وڈیرہ کی مخالفت اور قومی جدوجہد

(مارچ1973کے رسالہ تحریک میں چھپے پلیجو صاحب کے مضمون کا خلاصہ ۔۔۔ ایڈیٹر)

سندھی قوم کے ساتھ روز ازل سے دو ہر اظلم ہے۔ ایک طرف اپنے گھر کے اندر دشمن زمیندار، وڈیرے، میر ، پیر اور ملا ،کی صورت موجود نہیں جو ان کی ہڈیاں چبار ہے ہیں ۔اور دوسری طرف بیرونی لٹیرے گروہ ان کی بچی کچھی پونچی بھی چٹ کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں بلائوں میں سے کس کس کا مقابلہ کیا جائے؟
سندھی دیہی کسان عوام وڈیرہ شاہی کے خلاف ہے ، اس کو اپنا اصلی دشمن سمجھتی ہے اور اس کے خلاف جدو جہد کو بنیادی اہمیت دیتی ہے۔ جبکہ شہروں کے پڑھے لکھے سفید پوش لوگ صرف پنجابی اور مہاجر بالا دستوں کے خلاف جدوجہد کو ہی اہمیت دیتے ہیں ۔اس لیے قوم کی بڑی اکثریت والے محنت کش عوام اور قلیل سفید پوش طبقے کے درمیان کوئی اتحاد پیدا نہیں ہوتا۔ پڑھے لکھے ایک راگ الاپتے ہیں تو ان پڑھ دوسرا۔
اس کا حل یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے مسئلوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کے دشمنوں کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد چلائیں
پڑھے لکھے اپنے مطلب کی بات اخباروں ، رسالوں اور تقریروں کے ذریعے سالہا سال سے بیان کرتے رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سندھی عوام کی زبردست اکثریت یعنی دیہات کے کسان اور محنت کش عوام کے سب سے بڑے اور اہم مسئلے یعنی وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری نظام کے خلاف جدوجہد کی اہمیت کو سمجھا جائے۔
اکثر سمجھدار ، نیک نیت اور وطن کے بہی خواہ لوگ اس کے متعلق زیادہ تر مندرجہ ذیل انداز میں سوچتے ہیں:
1۔ہمارے اصل دشمن مہاجر اور پنجابی سامراجی ہیں۔ انہی دو قوتوں نے برسہا سندھ کو اپنا مال غنیمت سمجھ کر لوٹا اور ہڑپ کیا ہے۔ نہ صرف سندھ بلکہ سارے پاکستان کے مظلوم لوگوں اور قوموں کا فرض ہے کہ آپس میں متحد ہو کر اس آفت کا مقابلہ کریں اور اپنی قوتیں کسی اور مورچے پر ضائع نہ کریں۔ خاص طور پر سندھیوں جیسی ہر طرف سے دشمنوں میں گھری ہوئی قوم کو تو ہر گز کسی دوسرے جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہیے۔
2۔ وڈیرے جیسے بھی ہیں پھر بھی اپنے ہی ہیں ۔ویسے بھی وڈیروں کا پہلے جیسا زور نہیں رہا۔ وڈیرہ شادی آہستہ آہستہ ختم ہوکر خود بخود اپنی موت مر جائے گی۔ یہ اپنے کنبے کے افراد سے لڑنے کا وقت نہیں ہے۔ یہ وقت سب کومل کر ایک ہونے اور دشمنوں سے مقابلہ کر کے سندھ کو بچانے کا ہے۔ دوسری باتوں کو پھر دیکھا جائے گا ۔
3۔ لیکن اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ بیرونی سندھ دشمن اور سندھی وڈیرے ایک جیسے دشمن ہیں تو بھی ایک ہی وقت میں دونوں سے لڑنا تو بے وقوفی ہوگی۔ پہلے بیرونی سندھ دشمنوں سے مقابلہ کر کے سندھ کو بچایا جائے پھر ان اندرونی سندھ دشمنوں کو بھی ٹھیک کر لیا جائے گا۔
اس سوچ کے حامل وطن دوست ساتھی مندرجہ ذیل باتیں یا تو نہیں سمجھتے یا پھر ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

