کہ اس کے شاگرد یا رفقا اس کے افرادِ خانہ نہیں اور اس کا کالج اور اس کا ہوسٹل اس گھر کا متبادل نہیں جو نو عمری سے ہی اس سے چھِن گیا مگر اس کے ’متعلقین‘ کے حوالے سے اس کی مالی ذمہ داریاں بڑھتی ہی گئی ہیں۔ اب جب اس کی کھانسی کی آواز، صریرِ خامہ سے بھی بڑھ جاتی ہے اورجوڑوں کی تکلیف باعثِ آزار ہو جاتی ہے تو میَں تلخ نوا ہو کر اسے تھوڑا سا خود غرض بننے اور خود ساختہ ذمہ داریوں سے ذرا غفلت شعار ہونے کا مشورہ دیتا ہوں، مگر وہ معصومانہ حیرت سے پوچھتی ہے کہ کسی ایسے نصب العین اور آدرش کے بغیر جینے کا بھلا کیا فائدہ ہے؟ اور کبھی کبھار دکھی ہو کر پوچھتی ہے کہ گزشتہ پینتیس برس میں اس کے لاڈ اٹھا کر بگاڑنے والا اب تلخ نوائی سے کیوں کہتا ہے کہ خود غرض بن جاﺅ،اپنی ذات کو اچھی غذا،لباس اور ضروری دوا سے اس لیے محروم نہ رکھو کہ تمہیں دو،تین شاگردوں یا قرابت داروں کی تعلیمی کفالت کرنی ہے۔ اس کی ذات میں بڑے معصوم تضادات ہیں،وہ عمر بھر تو ّہم پرستی کے خلاف لڑی ہے،مگر جب اسے پتا چلتا ہے کہ اس کی کسی شاگردکا رشتہ دوسری یا تیسری مرتبہ بھی ہوتے ہوتے اس لیے رہ گیا کہ کسی حاسد ہمسائی نے اس پر کالا جادو کر دیا ہے تو وہ اپنی نیک کمائی کا ایک حصہ اس کے توڑ پر خرچ کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔وہ جو پودوں،پھولوں،نغموں اور پرندوں کی شیدائی ہے،بعض اوقات کچھ طوطوں اوربکریوں سے بھی بد گمان ہو جاتی ہے کہ یہ کسی بد نیت طاقت ور کے فرستادہ ہیں کہ اس کی باغبانی اور نغمہ سرائی کے ثمرات کو چاٹ جائیں گے،وہ جس نے اپنے اور سوتیلے میں کبھی فرق نہیں رکھا،اس کے قریب آنے والی شاگردوں میں کبھی کبھار زمرہ بندی کرتی رہتی ہے اور فہرستوں پر نظرِ ثانی کرتی رہتی ہے۔
شائستہ جمال نے اس کتاب’زندگی اک تماشا ہے‘ کی صورت میں جہاں اپنے بچپن کے اس معصوم سوال کو ’من و تو‘ کے تناظر میں ایک بڑا سوال بنا دیا ہے
’ اے بے نیاز! آپ کے لطف و کرم کا صرف میَں ہی نشانہ کیوں؟‘ اور پھر زندگی کا وہ مرحلہ بھی بیان کر دیاجہاں اسے پیمان شکن دین دار بزرگ ملتے ہیں جنہیں یہ فکر دامن گیر ہے کہ کہیں یہ لڑکی ان کی بہو نہ بن جائے،مگر وہ اسے ایک استاد،مشفق استاد،محنتی فرد اور ایک صاحبِ اسلوب مصنف بننے سے تو نہیں روک سکتے تھے۔جو کچھ ان کے بس میں تھا،وہ انہوں نے کیا اور جو شائستہ کے بس میں تھا،وہ اس نے کیا،آپ نے فیصلہ یہ کرنا ہے کہ کس کے پاس زندگی بنانے اور’بگاڑنے‘ کا اختیار زیادہ تھا اور کس نے اس کا استعمال زور دار طریقے سے کیا؟ اس کے اور شعبہِ اردو کے بیچ ایک مضبوط رشتہ اس کے ان شاگردوں کا ہے،جو اپنے دلوں میں اس کی تربیت کی روشنی لے کر ہمارے پاس آتی ہیں اور آئیں اور ہمیں یہ کہنے میں فخر کا احساس ہوتا ہے کہ ان میں حمیرا اشفاق نمایاں ترین ہے،جس نے نہ صرف پی ایچ۔ڈی کیا ہے،بلکہ وہ ملک کے نام ور استادوں اور مصنفوں میں شمار ہوتی ہے(وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادمیں پڑھا رہی ہے۔)۔واپسی طرح ڈاکٹر تسنیم رحمن بھی اس کی ایک بہت عزیز شاگرد نسرین رحمن کی بہن ہے،شمائلہ نورین اور شہلا اقبال بھی ایم فل کر رہی ہیں اور اپنے طالب ِعلموں میں مقبول ہیں۔ مقصد زمرہ بندی نہیں،مگر میرے نزدیک اس استاد کو بہت جلد ’فوت‘ ہو جانا چاہیے،جو کوئی دو چار قابلِ فخر شاگرد پیدا نہ کر سکے،اس لیے جب اس کی کوئی شاگرد کہیں اعتماد اور فخر سے بتاتی ہے کہ میَں شائستہ جمال کی شاگرد ہوں،وہ مجھے پڑھنے کو کتابیں دیتی ہیں، مشکلات میں اچھا مشورہ اور کبھی کبھی ہمارے نام پر کوئی ادبی پرچہ بھی لگوا دیتی ہیں،ہماری تقریریں بہتر اور موثر بناتی ہیں،تو اپنے شعبے کے شائستہ ایسے شاگردوں سے میرا پیار اور بڑھ جاتا ہے۔
