اردو شاعری میں جدا ذائقہ

 

امداد حسینی کی شاعری پر میرا پہلا تاثر یہ ہے کہ وہ ایک جداگانہ ذائقہ رکھتی ہے ۔یہاں میں لفظ لہجہ نہیں استعمال کررہی کہ ان کی شاعری صرف کانوں

ہی کو بھلی نہیں لگتی بلکہ اس حسِ جمال کو بھی متاثر کرتی ہے جو فن پارے سے سرشار ہوتی ہے، ایسا فن پارہ اپنے اسلوب میں منفرد ہوتاہے۔یہ سرشاری کی کیفیت نا مانو س تجربے یا مشاہدے سے ہی پیدا ہوتی ہے ۔ ۔یہی خصوصیت امداد حسینی کی شاعری میں ہے جس کی وجہ سے اُنہیں اپنی شناخت اور مقام بنانے کے لئے کسی نقاد کی گواہی یا ہجوم کی داد کی ضرورت کبھی نہیں رہی ۔ان کی شاعری خوشبو کی طرح ادب کی فضامیں محسوس کی گئی، سراہی گئی اورسندھی و اردو زبان میں قبولِ خاص وعام ہوئی ۔

امداد حسینی جنہیں میں پورے خلوص سے بڑے بھائی کا درجہ دیتی رہی ہوں ، انسان اور تخلیق کار دونوں ہی حیثیتوں میں قابلِ احترام تھے ۔ان کی شاعری اور رویوں میں کوئی تضاد نہیں تھا۔پہلی ہی ملاقات سے گفتگومیں تکلف یا اجنبیت حائل نہیں ہوئی نہ ہی ابلاغ میں کوئی ابہام رہا۔جو کچھ اُن سے سنا بامعنی اورواضح تھا۔جو کچھ اُنہیں کہا انہوں نے ویسا ہی سمجھا ۔صاف اور مثبت فکر کاتاثر ہمیشہ عیاں رہا۔شاید اس میں تہذیبی ورثے ہے اور اس شعور کا بھی دخل ہے جس کاتسلسل علم و اقدار کی وراثت ہے ۔یہ وراثت مادی نہیں اخلاقی ہے جو خاندانی اقدار سے منتقل ہوتی ہے ۔جب ہم امداد حسینی کا نسبی سلسلہ دیکھتے ہیں تو علم و ادب سے وابستہ ہستیاں اعلیٰ نسل در نسل نظر آتی ہیں ۔جیسا کہ ان کی شریکِ حیات ڈاکٹر سحر امداد حسینی نے لکھا ہے :

”شاعری امداد حسینی کے خمیر میں ہے۔ان کا تعلق سندھ کے ایک نامود ادبی گھرانے سے ہے ۔ان کا شجرئہ نسب شاہ عبدا لطیف بھٹائی کے” جراڑ

پوٹا “خاندان سے ملتاہے ۔ان کے دادا سیّد اسد شاہ فداخود ایک جیّد عالم اور فارسی عربی اور سندھی زبان کے شاعر تھے ۔اُ ن کے دادا کے چھوٹے بھائی سیّد حافظ شاہ کا ،شمار سندھ کے بڑے کافی گو شعراءمیں ہوتاہے ۔“ (1)

امداد حسینی کی زبان واظہار پر غیر معمولی دسترس ،شائستگی اور وقارِ لفظی اسی سلسلے کی دَین ہے ۔وہ سندھی میں لکھیں یا اردو میں بقول فہمیدہ ریاض ”ایک من موجی، اپنی دھن میں رہنے والا شاعر جیسا سندھی میں ہے ویسا ہی اردو میں بھی ہے“ ۔

فہمیدہ ریاض نے بہت محبت سے لکھا:

”ارے امدا د حسینی تم تو کوئی خزانہ ہو ہمارے ادب کا کیا اردو کیاسندھی سارے ادب کا“۔(2)

ایک سچی شاعرہ نے اپنے ہم عصر کی تعریف میں بے ساختگی سے وہ بات کہہ دی ہے جو امداد حسینی شاعری کے لئے بہت بامعنی ہے ۔امداد حسینی کا لہجہ ہی نہیں مضامین و فکر میں بھی ہر طرح کی عصبیت سے پاک انسانیت سے محبت کی لہر میں موجزن ہے ۔وہ محبت جو ہاتھ میں تھامے قلم اور ہونٹوں پر آئے لفظ کو ہتھیار نہیں بننے دیتی ۔ان کے مجموعے ”دھوپ کرن “ میں نظم ”سندھ فقط لفظ نہیں“ ۔ کو میں نے کتاب کے منظو م پیش لفظ اور ان کی سچائی کے کمٹمنٹ کے طور پر دیکھا ہے۔

