انقلاب ایران کا پس منظر

 

 

ایران میں تین چار مہینوں سے حکومت اور ملائیت کے خلاف عوامی مظاہرے ہورہے ہیں۔ ایرانی عوام گزشتہ کچھ سالوں سے بے روزگاری ، گرتی ہوئی معیشت اور ملا کی سخت اور غیر انسانی رویوں کے خلاف وقفے وقفے سے مظاہرے کرتے آرہے ہیں۔ اگر ہم ماضی قریب میں تاریخ دیکھیں تو ایرانی انقلاب کے فوراً بعد خمینی کی حکومت میں لوگ پھر سے سڑکوں پر تھے۔ اس کی بہت ساری وجوہات تھیں مگر یہ بڑی مضحکہ خیز اور تعجب ک تھی کہ ابھی انقلاب ہوا اور ابھی لوگ پھر سے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ لوگوں کے اس رویے کے محرکات کو جاننے کے لیے 1979 کے انقلاب کی وجوہات جاننا ضروری ہے۔

کتاب میں ایرانیوں کی تاریخ قاچاریوں کے زمانے سے ہمہ پہلو بحث شروع ہوئی ہے مگر چونکہ انقلاب ایران 1979 کو ہوا تھا اور اس انقلاب کی باقیات آج بھی ایران پر ملا کی صورت بر سر اقتدار ہیں اس لیے ہم پہلویں کی حکومت سے اپنی بحث کا آغاز کرتے ہیں کہ کیوں کیسے اور کن وجوہات کی بنا پر ایران میں انقلاب پربا ہوا۔ ایرانی عوام شاہ سے بیزار کیوں ہوئے تھے اور کیا آج لوگ اس انقلاب سے خوش ہیں کہ نہیں۔ سبطے صاحب کی پیشن گوئیاں درست ثابت ہوئیں کہ نہیں؟

پہلویوں کی حکومت ایران میں 1925 سے شروع ہوئی اور 1979 کے عوامی انقلاب میں رضا شاہ پہلوی کے فرار کے ساتھ ختم ہوئی۔ بیسویں صدی میں دنیا بہت تیزی سے بدل رہی تھی۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد کپیٹلسٹ معاشرہ جنم لے چکا تھا۔ عالمی جنگ اول اور دوم میں سرمایہ داروں کی عالمی منڈی پر اجارہ داری اور زر و دولت کی بے تحاشا لالچ نے کروڑوں انسانوں کا خون بہایا۔ ان سب تبدیلیوں کا پوری دنیا پہ اثر ہوا۔ ایران جو کہ برطانیہ کا کالونیل اتحادی تھا کیسے بچ سکتا تھا۔دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ وہ برطانیہ جس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا, جنگ نے اسے خستہ حال کردیا تھا اور اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنا اب اس کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ برطانوی راج کے ٹوٹنے کے ساتھ رضا شاہ اول بھی کمزورہوگیا۔ اب طاقت کا توازن امریکا کے پاس تھا تو 1953میں اس کا بیٹا محمد رضا پہلوی امریکی مداخلت کے ساتھ فوجیکودتاکے ذریعے اقتدار پہ قابض ہوا۔

بیسویں صدی میں تیل کی ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی تھی اور چونکہ ایران وسطی ایشیا میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں تھا اس لیے اس کی اہمیت زیادہ تھی۔بیسویں صدی میں سائنس کی نت نئے ایجادات نے ایک طرف کلاشنکوف اور ایٹم بم کی صورت میں انسانی وجود کو خطرے سے دوچار کیا تو دوسری طرف بہت ساری ایجادات نے انسانی زندگی کو آسان اور دلچسپ بنا دیا۔ ابکے دنیا انقلابات اور جمہوریت سے روشناس ہوچکی تھی روس کی عوامی بالشویک انقلاب نے خون خوار سرمایہ داروں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں طاقت کا توازن دو حصوں میں بٹ چکا تھا ایک طرف امریکی سامراج اور اس کے مغربی اتحادی تھے تو دوسری طرف سویت یونین تھا۔ دنیا میں ہر جگہ ظالم بادشاہوں اور ڈکٹیٹرز کی حکومتوں کی عوام دشمن پالیسیوں، غیر انسانی رویوں اور جمہوریت کے حق میں عوامی مظاہرے ہورہے تھے۔ ایسے میں ایرانی عوام بھی شاہ رضا پہلوی کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر تھے۔ رضا شاہ اقتدار میں آتے ہی ایران کو زبر دستی ویسٹرنایز بنانے کی جہد شروع سیاسی جماعتوں اور عوامی مظاہروں پر پابندی عائد کردی۔ ذرائع ابلاغ اور صحافت کے شعبہ پر سخت حکومتی پہرے تھے۔ شاہ نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تنقید کرنے والوں اور عوامی مظاہروں کو کچلنے کے لیے ساواک نامی خفیہ تنظیم بنائی تھی۔ اس میں لوگوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق لاکھوں میں تھی اور اس کی جڑیں سرکاری دفاتر ، صنعتی ادارے، تعلیمی ادارے غرض ہر جگہ موجود تھیں۔ ساواک بہت طاقتور تھا وہ جس کو چاہے اٹھا لیتا اور ملک دشمن کہہ کر گولی مار دیتا ۔کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ ساواک کی کارستانیوں کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان کے مطابق کوڑے مارنا, بجلی سے داغنا ، ناخن نکالنا ، دانت توڑنا،مقعد میں ابلتا پانی پمپ کرنا، فوطوں سے بھاری وزن لٹکانا، ملزم کو لوہے کی لال تپتی ہوئی چادر پہ لٹانا ، عورتوں کے نازک مقامات میں بوتل گھسیڑنا ، ان کی عصمت دری کرنا جسمانی اذیت کے معمولات تھے۔ ان مظالم کی تصدیق ڈاکٹر یاسمین رضوی ( جو ایک کٹر شاہ پرست تھی ) نے بھی کی ہے۔

