سنگت ایڈیٹوریل

آج کی نیکی

انسان کائنات کے کُل میں شامل ایک جُزو ہے ۔ کائنات کے ہر حصے کی طرح کائناتی قوانین میں پابند ایک جزو۔
ہاں البتہ یہ کائنات کا وہ واحد جزو ہے جو کائنات کے اٹل قوانین کا کچھ علم حاصل کر چکا ہے ، اور جسے بقیہ کے جاننے کا جنون ہے ۔
اسی خصلت کی بنا پر انسان اِن کائناتی قوانین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ اور اسی ہم آہنگی میں جہاں گنجائش دیکھتا ہے انہیں اپنی اور کائناتی بہتری کے لیے استعمال کرتا ہے ۔
بے کراں کائنات میں وہ رہتا تو ”زمین“ نامی پلیں نٹ پہ ہے مگر اپنی متجسس فطرت کے ہاتھوں مجبور صرف زمین پہ پابہ گِل رہنا قبول نہیں کرتا۔ وہ انہی قوانین کے کندھے پہ سوار کبھی چاند پہ جھانکنے کی کامیاب کوششیں کرتا ہے تو کبھی نظر نہ آنے والے ایٹم کے اندر گھس کر اُس کے پروٹان و الیکٹران کا پوسٹ مارٹم کرتا ہے ۔ اِس نے اگر ایک طرف ریشمی نرم پروں سے زمین کو کھجلا کر انسانی سولائزیشنوں کی ابتدا چھان ماری ، تودوسری طرف جینز کے اندر سرنگ لگا کر بیالوجی کے قوانین ازبر کر لیے ۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اسے کائناتی قوانین کا ڈھیر سارا علم حاصل ہوتا جارہا ہے ۔
مگر یہ سب کچھ تو نیک لوگوں کے کارنامے ہیں۔
اسی انسانی نسل کے اندر کچھ شیطان صفت لوگ بھی پیدا ہوئے ۔ یہ ایک بڑی خرابی تھی جو انسان کے اپنے گھر میں پیدا ہوگئی۔ اِن بُرے لوگوں نے نیک لوگوں کی حاصلات کو اپنی ذاتی طاقت اور دولت میں اضافہ کے لیے استعمال کیا۔ اور یوں ہزاروں سالوں کے پراسیس میں آج ”زمین“ کے سپر پاور بن بیٹھے ۔
اِن بد اعمال لوگوں نے سب کچھ اپنے قبضے میں لے کر اور دوسری مخلوق کی بڑی اکثریت کو نعمتوں سے محروم رکھ کر کائناتی قوانین کی خلاف ورزی کی ۔ یہ لامتناہی سلسلہ ہے ۔ دولت سے مزید دولت ، اور طاقت سے مزید طاقت حاصل کرنے کی ہوس لامحدود اور لامتنا ہی ہے ۔ فرد کی طرف سے فرد کو ، گروہ کی طرف سے گروہ کو، ایک قوم کی طرف سے دوسری قوم کو ، ایک صنف کی طرف سے دوسری صنف کو اور ایک طبقے کی طرف سے دوسرے طبقے کو زیر کرتے رہنے کا سلسلہ لا متناہی ہے ۔ پاور سے سپر پاور تک کی مستی لینا لامتناہی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی جنگوں سے لے کر عالمی جنگیں کرنے تک اور لکڑ پتھر کے ہتھیار سے لے کر ایٹم بم تک استعمال کرنے کی ہلاکت انگیز اسلحہ دوڑ لامتناہی ہے ۔ فاسد صنعتی مواد سے زمین ، دریا ، سمندر حتی کہ فضا کو بھی حیات دشمن حد تک آلودہ کردیا گیا۔ یہ سب کچھ نیچر کے قوانین کی خلاف ورزیاں ہیں ۔
اِس سارے گند اور فساد کو کپٹلزم کہتے ہیں۔ یہ ایک بیمار ، غارت گر اور بحران آلود سماجی نظام ہے ۔ اس بیمار سماجی نظام کا مالک یعنی کپٹلسٹ طبقہ حرص نامی بیماری میں جائز اور ناجائز کی تمیز کھو چکا ہوتا ہے ۔ ایک نفسا نفسی ہے، ہر شخص سب اشخاص کا دشمن اور سب اشخاص ایک شخص کے دشمن ۔
اشرف المخلوقات اگر صرف اپنے مقام سے گر کر عام جنگلی درندہ بن جاتا تب بھی خیر تھی۔ یہاں تو اشرف المخلوق ترقی یافتہ ترین شہر کا درندہ بن گیا جس کی قدرت میں پیسہ، سائنس، ٹکنالوجی اور ہلاکت کے جدید ترین و سائل ہیں۔ اب یہ مہا درندہ سے مہان درندہ بن چکا ہے ۔اصلی فرعون سے لاکھوں گنا زیادہ طاقتور فرعون!۔ اس فرعونیت سے نسل ِ انسان کا وجود تو خطرے میں ہے ہی مگر اس سے تو دیگر زندہ مخلوقات ، نباتات ، سمندر حتی کہ زمین نامی پورے پلیں نٹ کی تباہی یقینی بنتی جارہی ہے ۔
دولت و جائیداد و طاقت پہ قبضہ کر کے اِس ”بد“ نے اپنی بدی پر بے شمار پردے ڈالے ۔ تاکہ لوگوں کو برائی کی جڑ نظر نہ آسکے۔ اس نے پنڈت و پادری کے ادارے قائم کیے ۔ اپنی برائی پہ ڈالے پردہ کو مزید موٹا بنانے کے لیے سیاسی پارٹیاں بنوائیں ۔ اُن کے بحث مباحثہ کے لیے انہیں اسمبلیاں بنا کر دیں ۔ پنڈت و پادری اور سیاسی پارٹیوں کے اس بالائی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے لیے انہیں دیگر ادارے دیے ۔ انہیں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا جیسے پروپیگنڈہ اوزار دیے ۔ عام آدمی کو پریشانی میں رکھنے کے لیے اُن پہ چور ڈاکو اور بدمعاش چھوڑ دیے ۔بظاہر اُن چوروں ڈاکوﺅں سے نمٹنے مگر اصل میں اُن کی پشت پناہی کے لیے پولیس اور تھانے بنائے ۔ عوام کو فروعی معاملات میں الجھانے کے لیے عدالتیں قائم کیں۔ محنت کرنے والے عوام الناس کا غصہ نکالنے کے لیے جلسہ جلوس کی محدود اور گائیڈڈ اجازت دی۔ الغرض سٹیٹ یا ریاست کا بالائی ڈھانچہ بنادیا جو ہر حربہ میں سپیشلائز ہو کر ”اصل “برائی تک پہنچنے کی عوام کی صلاحیت کُند کرتی جاتی ہے ۔
ہم اسی بد، بدی اور بدحالی کے سماج میں جی رہے ہیں۔ یہ ہے ہمارا آج۔
ظاہر ہے عام انسان اپنی فطر ت میں ”نیک“ ہے ۔ اسے مگر سوال یہ درپیش ہے کہ آج کی نیکی کیا ہے کہ وہ اُس میں جُت جائے ؟۔