1۔ اگر سندھ ، سرحد اور بلوچستان میں دقیانوسی ، رجعت پرست، اور عوام دشمن قبائلی ،سرداری اور جاگیرداری نظام حاوی نہ ہوتا اور ایک طرف عوام وڈیروں، زمینداروں، رئیسوں، نوبواں، سرداروں، میروں اور پیروں کے مارے ہوئے کچلے ہوئے اور ذلیل وخوار کئے ہوئے نہ ہوتے اور زمینداری نظام کے پیدا شدہ امراض یعنی بھوک، بیماری، جہالت اور خوف ان پر مسلط نہ ہوتے اور دوسری طرف مقامی وڈیرے، رئیس ، خان پیر اور میر غدار ہو کر دشمنوں کی دلالی نہ کرتے تو شاید یہ بیرونی دشمن بلا خوف و خطر، بلا روک ٹوک اور بلا مقابلہ پورے ملک کو ہرگز ہڑپ نہیں کر سکتے تھے۔ تاریخی طور پر بھی سندھ کی تباہی کا بنیادی سبب اندرونی دشمن تھے ور نہ غیروں کو مجال نہ تھی کہ وہ سندھ کو زیر کر سکتے۔ سندھ کے زمینداروں اور ساہوکاروں نے یو پی اور پنجاب کے مسلم لیگی اور کانگریسی سیاست بازوں کو سندھ میں ٹانگ اڑانے کی دعوت دی تھی ۔پھر کراچی کو سندھ سے الگ کرنے اور ون یونٹ مسلط کرنے جیسے وطن دشمن کارنامے وڈیروں نے اپنے ہاتھ سے انجام دیئے۔ اب بھی سندھی عوام نے وڈیروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کر کے تخت و تاج کا مالک بنایا ۔لیکن وہ ایک طرف عوام سے لڑ کر اور دوسری طرف آپس میں چھینا جھپٹی کر کے جاکے دشمنوں کی قدموں میں گرے ہیں ۔

2۔عوام زمینداروں اور ان کی دلال نوکر شاہی کی لوٹ کھسوٹ ، ظلم، بربریت، جھوٹے مقدموں اور قید و بند کے شکنجے میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ ان کو اپنے تن کی بھی خبر نہیں۔ ان کی روح ہمیشہ سولی پر لگی رہتی ہے۔ اس لئے ان کو ملکی اور قومی مسائل کی خبر لینے کا ہوش تک نہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس کا بازار لٹ رہا ہے۔ لیکن اگر انہیں پتہ چلے بھی تو بھی وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وڈیرہ شاہی نے ان میں اتنی طاقت ہی نہیں چھوڑی کہ وہ دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں۔ لیکن اگر کوئی دیہاتی کسان ہمت کر کے کسی چودھری سے ٹکر بھی لیتا ہے۔ تو بھی سندھی وڈیرہ اور افسر چغل خور بن کر اپنے ہی کسان کے خلاف بیرونی دشمن کا ہمدرد اور مددگار بن جاتا ہے۔ کئی کسان کارکن سندھی وڈیروں اور افسروں کی گواہیوں کی وجہ سے سزائیں جھیل چکے ہیں، کوڑے کھا چکے ہیں اور اذیتیں برداشت کر چکے ہیں اور ابھی تک برداشت کر رہے ہیں۔

