کپٹلزم

     چونکہ مزدور کے گذر بسر کا واحد ذریعہ اپنی  محنت کو بیچنا ہے، لہذا وہ خریداروں کے پورے طبقے، یعنی سرمایہ دار طبقے کا دامن نہیں چھوڑ سکتا۔ گوکہ وہ کسی ایک یا دوسرے سرمایہ دار کی ملکیت نہیں، مگر وہ پورے سرمایہ دار طبقے کی ملکیت ضرور ہے، وہ اسی سرمایہ دار طبقے کے اندر ہی کوئی نیا گاہک تلاش کرتا رہتا ہے۔

کپٹلزم میں اگر کپٹل مزدور کو کام نہ دے تو مزدور مر جائے گا۔اور پھر کپٹلزم بھی مرجائے گا۔اسی طرح اگر کپٹلزم”مزدور“ کی قوت کو استعمال نہ کرے تو کپٹلسٹ بھی مرجائے گا۔اور پھرکپٹلزم بھی مرجاے گا۔لہذا یہ تو بالکل بھی نہیں ہوسکتا کہ کپٹلزم مزدور کے بغیر چلے۔ اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ کپٹلزم کپٹلسٹ کے بغیر چلے۔

سرپلس ویلیو کے علاوہ پیسہ کہاں سے آتا ہے؟

ہم نے دیکھا کہ سرپلس ویلیو ناجائز ہے۔ اس لیے کپٹل بذاتِ خود ناجائز ہے۔ جب کپٹلسٹ کی ساری بنیاد ناجائز ہے تو اس کا سارا نظام ”ناجائز ات“ اکٹھا کرنے والا نظام ہوا۔ یہ اس سلسلے میں رشوت، سفارش، ٹیکس چوری، کمیشن، کک بیک، بجلی اور گیس چوری، اور سمگلنگ کا ملغوبہ نظام ہے۔ سرمایہ دار کا پیسہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

ہم تین چار اور ذرائع بھی گنوا سکتے ہیں جن سے اس کی تجوری پھولتی جاتی ہے۔

*کپٹلسٹ اپنی مشینوں کی کارکردگی بہتر کرتا  جاتاہے۔ یوں زیادہ مزدور رکھنے کے بجائے اب وہ ایک ہی مزدور سے زیادہ مشینیں چلواتا ہے۔ اس طرح وہ مزید سرپلس ویلیو بٹورتا جاتا ہے۔

*اسی طرح وہ ہر وقت اس بات کی تاک میں رہتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے کارخانوں میں کام کرنے والوں کی اجرتیں کم کرے۔

*  ایک اور معاملہ یہ ہوا کہ مغربی یورپ کے ممالک جو کہ صنعتی انقلاب کا پنگھوڑا تھے زبردست رفتار اور مقدار سے ترقی کرتے گئے جبکہ غیر مغربی،اور دیر میں کپٹلزم قبول کرنے والے ممالک کی ترقی سست رہی۔ یوں آج کپٹلزم دو حصوں میں ہے: ڈِولپڈ کپٹلزم اور ڈِولپنگ کپٹلسٹ ممالک۔مگر چونکہ کپٹلزم ایسا سانپ ہے جو اپنے بچے کھاتا رہتا ہے۔ اس لیے پاکستان جیسے ڈولپنگ کپٹلسٹ ممالک کی تقدیر میں یہی لفظ لکھا ہوتا ہے۔

چنانچہسرپلس ویلیو سے پیسہ بٹورنے کا عادی کپٹلزم اس کے علاوہ ایک اور کام بھی کرتا ہے۔ وہ جب اپنے ارتقا کی بلند ترین سطح یعنی ناکارہ اجارہ دار سرمایہ داری میں ڈھل جاتی ہے تب بھی اپنے لوازمات یعنی منڈی، مقابلہ اور بحران ساتھ لیے ہوتی ہے۔ وہ پہلے ہی سے ڈولپنگ کپٹلسٹ ملکوں سے  خام مال سستا خریدتا رہتا ہے۔ یعنی یہ ایک اور سورس ہوتاہے پیسہ بچانے اور کمانے کا۔

