یوسف مستی خان

 

16جولائی 1948۔۔29ستمبر2022

 

یوسف مستی خان نے تقریباً اسی وقت کراچی میں سیاست شروع کردی تھی جس وقت میں نے سبی کی سیاست شروع کی تھی۔ وہ ولی خان کی پارٹی میں تھا اور مجھے حالات نے سی آر اسلم کا ساتھ دینے والوں میں رجسٹر کیا۔ میں نے کبھی پوچھا نہیں کہ اسے بعد کی زندگی میں ولی خان اورپھر بعد میں شیر باز مزاری کی فیوڈل پارٹیوں میں رہنا کیسا لگتا تھا ۔ مگر جب اُن پارٹیوں کے نہ رہنے کی بدولت وہ ایک بار تاریخ کے اِس جبر سے چھوٹا تو پھر زبردست ہوگیا۔

ضیاءکا دور روپوشیوں یا مختصر دورانیے کی جیلوں میں سے ہو کر گزرگیا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس کی پارٹی ٹوٹی اور یہی وہ زمانہ تھا جب میری پارٹی بھی ٹوٹی۔ اس کی نیپ اور این ڈی پی وغیرہ وغیرہ سے جان چھوٹی اور وہ پی این پی والا بن گیا۔ میں البتہ اپنی پارٹی کا نام ، اس کا پرچم، اُس کا ہفت روزہ اخبار، اور اکثریتی دھڑا بچانے کے لیے آسمان کا مشکور رہا۔

بزنجو صاحب کا سایہ سروں پہ سے اٹھ گیا تو بزنجو صاحب کی ڈھیلی آرگنائزیشن والی پارٹی بھی ٹوٹ گئی۔ یوں ایک ٹکڑے کی صدارت یوسف مستی خان کے حصے میں آئی ۔ کچھ ہی عرصہ بعد میری سوشلسٹ پارٹی ،لال بخش رند اور مستی خان کی پارٹیوں کے مابین ادغام کا فیصلہ ہوا۔ ایک منشور کمیٹی بنی جس میں میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کر رہا تھا ۔ اس کمیٹی کی ایک آدھ میٹنگ کراچی میں ہوئی اور وہیں یوسف جان سے بھرپور شناسائی ہوئی۔ اور ہم نیشنل ورکرز پارٹی کے پرچم تلے ایک ہی پارٹی میں کام کرنے لگے ۔ یہ 1999تھا۔

اس پارٹی میں سامراج دشمنی ، قومی حقوق کی سیاست ، اور محکوم طبقوں اور عورتوں کی جدوجہد کو باہم ملا کر چلنے کا فیصلہ ہوا۔ اب یہ پارٹی قوم پرست بھی تھی، یہ ورکنگ کلاس کی پارٹی بھی تھی اور اسے عورتوں کے حقوق کے لیے بھی جدوجہد کرنا تھی۔

ہم دونوں ہماری نئی پارٹی کی اس بات سے مکمل طور پر متفق تھے کہ پاکستان جیسے ملک میں قومی سوال کو طبقاتی اور طبقاتی سوال کو قومی سوال سے کاٹ کر دیکھا نہیں جاسکتا کیونکہ ایک جینوئن قومی سوال اپنے مواد میں بین الاقوامی ہوتا ہے اور طبقاتی سوال اپنی ساخت میں قومی ہی رہتا ہے ۔

ہم اکٹھے ایک ہی پارٹی میں سیاست کرنے لگے ۔ اُس کے سابقہ تجربات کے برعکس اب یہ کوئی ”مین سٹریم “بورژوا پارٹی نہ تھی ۔ بلکہ یہ ایک لحاظ سے کیڈر پارٹی تھی۔ یہاں سٹڈی سرکلیں ہوتی تھیں، ایک نظریاتی اخبار موجود تھا جس کا پڑھنا ہر ممبر کے لیے لازم تھا۔ اور وقت پہ اس کی کانگریسیں ہوتی تھیں جن میں باقاعدہ سیاسی ، تنظیمی اور مالی امور کی لکھی ہوئی رپورٹیں پیش ہوتیں ۔ اُن رپورٹوں پہ باقاعدہ بحثیں ہوئیں ۔ اور پھر پارٹی میں باقاعدہ نئی قیادت چنی جاتی ۔ یہ سارے ایسے کام تھے جو یوسف جان کی سابقہ ساری بورژوا پارٹیوں میں نہیں ہوتے تھے۔

یہاں عمومی خواہش تھی کہ محنت کو عظمت حاصل ہو، محنت کا استحصال ختم ہو،ملک کے آئین کی بنیادی ری سٹرکچرنگ ہو، فیڈریشن کی تشکیل کرنے والے یونٹوں کو ملک میں عملی طور پر بااختیار بنا کر ملکی امور میں برابر کا حصہ دار بنایا جائے ۔ ہر یونٹ کے کلچر، زبان اور اپنے قدرتی وسائل پر اُس کے حتمی اختیار کا حق حاصل ہو۔