3۔ سندھی قوم کی 90فیصد آبادی کسان ہے۔ ان میں سے کچھ تو جھوٹے کلیم والوں اور دوسرے ناجائز مداخلت کرنے والے بیرونی دشمنوں سے ٹکر میں ہیں اور ان کے ستائے اور کچلے ہوئے ہیں۔ باقی زبر دست اکثریت سندھی وڈیرا شاہی کی چکی میں پس رہی ہے۔ انہیں آٹھوں پہر وڈیروں اور ان کی پالتو نوکر شاہی کے ظلموں اور نا انصافیوں کے تیر سینے میں پیوست رہتے ہیں۔ اس لیے ان کی نظر میں زندگی اور موت کا سوال یہ نہیں ہوتا کہ آیا مرکز کے چوھدریوں کو مضبوط ہونا چاہیے، یا صوبائی وڈیروں کو صوبائی خود مختاری ملنی چاہیے۔ روز مرہ زندگی کے بے رحم تجربات میں وہ دیکھتے ہیں کہ صوبائی وڈیروں یعنی مقامی رہزنوں ، قاتلوں اور لٹیروں کے رکھوالوں کو جتنے زیادہ اختیارات اور پاور ہوں گے اتناہی سندھی غریب عوام کے اوپر زیادہ ظلم اور عذاب ہوگا۔ مرکز کا مددگار ظالم چوھدری اور جھوٹا کلیم والا بھی برابر اس کا خون چوستا رہتا ہے لیکن مقامی زمیندار، رہزنوں اور قاتلوں کا رکھوالا ”عوامی نمائندہ ” تو اس کی بیوی کو بھی ا ±ٹھا لیتا ہے اور اس کے گھر کا صفایا کر دیتا ہے۔ ان کی نظروں میں صوبائی زبان یا زیادہ صوبائی زبانوں کا فرق بھی کوئی بہت اہم ،فوری اور فیصلہ کن اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ اس کے لیے مرنے مارنے کے لئے تیار ہو جائیں۔
مطلب یہ کہ جن مسائل کو پڑھے لکھے شہری اور اوپر والے طبقوں کے لوگ آج تک قومی مسائل سمجھتے رہے ہیں۔ وہ براہ راست فقط چند مٹھی بھر پڑھے لکھے شہریوں اور اوپر والے طبقوں کے سندھیوں سے تعلق رکھتے ہیں ، اور زیادہ تر وہی ان کو سمجھتے اور اہمیت دیتے ہیں۔ سندھیوں کی دیہات کی اکثریت نہ ان کو سمجھتی ہے اور نہ ہی انہیں کوئی زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ اس لیے ہماری تو اس محدود قومی جدو جہد میں سندھی قوم کی بھاری اکثریت موثر اور بھر پور طور پر شامل نہیں ہے، اور نہ اس حالت میں شامل ہوسکتی ہے۔ اس طرح ہماری قومی جدو جہد صحیح اور بھر پور معنوں میں قومی جدو جہد نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں ہماری اکثریت کے اہم ترین اور زندگی اور موت کے مسائل شامل نہیں ہیں۔ اس لیے اگر ہم ایمانداری کے ساتھ چاہتے ہیں کہ ہماری قومی جدو جہد صحیح معنوں میں قومی جدوجہد ہو اور چند شہری پڑھے لکھے لوگوں کی بجائے سندھی قوم کے لاکھوں عوام اس میں جوش اور جذبے کے ساتھ حصہ لیں تو پھر ہمیں قومی جدو جہد کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا اور اس میں سندھی قوم کی زبر دست اکثریت کے مسائل کو شامل کرنا ہوگا۔

