خدا کی بستی اور خدائی فوج دار

” خدا کی بستی ” شوکت صدیقی کا ایک دراز عمر کلاسیک ناول ہے۔شہری زندگی سے جڑے متنوع مسائل ،ایک زمین سے اکھڑ کر دوسری زمین پر قدم جماتے بکھرے ،شکستہ دامن لوگ، جو بڑے شہروں کے حاشیے میں جگہ بنانے کی جدوجہد میں پامال ہو جاتے ہیں۔ کیپٹلزم وہ آکاس بیل ہے جو ہرے بھرے درخت پر ایسا جالا بنتی ہے کہ اس پر درد مندی اور انسانیت کے شگوفے کھلنا بند ہو جاتے ہیں ۔ سرمایہ پرستی کی وبا کے پھیلتے سائے،زرعی سماج کا نیم صنعتی سماج میں بدلائو ، رشتوں کی بدلتی نوعیت اس ناول کا پس منظر ہے۔نئے رشتے اب روپے پیسے کی سلائیوں پر بُنے جانے لگے۔یہ محض ایک آغاز تھا جس کی انتہا آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ 1947 میں ہندوستان تاریخ کے ایک عہدسے آزاد ہوتا ہے لیکن جبر سے نہیں، یہ آزادی نئی طرز کی غلامیوں کا دیباچہ خیال کی جا سکتی ہے۔یہاں کے ممولوں کو جیون جینے کے لیے شاہین بننے کے خواب دکھائے گئے ، اور پھر اس کے بعد ہماری اجتماعی زندگی کا مدار خوابوں اور ان دیکھی تعبیروں میں کھو کر رہ گیا ، پر ہوا کیا؟ ۔ ہمارا شاہین بد بختی سے گدھ نکلا، اور ہم اپنے تئیں شناور ،ایسے سیاہ بخت ہوئے
:سیاہی جیسے گر جاوے دمِ تحریر کاغذ پر۔
کیا پاکستان آزاد ہوا؟؟ یا پھر ہندوستان کو آزاد کرنے کے بعد غلاموں کا ڈبا سبز رنگ کی کوچی پھیر کر الگ کر دیا گیا تھا ؟ ہمیں کیا خبر ! لاعلمی ہی تو ہمارا سب سے بڑا فخر ہے۔
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
خیر ہم اس مجبوری کو خدا کی مرضی جان کر صبر شکر کرتے ہیں۔ ہمارا نصاب ،ہمارے لکھاری، ہمارے دانشور ہمارے استاد ہمیں غلامی کے آداب مودبانہ گزارشیں، فدویانہ جھینپی مسکراہٹیں سکھاتے پڑھاتے ہیں۔ان کے ثمرات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔اختیارات دوسروں کے حوالے کرنے کے بعد انسان کمفرٹ زون میں چلا جاتا ہے۔اختیار کی شکتی سے زیادہ تعمیل میں شانتی ہے۔سر سے ذمہ داری کا بارگراں جو اٹھ جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ پھر انسان ذلتوں کے طومار میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ جب زندگی ہی حیوانی سطح پر برقرار ہو تو کون پرواہ کرتا ہے! پرواہ کرنے کا شعور بھی تو ہو۔یہ تعمیل اور تسلیم کا سبق صرف عورتوں کو نہیں مردوں کو بھی سکھایا جاتا ہے۔ پھر غلام عورتیں غلام مردوں کی پرورش کرتی ہیں اور غلامی کے دوہرے تازیانے سہتی ہیں۔ناول” خدا کی بستی” انہی غلاموں کی داستان ہے۔خدا کی بستی میں غلام حیوانوں کی سطح پر اور جبلتوں کے بل بوتے پر زندہ ہیں۔ بیوہ ماں کی سفید چادر میں ڈھکی چھپی جوانی مالی آسرے کی امید میں بسنتی دوپٹے میں جگمگاتی ہے۔
کباڑیا نیاز خسارے کا سودا کبھی نہیں کرتا ۔وہ نوخیز بیٹی کو ہدف بنا کر اس کی ماں سے جسمانی تعلق بناتا ہے اور نکاح سے پہلے بیمہ پالیسی اور موت کے انجیکشن کے انتظامات بھی کر لیتا ہے۔دروازوں اور دریچوں کی اوٹ میں سلگتے جذبات کی آنچ میں پگھلتی سلطانہ ! جسے پل دو پل سیک کے لیے دہکتی انگھیٹی سے بڑھ کر نہ سمجھا گیا۔ خوف کا مارا سلمان ہے جس کا پندار اتنی بار توڑا گیا کہ اس کا خود پر یقین ہی ختم ہوگیا ۔ قدرت کے کرشموں سے ہسپتال کی زمین پر راتوں رات فرشتے چار دیواری تعمیر کر کے مسجد کا بورڈ لگا جاتے ہیں ۔ رعونت بھرے فرعون ہیں جو اپنے ان پیش روئوں کی روایت کو برقرار رکھنا خوب جانتے ہیں جو نہتے مظاہرین پر گولیاں چلا کر اپنے انگریز آقائوں کی خوشنودی حاصل کرتے تھے اور کلب میں وہسکی کا جام چڑھا کر حقارت سے کہتے تھے: آج پانچ حرامزادے مارے گئے "، (خیر انگریزوں میں یہ خوبی تو تھی کہ سادہ سا مار دیتے تھے مارنے سے قبل نہ تو وحشیانہ تشدد کرتے تھے نہ ہی مارنے کے بعد چہرے مسخ کرتے تھے ) اس "خدا کی بستی” میں راجہ، نوشہ ، شامی ہیں جن کے والدین اپنی غربت اور حسرتوں کا بوجھ ان کے بچپن اور جوانی پر لاد دیتے ہیں۔یہی بچے بڑے ہو کر سماج سے اس کی بلوغت اور جوانی چھین لیتے ہیں۔ سرائیکی کی ایک عمدہ لب ولہجے کی شاعرہ صباعت عروج کہتی ہے: 
اساڈے ہتھیں قلم تاں کوئنیں نصیب لکھنڑاں سکھائوں نسل کوں
اساڈے ہتھیں بوہاری ہائی پئی
اساں نصیبیں تے پھیری رہے گئے 
انسانی فطرت جامد نہیں جو بدل نہ سکے۔ وقت اور سماج کی تبدیلی کے ساتھ انسان کی فطرت بھی بدل جاتی ہے۔ انسان ارتقا کے موجود مرحلے میں محض جبلتوں کا تابع نہیں رہا۔ اس کے عمل کی بنیاد اس کا عقل اور شعور ہوتا ہے۔مکمل طور پر جبلتی عمل کرنا انسان کے بس میں نہیں رہا۔لیکن کچھ طبعی خصوصیات زیادہ لچکدار نہیں ہوتیں جیسے پیاس ،بھوک، جنس، نیند۔انہیں ایک حد تک ہی گھٹایا بڑھایا جا سکتا ہے۔بھوک جب بلبلاتی ہوئی اٹھتی ہے تو معدے میں اس کے دھاری دار ناخنوں کی ادھیڑ ناقابل برداشت ہوتی ہے۔
چاہے نیک لوگ کرام ہمیں کتنے ہی دم دلاسے دیتے رہیں۔خدا کی مرضی کہہ کر صبر شکر کرواتے رہیں۔
رکھی سکھی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
ویکھ پرائی چوپڑی ناں ترساویں جی
کیسے نہ ترسے جی ؟ سوکھی پاپڑی روٹی حلق سے نہیں اترتی۔
پادری خواہ بہشت کے آنکھوں دیکھے حال کے بیانیے سے چاہے جتنی دلپشوری کر لیں پھر بھی موجود دنیا معنی رکھتی ہے۔ ہر انسان کا چکنی چوپڑی کھانے کو من چاہتا ہے اور ہر انسان کا چکنی چوپڑی پر حق بھی ہے۔
شاعرانہ اسلوب میں گوتم کے دھنسے پیٹ اور ابھری ہوئی پسلیوں کو جتنا بھی رومان زدہ یا نروان زدہ کریں ،لیکن بھوک ناقابل برداشت اذیت ہے ،غربت ناقابل برداشت ذلت ہے۔کہا جاتا ہے” تمام دکھ ہے” کیوں بھئی! سکھ کون سمیٹ کر لے گیا؟. کہیں چنگیر خالی ہے تو کہیں انبار لگے ہیں۔ یہ تقسیم بھگوان یا گاڈ کی نہیں انسانوں کی ہے۔ براہمنوں کی براہمنی شودروں کی موجودگی کی صورت ہی برقرار رہ سکتی ہے۔ جب جنسی شکمی بھوک کو ضرورت سے زیادہ بڑھا لیا جاتا ہے تو پھر ویمپائر وجود میں آجاتے ہیں ،انسانوں کا خون چوستے ہیں، ٹڈی دل جدھر سے گزرتے ہیں بستیاں اجاڑ دیتے ہیں۔نہ ختم ہونے والی بھوک کی کرونک بیماری میں مبتلا ! کھاتے ہیں قے کرتے ہیں اور پھر کھاتے ہیں ،کھاتے ہی چلے جاتے ہی۔اپنے بچوں کو مار کر خودکشی کرنے کی خبریں بھی دیکھتے ہیں، سونے کے سکے اور ڈالر وارتے لٹیروں کے کلپ بھی نگاہوں میں گزرتے ہیں پر اجے قیامت نہیں آئی آئی۔
ناول خدا کی بستی کے فلیپ پر ڈاکٹر انوار احمد سوال اٹھاتے ہیں کہ آدرش وادیوں کی اپنی جماعت کمزور کیوں ہے؟۔ جب آدرش وادی لکھاری سکالر استاد رہنما دنیا آرائی کی سعی و عاشقی فراموش کر کے دنیا سازی میں جت جاتے ہیں تو اپنا ہی نہیں بقدر ظرف دوسروں کا بھی جہنم تخلیق کرتے ہیں۔ روشن خیالی نہ تو ذہنی سرگرمی رہی ہے نہ ہی طرزِ زندگی۔ ذلتوں سے آلودہ سفر جسے قرةالعین حیدر نے آگ کا دریا کہا اور شوکت صدیقی نے جس کے لیے "خدا کی بستی” کا استعارہ عنوان کیا ،اس بستی میں راجہ، نوشا ،شامی، سلطانہ لاوارث ہی رہتے ہیں۔ زندگی کو کفن کی طرح اوڑھے بسنتی دوپٹے کی چاہ میں قطرہ قطرہ زہر بدن میں اتارتے چلے جاتے ہیں۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*