یوسف اس تحریک کا اٹوٹ حصہ تھا ۔ اسے قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ اسے دولت اور اقتدار کا حرص نہ تھا۔ اب اس نئی پارٹی میں تو وہ پاور پالٹیکس کا امیدوار بھی نہ رہا تھا۔ اس نے اپنی سیاسی تقدیر لوئر کلاسز کی طویل اور صبر آزما تحریک کے ساتھ جوڑ لی اور بقیہ ساری عمر ثابت قدم رہا۔ وہ بلوچ قومی خود اختیاری کے حق کے ساتھ تھا۔ اس نے مارشل لاﺅں ،دائیں بازو اور پھر بھٹو یا عمرانی پاپولزم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس نے بلوچستان، پنجاب ،سندھ اور خیبر پشتونخواہ کے کسانوں مزدوروں کی تحریکوں کو جوڑنے میں اپنی ساری صلاحیتیں استعمال کیں۔اپنا ٹائم ، اپنی قوت ، اور پیسہ سارے کا رخ اسی طرف۔

یوسف کا خاندان اصل میں ایرانی بلوچستان کے چابہار کاگورگیژ تھا۔ مستی خان تو اُن لوگوں کا خاندانی نام ہے ۔یہ لوگ انیسویں صدی کے وسط میں روٹی روزگار کے لیے کراچی شفٹ ہوئے تھے۔ بات بنی نہیں تو اُن لوگوں کا بزرگ برما چلا گیا ۔ وہاں رئیل سٹیٹ کا کام کیا ۔ اُس وقت انگریز وہاں ریلوے لائن بچھا رہا تھا ۔ تو اس نے پتھر لانے کا کاروبار شروع کیا ۔ اس طرح وہ اچھا خاصا پیسہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ وہ سرمایہ داروں میں شمار ہونے لگے اور یوں وہ لوگ 1902میں واپس کراچی لوٹے۔

یوسف 16جولائی 1944کو کراچی کے اسی کاروباری گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس نے اپر کلاس کے ایک بہت بڑے تعلیمی ادارے ”برن ہال“ ایبٹ آباد سے مڈل تک تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد کراچی کے مشنری سکولوں میں تعلیم پائی۔ 1968میں کراچی سے گریجوئیشن کی ۔

تعلیم کے بعد ،اپر مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والا یوسف پاکستان برما شیل میں ایک سنیئر عہدے پہ لگا جس میں مزید ترقی کے کافی امکانات تھے ۔ مگر وہ بھٹو دور میں اسے چھوڑ کر سیاست میں آگیا تھا۔

یوسف کی کمٹ منٹ بہت مضبوط تھی ۔ رفتار حالات کے مطابق کبھی تیز کبھی سلو، مگر وہ رہا محکوم و مجبور عوام کے ساتھ ہی ۔ کتنے جھکڑ چلے ۔ سیٹو، سنٹو، بنگال کی آزادی ، رنگ برنگے مارشلا ، افغان انقلاب اور اس کاردِ انقلاب، مرگِ سوویت یونین، نائن الیون۔۔۔ مگر مستی خان کی سیاسی آنکھوں پر سے مارکس ازم کی عینک نہ ہٹی۔

وہ بہت زیادہ اکیڈمک شخص نہ تھا، اسے بس موٹی موٹی باتوں کا خوب اچھی طرح علم تھا۔ انہی باتوں کو اپنی سیاست کے پلّو میں باندھے وہ پوری زندگی بتا گیا۔

یوسف مستی خان جیسے اچھے مقرر کے لیے خود کو پبلک جذبات کے بہاﺅ میں بہنے نہ دینا کتنا مشکل ہوتا ہے ۔اُس نے اب وہ راستہ اختیار کیا تھا جہاں عاقل و بالغ زندگی کا ایک لمحہ ضائع کیے بغیر عوام میں شعور پیدا کرنا تھا ، اسے منظم بنانا تھا ، اس کے ناز اٹھانے تھے، اسے دائیں بائیں انتہا پسندی کی طرف جانے نہ دینا تھا، جلسہ کرو جلوس کرو، جیل جاﺅ، تشدد سہو، بیوی بچوں کو اُن کی قسمت کے حوالے کر کے انہیں غربت، مشقت کی زندگی پہ ڈالو ۔۔ اور پھر مرجاﺅ۔

سنگت یوسف نے نہ دولت بنائی نہ بادشاہی لی ۔ بس ایک آدرش ، ایک نظریہ، ایک ستھرا ضمیر ، عوامی خدمت کا اعمال نامہ اور موت ۔ وہ عام عوام کے ایک فرد کی طرح جیا اور ایک عام بہادر وزیرک و ثابت قدم اچھے آدمی کی حیثیت سے مرا۔