اس نظم کا آغاز یوں ہوتاوہے :

سندھ سندھی میں کہیں اردو میں

کہیں

ایک ہی بات ہے سندھی اردو

ایک ہی بات ہے اردو سندھی

ہاں مگر یاد رہے سندھ فقط لفظ نہیں ،جس کی بنا چند حروف !

جن کی ترتیب بدلنے سے بدل جاتے ہیں معانی و مطالیب سب ہی

نظم کا اختتام یوں ہوتاہے :

سندھ سندھی میں کہیں

سندھ اردو میں کہیں

ہاں مگر دل سے کہیں

اور سب مل کے کہیں !

یہ نظم رویہ ہے ایک سچے دانشور اور تخلیق کار کا جو رواداری ،خیر اور حسن کی فضا کو نظم کرنے میں اپنا کردار اداکرتاہے ۔اس کے باطن کی شفافیت اُس سے یہ کام غیر شعوری طور پر لیتی ہے ۔کوتاہ بین اور دورندیش لوگوں کے ہجوم میں اس کی شخصیت منفر د نظر آتی ہے ۔ایسی ہی شخصیت تھی امداد حسینی کی ۔

ہونٹوں پر مسکراہٹ ،دھیمی آواز ،میٹھا لہجہ ۔ آنکھوں میں ذہانت اور شفقت سکون اور ٹھہراﺅ کا تاثر دیتے ہوئے جیسے کہہ رہے ہوں ،دیکھو میں نے

اپنے باطنی اضطراب کوتخلیق میں تحلیل کردیاہے ۔محبت میرا مسلک ہے جو ہر طرح کی آلودگی سے پاک ہے ۔جیسا کہ ا ن کی نظم جس کاعنوان ”یا….!“ ہے:

میرااُداس من

تم نے کبھی کہا تھا جسے پیار کا وطن

میرا اُجاڑ من

تم نے کبھی کہا تھا جسے چاہ کا چمن

میرا اشانت من

ساگر کبھی کہاتھا جسے تم نے پریت کا

سوتانہیں ہے وقت کے مانندجو کبھی !

لیکن کبھی کہابھی تھا یہ ؟

یا نہیں کہا!

اُن کی چھوٹی چھوٹی نظمیں عنوان سے اختتام تک اپنے اپنے اختصار میں معنی وکیفیت کی وسعت لیے قاری کی فکر کو بھی جگاتی ہیں ۔ مثلاًپانچ لائن کی یہ نظم ”صورتحال“ دیکھیے:

ہر طرف فرد جرم جیسے فرد

اور ہوا جیسے کوئی آہِ سرد

ہردِشادرد ،درد،درد ہی درد

گوٹھ دھاڑیل ،شہر دہشت گرد

عورتیں بانجھ، مرد سب نامرد!

یہ نظم بغیر شوگر کوٹنگ کے بھی تلخ سچائی کو بھی بدذائقہ نہیں ہونے دیتی ۔

ایسے ہی مختصر الفاظ اور مصروں میں سچا سادہ اور براہ ر است اظہار جو شاعری کے معیار پر پورا اترتاہے ۔ہمارے عہد کی بدصورتیوں کو سامنے لاتے

ہوئے بھی شائستگی اور جمالیات کو قائم رکھتاہے ۔امداد حسینی کی متعدد نظموں میں محسوس کیاجاسکتاہے۔اس نظم میں جس کا عنوان ہے ، ”ایک کتھا“ میں ایک

بے حد حساّس انسان کو دیکھیے جو دوسروں کے دکھ کو بھی اپنے اوپر جھیل کے لکھ سکتا ہے:

مرداس کا جیل میں تھا

قتل کے الزام میں

روپوش بیٹا

اور بیٹی ہوچکی ”کاری“ کبھی کی

بے خطا اوربے گناہ

اور اب اس کے لئے

دن نہیں، پھانسی کا پھنداتھا گلے میں

رات کیا تھی؟

ظلم کی دیوار تھی اس کے لیے

جس کو نہ پھاندا جاسکے

اور نہ توڑا جاسکے!