4۔ فطرت کا قانون ہے ” تضادوں کا ملاپ اور مقابلہ“۔ سندھی قوم بنیادی طرح سے دو ایک دوسرے کی مخالف اور برعکس دو قوتوں کا ملاپ ہے : یعنی سندھی عوام تو دوسری طرف وڈیرہ شاہی کا ملاپ ہے۔ یہ سندھی قوم کا داخلی تضاد ہے۔ اس کا دوسرا تضاد بیرونی دشمنوں اور لٹیروں سے ہے، یہ خارجی تضاد ہے۔ فطرت کی سائنس ہمیں یہ سکھلاتی ہے کہ بیرونی تضادوں کے مقابلے میں اندرونی تضاد زیادہ اہم ، بنیادی اور فیصلہ کن ہوتے ہیں۔
سندھی قوم کے بنیادی اور دائمی مسائل ہیں غربت، بھوک، بیماری، جہالت اور وڈیروں، نوکر شاہی ، پیروں ، ملائوں کی لوٹ مار، دہشت ، خوف و ہراس ، ذہنی بلیک میلنگ اور روحانی ڈکٹیٹر شپ۔ انہی بنیادی مسائل نے بیرونی مسائل پیدا کئے ہیں۔ وڈیرہ شاہی نظام کی گندگی اور کیچڑ میں ہی مچھروں اور دوسرے جراثیم کو پیدا ہونے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سندھی عوام وڈیرہ شاہی کے خلاف جدو جہد کو اپنی زندگی اور موت کا سوال سمجھتے ہیں۔

5۔ ون یونٹ کے خلاف سندھ کے پڑھے لکھے شہری طبقے کا ایک بہت چھوٹا محب وطن حصہ مسلسل 16-15 سال سے چیخ و پکار کرتا رہا۔ لیکن سندھی عوام کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ کیونکہ ایسے نعروں کا عوام کی روز مرہ کی زندگی سے کوئی براہ راست اور کھلا واسطہ نہ تھا۔ اس لیے ان نعروں کو وہ ہوائی سمجھتے رہے اور ان میں شریک نہ ہوئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اتنی دردسری اور تقریروں اور تحریروں کے اتنے عظیم سیلاب کے باوجود ایک بڑی عوامی تحریک نہ ہوسکی۔ البتہ جب ایوب شاہی کے قید کئے ہوئے طلبا اور قومی کارکن جیلوں میں قومی جدوجہد کے ایک نئے ، وسیع اور عوامی نظریے سے کچھ روشناس ہوئے اور باہر آئے اور دیہات کے سندھی عوام سے ان کے دل کی بات کی یعنی وڈیرہ شاہی کی مخالفت کی بات کی تو صورت حال یک دم بدل گئی۔ 4مارچ 1969کو دو لاکھ سندھی کسان حیدر آباد میں جمع ہوئے اور سندھ دشمنوں کے اوسان خطا ہو گئے تھے ۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی نے جب عوام میں وڈیرہ شاہی کے خلاف زبر دست تبلیغ کا طوفان کھڑا کیا تو سندھ کے گھروں، تھروں اور جنگلوں کو جیسے آگ لگ گئی۔ اس تحریک میں اتنی طاقت پیدا ہوگئی کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی ہل گئے لیکن پھر جب پیپلز پارٹی اور حکومت پر وڈیروں کا مکمل غلبہ ہو گیا اور پارٹی اور حکومت نے وڈیرہ شاہی کی مخالفت کا چوغہ اتار دیا تو جوصورتحال ہوئی ، اس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔

6۔ یہ نشیب و فراز اور پیچیدگیوں والی طویل ، کٹھن اور مشکل جد و جہد ہوگی جوکئی مختلف مورچوں پر لڑی جائے گی ۔
اگر اس طرح نہ ہوتا اور پانی پت کی لڑائیوں کی طرح ایک دن میں فیصلہ ممکن ہوتا تو پھر کہا جاتا کہ وڈیرہ شاہی کو نظر انداز کر کے سارے متحد ہو کر سندھ دشمنوں سے دو دو ہاتھ کرلیں۔ لیکن اس میں ایک دو نہیں بلکہ کئی سال لگیں گے۔ اس سارے عرصے میں یہ توقع رکھنا کہ سندھی عوام وڈیرا شاہی کی چکی میں بھی پستے رہیں اور منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالیں اور ساتھ ہی سندھ دشمنوں کے حملوں اور سازشوں کا بھی کامیابی سے مقابلہ کریں تو یہ خیالی پلاو ¿ پکانے کے مترادف ہوگا۔
اس لیے وڈیرہ شاہی کی طرف سے سندھی عوام کے ساتھ آٹھوں پہر جو ظلم ہورہا ہے اس کو نظر انداز کیا جائے گا تو سندھی عوام قومی جدو جہد میں دل و جان سے شریک نہ ہوں گے اور جد وجہد کی روں روں تو خیر چلتی رہے گی لیکن سُرنہیں بنے گا۔