ایک عام اور اور کامن سینس کی بات ہے کہ اگر ایک ٹھگ اپنے اندر موجود حرص کی بنا پر کسی کمزور کو زیر کیے ہوئے ہو تو ایک نیک انسان کو اچھا نہیں لگے گا۔ اُس کا بس چلے یا نہیں مگر اُس کی ہمدردیاں اُس محکوم کے ساتھ ہوں گی ۔ یہ انسانی سرشت میں ہے ۔
مگر اگر اُس کا بس چلے تو وہ یہ بھی طے کر لے گا کہ یہ کافی نہیں ہے ۔ اِس ہمدردی کا اظہار بھی ضروری ہے ۔ اپنے دل کی بات اپنے کانوں کو سنانے کی ضرورت ہے ۔ اپنے قریبی حلقے کے افراد کے کانوں کو سنانے کی ضرورت ہے ۔ ۔۔ سناتے رہنے کی ضرورت ہے ۔
زیردستی سے نکلنے کا کام تو زیردست ہی کرے گا ، آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں ۔ آپ اُس کے حق میں بولیں بھی ایسا ہو کر رہے گا ، اور اگر نہ بھی بولیں تب بھی ایسا ہوگا ۔
مگر، اگر آپ بولیں گے تو مظلوم کے لیے اپنی آزادی کی جنگ لڑنی آسان تر ہوجائے گی، وہ ذرا جلدی فتح مند ہوجائے گا اور اس کو کم نقصانات ہوں گے ۔ خود آپ کے سینے کا بوجھ کم ہوگا، روح مطمئن ہوجائے گی اور آپ اشرف المخلوق کا اپنا مقام برقرار رکھیں گے ۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*