شاعری

 

اک ایسی وادی جہاں کسی بھی آواز کا سبزہ نہیں اگتا

زندگی اِک شفّاف عبادت بن جاتی ہے

کبھی کبھی تمہارا گمان مجھے مجھ سے چھڑا کر بہت دور لے جاتا ہے

اور میں جَب بہت دور سے خود کو حسرت بھری نگاہوں سے تکتا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں کہ نیند نے تمام شہر پر غلبہ پا لیا ہے

اور تمام لوگ سجدے کی حالت میں نحیف خرّاٹوں کی اِک ایسی وادی میں اتر چکے ہیں

جہاں نہ زمانہ اندر داخل ہو سکتا ہے

اور نہ میں اور تم کسی چور دروازے سے باہر فرار ہو سکتے ہیں

کوئی نہیں علاوہ ہمارے

بس میں ہوں اور تم

اور زندگی کی شفّاف عبادت

جو شہر کی رَگوں میں اِک میٹھے پانی کے چشمے کی صورت مسلسل بہہ رہی ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*