کہانی ساتھ لے آنا

سفر آسان کرنا ہے
کہانی ساتھ لے آنا
بہت لمبا سفر ہے
دائرہ در دائرہ اس دشت ہستی کا
یہاں پر آس رہتی ہے
یہیں پر پیاس رہتی ہے
وصال تشنگاں کے شوق میں
صحرا سے ملنا ہو
تو پانی ساتھ لے آنا
کہانی ساتھ لے آنا

پہاڑوں کی مسافت ہو
کسی برفاب چوٹی سے اترنا ہو
زمیں کا زخم بھرنا ہو
کبھی اشکوں میں ڈھل کر
یار کا دامن بھگونے کے لیے
دریا کی خُو جاگے
ابدتک ساتھ چلنا ہو
روانی ساتھ لے آنا
کہانی ساتھ لے آنا

کبھی منزل کڑی آئے
اور اس کی گھڑی آئے
کبھی تنہائیوں سے رتجگوں سے ہم کلامی ہو
صبا کی نغمگی ، بارش کی خوشبو
رُت کا رنگ ار غوانی ساتھ لے آنا
کہانی ساتھ لے آنا

کبھی جب یاد کی کرنیں
گزر کر بادلوں کے دیس سے
بُوندوں کی نرماہٹ لیے
آنکھوں میں آئیں تو
تمہیں یادیں سستائیں تو
گلوں کے لمس کی کوئی نشانی ساتھ لے آنا
کہانی ساتھ لے آنا

مگر یہ وقت بھی ظالم ہے
یُون کروٹ بدلتا ہے
عجب سی چال چلتا ہے
نئے سانچوں میں ڈھلتا ہے
کبھی یہ برف ہوجاتا ہے صدیوں کی
کبھی یہ دھڑکنوں کی آنچ پا کر
پھر پگھلتا ہے
اجڑ جاتی ہے جو بستی
اُسی صورت میں پھر اس کو بسایا جانہیں سکتا
نئی بستی بسانے کے لیے
یادیں پُرانی ساتھ لے آنا
کہانی ساتھ لے آنا

سفر کی رات
اس کی آخری منزل ٹھہرتی ہے
یہیں پر دھڑکنوں کی
سانس کی پونجی بکھرتی ہے
سفر کی رات ہے پہلے
میں آنکھیں انتظار آرزو میں وقف کردوں گا
میں سانسوں کو سنبھالوں گا
میں اپنی دھڑکنیں راہوں پہ رکھ دوں گا
چلے آنا۔۔۔ کوئی دم ساتھ رہنا
زندگانی ساتھ لے آنا
کہانی ساتھ لے آنا

وہی لمحے تو جینے ہیں
پُرانے زخم سینے ہیں
جو تیری آرزو میں کٹ گئے لمحات
ان کا قرض بھی دل نے چکانا ہے
یہی دو چار پل ہیں
اور یہ میرے لیے پورا زمانہ ہے
رُکو۔۔۔۔!
ڈھڑکن سنو
یہ ہے یقیں کی آخری دھڑکن زمیں کی آخری دھڑکن
زمین و آسماں کے درمیاں
کوئی خلا آواز دیتا ہے
کسی اگلے سفرکی سمت جانا ہے
گزرتے وقت کو اک بارتم آواز دو
شاید یہ تھم جائے
یہ آنکھیں بجھ رہی ہیں
دیکھنا یہ پل نہ کھو جائے
یہ لمحہ نیندکی آغوش میں آجائے
سو جا ئے
سفر آسان ہو جائے
کہانی ساتھ لے آنا

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*