وہ زندگی بھر کانپے لرزے جھجکے بغیر اپنے کاز کے ساتھ وفادار رہا۔ سردار زادگی سے دور تھا ، سندھ کے اندر اس کی جاگیریں نہ تھیں۔ اس نے ایک طرف اولاد کو پڑھایا اور دوسری طرف اپنی سیاسی ورکر والی ساکھ برقرار رکھی۔

 

ہم دونوں تقریباً تیرہ برس تک اکٹھے سیاست کرتے رہے ۔ جس کے بعد میں پیچھے اپنی کھونٹی ہی سے بندھا رہ گیا اور اُس توکل بھرے شخص نے 2012میں ”بے شمار “اور ”گوناگوں “پارٹیوں ، گروہوں اور افراد سے ایک اور انضمام میں چھلانگ لگادی۔یوسف اُس انضمامیت کا عہدیدار بنا اور پھر اُس کا مرکزی صدر ہوا۔

 

اسے کینسر ہوگیا۔ مگر بجائے اپنی سیاست کی مونچھوں کو نیچے گرانے کے وہ اپنے دل کی باتیں دھڑ لے سے بیان کرنے لگا۔ اب اسے ملکی آئین، قانون، اگر مگر، تھانہ کچہری ، شوکاز نوٹس ، جواب طلبی کسی چیز کی پرواہ نہ تھی ۔ دل اور ہونٹوں کی ہارمنی حتمی ہو گئی ۔ ضمیر اور اظہار یکساں ہو چکے تھے ۔ شعلہ بیانی بھی تھی اور بلوچستان کی قومی اور طبقاتی مسئلے میں جان بھی تھی۔ اس لیے خوب بولا، ہرپلیٹ فارم پہ بولا۔

29 ستمبر2022کو جگر کے اسی کینسر کے ہاتھوں زندگی ہار گیا ۔

 

یوسف جان دوستوں سنگتوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ تین بیٹوں اور تین بیٹیوں کو سوگوار چھوڑ گیا۔

 

78برس میں سے 24 برس طفلی اور جوانی کے نکا لو تو پورے 50برس اس نے سامراج دشمنی، جمہوریت اور آخری کئی سال تو خالص سوشلزم کے لیے تج دیے ۔ ایسا سوشلزم جس میں صرف محکوم طبقوں ، محکوم قوموں اور محکوم جینڈرز کے حقوق کا تین نکاتی منشور تھا۔

اس نے قدیم آبادیوں کے باشندوں کے حقوق کے لیے اُن کا زبردست ساتھ دیا، اُن کی قیادت کی اور انہیں منظم کیا۔ وہ اس کی خاطر بحریہ ٹاﺅن جیسے ڈائنو ساروں سے ٹکرا گیا۔

یوسف سچ کے ساتھ کھڑا رہا، اور ڈٹ کر کھڑا رہا۔ وہ اپنی شعلہ بیانی کے ساتھ یہ کام بھرے بازار میں ، چوک چورا ہے پہ، گوادر کے ماہی گیروں کے جلسے میں، دانشوروں کے اجتماع میں اور پارٹی میٹنگوں میں کرتا رہا ۔ حلق اور خلقت کا ساتھی تھا وہ ۔

یوسف مستی خان اُن لوگوں میں سے ایک ہے جو اپنی زندگی کے آخر میں کہہ سکے ہوں کہ:

شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کر دم

 

اس کی وفات سے عوام ،بالخصوص مزدور کسان ،ماہی گیر، معدنی کارکن اور چرواہوں کے اتحاد کو نقصان ہوا۔ محکوم قوموں بالخصوص بلوچ قوم کی پروگریسو تحریک کو جھٹکا لگا۔ بلند آہنگ میں حق بولنے والا ایک گلا بند ہوگیا۔

کچھ برس زندہ رہتا تو بڑی کامیابی تو نہ دیکھ پاتا لیکن اپنی جدوجہد سے کچھ مزید مطمئن ہوجاتا۔ مظلوموں کے پلڑے میں کچھ مزید مٹھاس ڈال پاتا۔ چند مزید ذہنیں حقیقت آشنا ہوجاتیں ، عمومی اونگھ کی گہرائی کو چند جھٹکے لگتے۔۔۔ اور شاید کچھ اور راہی ہمراہی اختیار کرتے۔

 

مگر حریص طبقہ ابھی زندہ ہے اور اس پہ اعتبار نہ کرنے والا نچلا طبقہ بھی زندہ ہے۔ لہذا جدوجہد زندہ ہے ، جدوجہد کی شاہراہ زندہ ہے ۔

یوسف جان ! آپ نے ہماری راہ کے اچھے خاصے کانٹے چنے تھے۔۔۔

آپ اچھے آدمی تھے۔

 

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*