سنگت اپریل شمارے کا اداریہ

حکمران طبقات کی آپسی لڑائی

پاکستان کی بورژوا سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے ۔ عوام انہی شخصیات کے لیے پکے ہوئے باغ ہیں۔ پارٹیوں کے اندر کوئی با اختیار کابینہ اور سنٹرل کمیٹی وغیرہ نہیں ہوتیں۔ لیڈر ہی اپنی پارٹی کا کابینہ ہوتا ہے اور وہی جنرل باڈی بھی ۔
صرف سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ عدالتیں ، پولیس، فوج، الیکشن کمیشن ، محکمے ، اور ادارے بھی قوانین کے بجائے اپنے سربراہوں کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں۔
حکمران طبقات کی طرف سے عمران خان کی کرکٹ سٹار والی مقبولیت کو تین چار سال تک کپٹلزم کی خدمتگزاری کے لیے استعمال کیا گیا ۔ اس کے منہ میں عجب قسم کی باتیں اور نعرے دیے گئے ۔اس حد تک کہ سیاست و معیشت کے بارے میں مکمل ان پڑھی کے باوجود وہ سمجھنے لگا کہ وہ اکیلا کوئی شئے ہے ۔ اُس نے حکمران طبقات کے اپنے دیگر پارٹنروں اور اُن کے مفادات کو پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔اور ”میں ، میں“ چلانے لگا۔ اسی ”میں میں “کے اندر وہ طبقاتی استحصال میں اپنے نئے اور غیر ملکی دیگر پارٹنرز کو بھی شامل کرتا جارہا تھا جو کہ نظام کے روایتی آقاﺅں کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ جب وہ نظام کے لیے بالکل ناقابلِ برداشت ہوا تو اُس کی چھٹی کی گئی۔
اُسے قسمت کے اپنے ستارے کے قصیدے پڑھنے چاہییں کہ وزیر آباد نتیجہ خیز نہ ہوا۔ نہ ہی اس کے پلیٹ لیٹ وبائی موت کو شکار ہوئے ۔ اُسے کار ساز ، اور لیاقت باغ سے بھی واسطہ نہ پڑا اور تارا مسیح سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی۔
ڈکٹیٹر ، منتقم مزاج ، اور غیر جمہوری عمران گڑ بڑ نہ بھی کرتا تب بھی حکمران طبقات نے اسے ہٹا کر اپنا اگلا گھوڑا لانا تھا ۔ اس لیے کہ ان کے نظام کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ عوام کے سامنے چہرے بدل بدل کر اقتدار کی کرسی پہ آتے رہیں ۔ چنانچہ اگلے ڈیڑھ سال تک حکومت کو شہباز شریف والا ماسک پہنادیا گیا ۔ پی ڈی ایم کی پارٹیاں پی ٹی آئی ہی کی طرح مزدور دشمن ہیں ، اسٹیبلشمنٹ اور اُس کی سفاکیت پر پردہ ڈالتی ہیں ،اور شہری آزادیوں کی پرواہ نہیں کرتیں ۔
اس بیچ دیگر بہت بڑے بحران بالغ ہوکر سامنے آئے ۔
اکانومی کا لاغر کردہ ٹٹو اپنے پاﺅں پہ کھڑا ہونے کے قابل نہ رہا۔ چاروں شانے چت اور مکمل جامد شدہ معیشت کو محض کھڑا ہونے کے لیے بھی آئی ایم ایفی شہتیروں اور بیساکھیوں کی ضرورت پڑ گئی ۔مگر اب وقت بدل چکاہے ۔ سوویت یونین ہی نہ رہا جس کے خلاف امریکہ ہمیں استعمال کر کے کچھ چارہ ڈالا کرتا تھا۔ سوویت زوال کا دن ہی ہمارے زوال کا دن تھا ۔ اُس دن ہی سے ہم ہر مرغن دروازے پہ ”ڈے بابا، ڈے بابا“ کرتے رہنے پہ لگ گئے ۔ یہ ضرورت عادت بنتی گئی اور آج اس سب کے سبب دنیا ہم سے بے زار ہوچکی ہے ۔ چنانچہ نہ قرض مل رہا ہے ، نہ خیرات ۔ عجب بے بسی کا عالم ہے ۔ قرض دہند ہ کی شرائط ہیں جو ختم ہی نہیں ہو رہیں۔ حکمرانوں نے اپنی اور ملک کی مونچھوں کا تاﺅ نیچے کیا، آنکھوں سے خود داری کا سرمہ اتار پھینکا ، اکڑی گردن زمین دوزی کی حد تک نیچے کردی ، اپنے عوام کو روزانہ مرنے اور روزانہ زندہ رکھنے کی حد تک کنگال کردیا ۔ اثاثے بیچے ،بلند بانگی ترک کردی، جغرافیائی اور نظریاتی دعووں سے دستبردار ہوئے ،مگر سیٹھ آئی ایم ایف ،جیب میں ہاتھ ڈالنے کو آمادہ ہی نہیں ہورہا ۔
اسی دوران سیلاب اور کرونا آئے اور آزادانہ اپنی مرضی کر کے چل دیے ۔ پیچھے جتنی قبریں اور کراہیں چھوڑ دیں ، اُن کی گنتی کا انتظام ہی موجود نہیں ہے ۔ ”مردہ “شماری کا انتظام نہیں تو ”مردم “شماری کیا خاک ہوگی؟۔
عوام کو فرقوں ،نسلوں اور زبانوں کی بنیاد پہ لڑاتے لڑاتے پہلی بار ایسا ہوا کہ حکمران طبقات آپس میں لڑ پڑے۔ ہر ادارے میں یُدھ مچا ہوا ہے ۔کچھ معلوم نہیں کہ اُس ادارے میں کیتھولک کے پیچھے کون ہے اور پروٹسٹنٹ کا بھیس کس نے پہن رکھا ہے ۔ مثلاًپارلیمنٹ کی ایک ٹانگ استعفے دے کر سوکھے کی بیماری میں پلستر چڑھائے پڑی ہے ۔ عدالت دیکھیں تو وہاں چیف صاحب اس قدر خوفزدہ کہ بینچ میں اپنے سایہ (فرمانبردار اور ہم خیالوں)کے علاوہ کسی دوسرے جج کو شامل نہیں کرتا۔ فوج میں باجوہ اور فیض گروپوں کی دیومالائی کہانیاں ہیں کہ ختم نہیں ہوتیں۔
چنانچہ حکمران طبقات میں سے کسی کی دُم کٹنے والی ہے اور کسی کا چونچ گم ہونے والا ہے ۔
حکمران طبقات بے خطر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اس لیے بھی کہ اُن کے نظام کو ایک زبردست مدد میسر ہے ۔ وہ ہے محکوم طبقے کی پارٹی کی عدم موجودگی ۔ منظم و مستحکم انقلابی پارٹی کے بجائے ، خود فریبی میں مبتلا ”ساڑھے دو درجن “ ممبروں پہ مشتمل اکا دکا گروپ ہیں جن کے گنجے اجلاسوں کی تصویریں فیس بک پہ دیکھ کر اُن کے دشمنوں تک کو ترس آجائے ۔قلیل تعداد ،اور منظم و متحد نہ ہونے نے ”موجودہ صورت حال “ سے نمٹنے کا امکان ہی ختم کردیا ۔ ضلعوں ضلعوں اور میلوں میل جائیے پارٹی کا وجود تک نہیں۔ ماس فرنٹ بکھر گئے ۔کتاب بینی متروک ہوچکی ہے اور سٹڈی سرکل کا کلچر ختم ہوگیا ۔ پارٹی آرگن (اخبار )موجود نہیں ہے ۔ انقلابی کلچر کے خاتمے اور ڈسپلن نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ کارکن لبرلزم کا شکار ہوگئے ہیں۔