چند برس پہلے ایک دور ایسا آیا کہ شائستہ نے ہوا سے بھی الجھنا شروع کر دیا،تب میَں نے اسے مشورہ دیا کہ آپ بیتی لکھو،مگر اس طرح کہ شائستہ اپنے پسندیدہ،ناپسندیدہ کرداروں کے ساتھ دوبارہ جنم لے مگر ہو سکے تو اسے میری طرف سے سمجھا بھی دینا کہ جنہوں نے اس کی دانست میں اس سے انصاف نہیں کیا،ان سے بھی انصاف کر ے۔ ’سنگت ‘ کوئٹہ کے ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اس کی داستانِ حیات قسط وار چھاپنی شروع کی۔آپ یقین کیجئے کہ تیسری قسط کے بعد شائستہ نے مجھے کہا کہ مجھے احساس ہونے لگا ہے کہ میری ماں،میری بہن ،حتیٰ کہ میرے سوتیلے والد میں بھی کئی غیر معمولی اوصاف تھے جو اپنی تخلیقِ نو سے پہلے میری آنکھوں سے اوجھل تھے۔ میرے بر عکس مبالغے سے اسے بالکل رغبت نہیں،وہ اصلیت اور واقعیت کی کھوج میں رہتی ہے،چھوٹے بچوں کی طرح اصل نام، مقامات اور تاریخیں جاننے کے لیے جرح کرتی ہے،جس سے ہماری یادداشت کا بھرم کھلنے لگتا ہے، تب میرے لہجے کی درشتی اس کے لیے ناقابلِ یقین ہو جاتی ہے اور بیچ بیچ میں وہ قلم ہاتھ سے رکھ بھی دیتی تھی۔اس کی اس کتاب میں بیشتروہ کردار ہیں،جن کے بغیر خود میری زندگی نامکمل ہے۔
شائستہ جمال کی یہ آپ بیتی جب شائع ہوئی تو بیشتر لوگوں نے مجھ سے شکوہ کیا کہ آپ نے اس میں فلاں فلاں سطر کیوں حذف نہیں کی ،جب وہ اپنے قریب رہنے والے یا اپنے کالج کے رفقاء میں سے بعض سے ناراض ہوکر کچھ ناملائم باتیں کررہی تھیں تو میں نے ہر ایک سے معذرت کی کہ شائستہ جمال کے پھوپھا اختر الایمان تھے آپ ان کی آپ بیتی پڑھیں تو بعض ترقی پسندوں کے بارے میں ان کے دل میں ممکن ہے کسی کو سخت دکھائی دیں۔پھر وہ اپنی سلطانہ پھوپھو یعنی بیگم اختر الایمان کو فون کیا کرتی تھی تو میں کہا کرتا تھا کہ یار یہ اپنی پھوپھو سے منٹو کے اس ٹائپ رائٹر کے بارے میں ضرور پوچھو جو اختر الایمان کے مطابق منٹو نے ان کے پاس فروخت کیا تھا اور انہوں نے ازرہ ِدوستی یہ ٹائپ رائٹر لے لیا تھا ، مگر جی سی لاہور میں وہ راشد کی عطا کردہ چیزوں میں سے ہے۔ کیا منٹو نے ایک سے زیادہ ٹائپ رائٹر خرید رکھے تھے؟۔
آہستہ آہستہ اس کے جینے کی امنگ گھٹتی گئی اور جن کے لئے اس نے کمیٹیاں ڈال کر ان کے تعلیمی اخراجات میں مدد کی تھی یا اپنی دانست میں اپنی بہن کو اس گھر کا بھی کرایہ دیا تھا جہاں اس کے بھائی اپنی اولاد کے ساتھ مقیم تھے اور جب اس نے بہت دکھ کے ساتھ گلگشت کے ایک ہاسٹل سے عارضی طور پر اپنے گھر مقیم ہونے کے بعد رو رو کے یہ بتایا کہ میرے فلاں عزیز نے میرے اوپر پانی ڈال دیا ہے اور مجھے کھانسی اور بخار ہوگیا ہے اور اب میں مررہی ہوں۔ میں شوکت صدیقی کی ولادت کے صد سالہ جشن کی مناسبت سے ”خدا کی بستی “کی ڈرامائی تشکیل میں مصروف تھا تو میں نے الاﺅ کے مستعد رکن رانا شہباز حمید سے درخواست کی کہ شائستہ کے گھر جاکر کسی طرح نشتر ہسپتال میں اسے داخل کرا دو۔یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کتنے مراحل طے کرکے شہباز وہاں پہنچا اور درد سے کراہتی ہوئی شائستہ جمال کو اس نے کس طرح ایمبولینس میں ڈالا اور نشتر لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے اصرار کیا کہ اس کے سرہانے اس کا کوئی بھائی ،بہن یا خونی رشتہ دار ہونا چاہیے۔تب وہ ملتان کی ایک ادب دوست اور انسان دوست ڈاکٹر رابعہ کے کلینک میں لے گیا اور شائستہ دو دن وہاں رہی تاکہ اسلام آباد میں گئی ہوئی اس کی بہن واپس آجائے ،بہرطور ایک دو شاگردوں کے اصرار پر اس نے اپنے بھتیجے عبداللہ کا رابطہ نمبر دیا جو انہیں وہاں سے لے کر سٹی ہسپتال پہنچا اور وہاں وہ آپریشن ہوا جو اس کی زندگی کے ٹمٹماتے چراغ کو بجھانے کا حیلہ ثابت ہوا۔ اب وہ بی بی پاک مائی دامن کے قبرستان میں آسودہ ہے جو کوئی اس کے بقایا جات ادا کرنا چاہے تو پھولوں یا دعاﺅں کی شکل میں یہ کرسکتا ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*