7۔ جیسا کہ ابھی تک دیہاتوں کے سندھی عوام کی اکثریت کے مسائل کو قومی جدوجہد میں شامل نہ کیا گیا ہے اور ہم صرف اپر کلاس کے تھوڑی اقلیت کے فائدے کی باتوں کو قومی جدوجہد کا نام دیتے رہے ہیں۔ اس لئے مہاجر اور پنجابی جعلی ترقی پسندوں کو موقع مل گیا ہے کہ وہ خفیہ طریقے سے سندھی کسانوں، مزدوروں اور کم پڑھے لکھے لوگوں کو ورغلا رہے ہیں کہ ”یہ قومی تحریک امیر شہری لوگوں اور وڈیروں کے بیٹوں کی تحریک ہے، جو صرف اپنے مفادات کی خاطر "قوم ! ” , "قوم ” اور "سندھ "،”سندھ” کر رہے ہیں۔ آپ کو تو پوچھتے بھی نہیں“۔
نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اندرونی طور پر سندھی مزدور اور کسان عوام کے قلیل سمجھ دار لوگ بھی سندھیوں سے اپنے طور پر علیحدہ ہور ہے ہیں اور مہاجر جعلی ترقی پسندوں کے فکری غلام ہور ہے ہیں اور وہ ان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

8۔ وڈیرا شاہی کا حقیقی علاج ہے زمینداری نظام کا مکمل خاتمہ۔ اس کے بغیر سندھی قوم ہر گز اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو کر ایک طاقتور اور شاندار قوم نہیں بن سکتی ہے ۔
یہ بات بھی نوٹ کرنی چاہیے کہ قومی جدوجہد کے ذریعے جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس کا مکھن اور دہی تو وڈیرے اور اس کا پیرو کار درمیانہ طبقہ کھا جاتا ہے ۔ باقی عوام کو چلو پھر چھا چھ بھی نصیب ہو تو جیسے انہوں نے حج کیا۔
اس حالت میں زمیندار اس نازک وقت میں سندھی کسان عوام پر ظلم بند کرنے اور اسے انسان سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اسے سندھی قوم کا غدار اور دشمنوں کا دلال سمجھنا چاہیے۔ قومی کارکنوں کو چاہیے کہ زمیندار کے خلاف مظلوم کسانوں اور محنت کشوں کی مدد کریں۔ جو سندھی طلباء، ادیب، دانشور، قومی کارکن اور رہنما اس حالت میں بھی مظلوم سندھی کسان عوام کی حمایت اور مدد کرنے کے لیے تیار نہیں، انہیں قوم پرست نہیں سمجھنا چاہیے۔ وہ نام کے کھو کھلے قوم پرست ہیں، بلکہ قوم پرست نہیں، مطلب پرست ہیں۔ سچے سندھی وطن دوستوں کو سندھی عوام کے ان بہت محدود، مناسب اور واجبی مطالبات کو قومی جدوجہد کے پروگرام کا ایک لازمی اور بنیادی حصہ سمجھنا چاہیے۔ یہ مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں۔ ہماری قومی جدوجہد کی کامیابی کا بنیادی دارو مدار اسی مسئلے کے صحیح حل پر ہے۔ اس مسئلے کو اگر ہم نے نظر انداز کیا یا صرف چال بازی سے عوام کو دھو کہ دینے کی کوشش کی تو پھر بے شک لاکھوں بار” جئے سندھ!“ کے نعرے لگائیں لیکن اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔ وقت آنے پر کوئی ہاں میں ہاں ملانے اور ساتھ دینے والا نہ ہوگا۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*