دُکھ سرہانے ،

پائنتی

گزرے ہوئے دن کی تھکن

رکھ کر

چٹائی پر وہ جیسے جاکے لیٹی

آنکھ اس کی جاکے اک روشن ستارے پرٹِکی

پل اَپل میں وہ اُسے

اپنی بیٹی کا رخ روشن لگا

پھر اتر آیا وہ اس کی آنکھ میں !

 

امداد حسینی کے مجموعے “دھوپ کرن” کی ہر نظم کو محسوس کوکیا جاسکتا ہے اس پر بات کی جاسکتی ہے۔یہ ایسی شاعری ہے جس کے ساتھ وقت گزارا جاسکتا ہے۔

آج کے حالات میں“باڑھ”نظم کا ایک بند سن لیجے۔

باڑھ آئی تو بہا لے گئی جانے کیا کیا

ماں کی لوری بھی بہا لے گئی وہ ماں کے ساتھ

اور بچوں کو سُلانے کے لئے دادی کی

وہ کہانی بھی بہا لے گئی ہے ساتھ اپنے

اب نہ نیندیں ہیں نہ خواب آنکھوں میں

نہ کھلونے ہیں نہ جھولا نہ آنگن نہ وہ پیڑ

نہ وہ من مو ہنی مسکان لبوں پر اُن کے

نہ شرارت ہے نہ وہ کھیل نہ کود

ان کے مجموعے“دھوپ کرن”میں سب نظمیں ہیں مگر چند نظمیں ایسی ہیں جو تغزل اور تیکنک دونوں کے اعتبار سے اچھی غزلیں ہیں۔صرف ان پر عنوان لکھ دیا گیا ہے۔ان میں سے چنداشعار دیکھیے:

وہ ناشناس ہی سہی، نامہرباں سہی

تھا مہرباں کبھی، تو یہ اپنا گماں سہی

 

دونوں طرف زمین وہی، آسماں وہی

دیوا ر ایک تیرے مرے درمیاں سہی

اور

ڈائری میں گُلاب کو رکھنا

اور آنکھوں میں خواب کو رکھنا

زندگی کے لئے اگر سوچو

سامنے ایک حباب کو رکھنا

آخری عمر میں جب وہ زیاہ بیمار رہنے لگے ،اُن کی عیادت کو ہسپتال گئی تو ہشاش بشاش نظر آئے ۔ایک وزیٹر بُک کمرے میں رکھی تھی ۔اشارہ کیا،

اِسے اٹھاﺅ اور لکھو ۔۔میں نے اُسی وقت چند جملے لکھے تھے جنہیں سن کر اُن کی آنکھوں میں وہی مخصوص چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی جو اُ ن کی شخصیت کا حصّہ تھی ۔اُن کو اسی مسکراہٹ کے ساتھ یاد رکھنے اور اپنے جملوں کو بھی محفوظ کرنے کے لئے میں یہاں نقل کررہی ہوں :

”مایہ ناز شاعر ،بہترین انسان ،ادا امداد حسینی سے جو شفقت اور محبت کارشتہ وہ میری ادبی ہی نہیں ذاتی زندگی کے لئے قدرت کا عطیہ ہے ۔اُن کی اور سحر امداد کی شخصیت مل کر ایسا مکمل سکون بخش رفاقت کا سایا بن جاتی ہے جو زندگی کے سفر میں میرے ساتھ رہاہے ۔اکثر ہمارے اپنے شہر میں اور شہر کے باہر راستوں پر بھی۔ اللہ تعالیٰ اِس رفاقت کو سلامت رکھے جس میں علم ،تخلیق ، آرٹ کے ساتھ انسانی رشتے کا وہ اعتباربھی ہے جو رفاقتوں کو معتبر بناتاہے ۔جیے امداد حسینی اپنے پیاروں کے ساتھ ۔اچھے اچھے شعر لکھتے رہیں“ ۔

مئی دوہزار بائیس کو میں نے یہ جملے لکھے تھے ۔اس کے بعد بھی امداد بھائی سے ملاقات اُن کے گھر پر ہوئی ۔ستائیس اگست کو جب میں ملک سے باہر تھی ،ان کے انتقال کی خبرآئی تو ایسا محسوس ہوا کہ واپس لوٹوں گی تو میرے شہر میں دھوپ شدید ہوگی اور ایک پیڑ جو سایا دیتاتھا ،کم ہوچکا ہوگا۔

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*