وہ لکھتی ہے کہ جسم کے نازک حصوں کو زہریلے کیڑوں سے ڈسوانا ، خلاف فطرت حرکتیں کرنا، چاقو سے کھال چھیلنا، اور اہل خاندان کی عصمت دری کرنا روز مرہ کی سزائیں تھی۔ اگر کوئی سخت جان ان تمام اذیتوں کو جھیل جاتا مگر تائب نہ ہوتا تو اس کو بوری میں بند کرکے ہیلی کاپٹر سے تہران کے جنوب مشرق میں نمک کی جھیل میں پھینک دیا جاتا۔

 

پہلوی دور میں تیل ایرانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا ۔مگر تیل پر امریکی اور انگلش کمپنیوں کی اجارہ داری تھی۔ ایسے میں تیل کی برآمد سے جو پیسا آتا تھا اس کا آدھا حصہ واپس امریکا کو اسلحہ کی خریداری کی مد میں ملتا تھا اور باقی جو بچتا تھا وہ شاہ ، اس کے درباریوں ، مشیروں وزیروں کی نذر ہو جاتا تھا۔

سامراج کی چالاکی دیکھیں ایک طرف عالمی منڈی کے مقابلے میں ایران سے سستے دام تیل لیتا اور بدلے میں ایران کو ڈرا دھمکا کر اس پر اپنا اسلحہ کئی گنا مہنگا بیچتا۔ غیر ملکی سرمایہکاروں پر شاہ کی خاص عنایت تھی اور ایران کی اکثر بڑی کمپنیاں اور صنعتیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ملکیت تھیں۔ پہلوی دور حکومت میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے قانون یہ تھا کہ کوئی بھی غیر ملکی کسی ایرانی کی شراکت کے بنا کاروبار نہیں کرسکتا تھا۔ مگر اس قانون کا سارا فائدہ سرمایہ دار طبقے کو ہوا۔ شاہ کے درباریوں اور اس کے وزیروں کو بہت فائدہ ہوا۔ غیر ملکی سرمایہ کار ایرانی اشرافیہ کی مدد سے کاروبار اور کمپنیاں کھولتے۔ وہ سیاسی اثر رسوخ کی بنا پر وزیروں اور بڑے بڑے سرکاری افسروں کو لائسنس وغیرہ کی مد میں رشوت دیتے تھے اور اس طرح کچھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی پہنچ براہ راست شاہ تک ہو گئی تھی۔ اب ایران میں تیل کے علاو¿ہ درآمدات برآمدات اور کنسٹرکشن کا کاروبار غیر ملکی کمپنیوں کے غلبے میں تھا۔ ملک میں بڑے بڑے پروجیکٹ سرکاری افسروں اور وزیروں کی مدد سے غیر ملکی کمپنیاں لیتی تھیں۔ امریکی کمپنیوں کو شاہ کی براہ راست سرپرستی حاصل تھیں ، کوئی سرکاری ادارہ امریکی کمپنیوں سے سوال نہیں کرسکتا تھا اور ان پر انکم ٹیکس بھی معاف تھا۔ امریکیوں کو ایرانیوں پر فوقیت حاصل تھی۔ اس طرح ملکی سرمایہ پر مٹی بھر لوگوں کا غلبہ ہوگیا تھا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*