اس عظیم غیبی امداد کے باوجود بورژوا سیٹ اپ سے نظام نہیں چل رہا۔ تذلیل میں صبح شام ہوجاتی ہے اور بھوک میں رات دن میں ڈھلتی ہے ۔ اُن سے نہ زرعی اصلاحات ہوپاتی ہیں، نہ یہ ملک کو صنعتی بناپارہے ہیں۔ یہ لوگ عوام کے پیٹ میںمحض حب الوطنی ، اور ریاست مدینہ کے نعرے پھونکتے رہے ہیں۔ان کا نظام ایسا مردہ اور مردار ہوا کہ نہ اُس سے عوام کے مال کا تحفظ ممکن ہے نہ ہی وہ شہریوں کی جان کی سلامتی والا امن دے پارہا ہے ۔ مکمل انار کی ہے ، مکمل افراتفری ہے ۔
بنیادی تبدیلی کے لیے سارے معروضی حالات تیار ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری عروج کے بھی آخری نکتے پر پہنچی ہوئی ہیں۔ حکمران طبقات کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اب حکمرانی نہیں کر پا رہے ۔ سامراج اُن کی گردنوں پہ ڈالروں کا پھندا تنگ سے تنگ کرتا جارہا ہے ۔ ان کی ایڑیاں رگڑنے ، سانس گھٹ جانے اور آنکھیں باہر کو نکل آنے کی حالت دیکھنے کے قابل ہے ۔ مگر سماجی تبدیلی کے لیے جو چیز موجود نہیں ہے ، وہ ہے : موضوعی قوت یعنی انقلابی پارٹی ۔اس لیے یہی سلسلہ کچھ ، یا کافی کچھ برسوں تک جاری رہے گا ۔ ۔۔۔ اور اس دوران غصہ سے بپھرے ، بھوک سے بد حال اور ہمہ وقت مزاحمت پہ تیار عوام سارے انقلابی گروہوں ، سرکلوں کو متحد کر کے اپنی انقلابی پارٹی بنالیں گے ۔ اور تب آخری فیصلہ کن جنگ بپا ہوگی ۔حتمی بات ہے !

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*