پیسہ جوڑنے کا تیسرا کام وہ یہ کرتا ہے کہ جب اُس ملک کے خام مال سے پراڈکٹ تیار ہوتا ہے تو وہ اُس پراڈکٹ کو اُسی خام مال والے ملک کو مہنگا بیچتا ہے۔ اِس گراں فروشی میں اسے مزید پیسہ حاصل ہوتا۔

اِن سارے اقدامات سے وہ ملک  محتاج ہوتا جاتا ہے۔ اور بالآخر معاشی طور پر محتاج،منحصر اور مفلوج ہوجا تا ہے۔ تب یہ کپٹلسٹوں والا ملک اُس سے اپنا اسلحہ خرید واتا ہے، پڑوسیوں سے اس کی جنگیں کرواتا ہے۔نیز وہ اُسے قرضے دے کراچھی طرح پھنسا لیتا ہے۔ اور یوں  اُس کے داخلی اور خارجی امور کے فیصلے اپنی مرضی سے چلواتا ہے۔

اِس سارے کھیل کے کھلاڑی کو امپیریلزم یا سامراج کہتے ہیں۔

*    سرپلس ویلیو کا نظام اجرتوں کی کمی کے نفاذ کے لیے ایک اور اقدام بھی کرتا ہے۔ وہ اپنا کارخانہ ہی اکھاڑ تا ہے اور اسے غریب ممالک میں لے جاکر لگا تا ہے۔ جہاں بے روزگاری کی وجہ سے مزدور کم  ترین اجرت پہ بھی کام کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اُسے وہاں کی ریاست زمین مفت، ٹیکسوں میں چھوٹ اور دیگر بے شمار رعایتیں دیتی ہے۔آج کا چین اس کی مثال ہے۔ مغربی کپٹلسٹ دنیا نے انہی حالات و شرائط پہ آٹو موبیل، الیکٹرانکس،انفارمیشن ٹکنالوجی اور انفراسٹرکچر سے وابستہ اپنے سارے کار خانے اکھاڑ کر چین منتقل کر لیے۔

 

***

 

کماڈٹی کی پیداوار رفتہ رفتہ اپنی ضرورت سے زائد ہو کر باہر بیچنے یا تبادلہ کرنے کے لیے ہونے لگی۔جس جگہ یہ خریدو فروخت ہونے لگی وہ جگہ منڈی، پڑی، یا،مارکیٹ بن گئی۔

۔۔۔۔ اور پھر یہ مارکیٹ طاقتور ہوتی گئی۔انفرادی کپٹلسٹوں نے بالخصوص یورپ میں مارکیٹ پہ حاوی ہونے کے لیے کمپنیاں بنا ئیں۔ مزید منافع بٹورنے کی خاطر اُن کمپنیوں نے آپس میں مقابلے کیے،ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کیں،لڑائیاں کیں۔موٹی کمپنی نے کمزور کو کھالیا، خرید لیا،ضم کر لیا۔اور بالآخر ملکی سرحدوں سے باہر کی کمپنیوں سے الحاق کیے، مرجرز کیے اور یوں ایک زمانے کی مقامی کمپنی، قومی کمپنی بنتے بنتے ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیوں کی شکل اختیار کرگئی۔

یہیں بس نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ٹرانس نیشنل کمپنیاں بھی،ایک دوسرے کے مقابلے میں منافع کے اندر فربہ ہونے کی تگ و دو میں رہتی ہیں۔ حتی کہ وہ ایک دوسرے کو کھاجانے اور صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے لگیں۔چنانچہ کپٹلسٹ دنیا کا ایک قانون ”انضمام، اور، مرجر“ہے (اب تو میگا مرجر)۔ ہم روز دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ایک میڈیا ہاؤس دوسرے کواپنے اندر جذب کرتا ہے ،دوائیوں کی ایک کمپنی دوسری کوکھا جاتی ہے، اور ایک آئل ٹرانس نیشنل کمپنی دوسری کو خریدتی رہتی ہے، اپنے میں ضم کرتی رہتی ہے۔

یوں سرمایہ (کپٹل)تعداد میں بہت انسانوں سے چھنتا گیا اور کم ہوتے ہوتے چند ہاتھوں میں جمع ہوتا گیا۔

یعنی منافع(کپٹل) زیادہ جیبوں سے نکل نکل کر کم سے کم ہاتھوں میں جمع ہوتا رہتا ہے۔دولت کا ارتکاز ہوتے ہوتے اب تو صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ دنیا میں جتنی بھی دولت پیدا ہوتی ہے اُس سب کے 82فیصد کا مالک صرف ایک فیصد لوگ ہیں۔

کپٹلزم سرپلس ویلیو نامی نشے کا نشئی نظام ہے۔اگر کپٹل شراب ہے، تو نشے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ یہ جلد اتر جاتا ہے اور اسے پھر تازہ کرنا پڑتا ہے۔ شراب شراب ہوتی ہے، یہ آبِ حیات نہیں کہ آپ نے ایک آدھ گھونٹ پی لیا اور جنم جنم جی لیے۔ شراب (سرپلس ویلیو) کو،تو لمحہ لمحہ پینا ہوتا ہے۔ یہ ہر ہر ساعت میسر ی مانگتا ہے، ہر ہر گھڑی مسلسل سپلائی چاہتا ہے۔

نہ صرف یہ کہ اس کی مسلسل ترسیل چاہیے، بلکہ ہر روز ڈوز بڑھاتے جانا ہے۔ نشے کی خاصیت ہے یہ۔

کپٹلزم پہاڑوں کو روندنے کی قدرت رکھتا ہے یہ خوفناک بپھرے  دریاؤں کو ڈائینو ساری ڈیم بنا کر روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مہیب سمندر اُس کے سامنے اتنا شانت کہ اپنی پیٹھ اُس کے ہزاروں ٹن وزنی بحری جہازوں کو براعظموں تک سواری بننے کے لیے ہمہ وقت حاضر باش کرتا ہے۔ کوئی طبعی جغرافیائی رکاوٹ اس کے سامنے نہیں ٹک سکتی۔

حتمی بات ہے کہ سرپلس ویلیو،کپٹلزم کی ماں ہوتی ہے۔ اُس گود کا عادی ضدی بچہ انسانیت، حب الوطنی اور نام نہاد اخلاقیات کی بدترین دشمن ہوتا ہے۔اس لیے کپٹلسٹ نظام کا جو حکمران زیادہ محبِ وطن بننے کی باتیں کرے سمجھو کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ مارکیٹ کی نگاہ میں قوم پرستی اس لیے شیطانیت ہے کہ قوم پرستی وسیع منڈی کے سامنے قومی سرحد نامی رکاوٹ ڈالتی ہے۔اس لیے مارکیٹ نظام کا جو مشرف قوم قوم، اور ”پہلے پاکستان“بولے سمجھو بہت استادی کر رہا ہے، وہ اصل میں بہت عرصے سے بیچ  آیا ہے قوم کو۔

کپٹلزم عقیدے کے نام پر بھی اپنی منڈی کو محدود رکھوانے نہیں دیتا۔اسی لیے کپٹلزم نہ یہودی ہوتا ہے اور نہ مسلمان۔ مگر وہ مذاہب کو استعمال خوب کرتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کپٹلزم کا بیٹا ضیا ء الحق جتنا زیادہ مذہب کی بات کرتا تھا، اتنا ہی زیادہ مارکیٹ کے مندر کا اس کا متولی پن ظاہر ہوتا جاتا تھا۔

کپٹلزم تکبر نہیں کرتا، امتیاز نہیں کرتا۔ اس کے ہاں نہ کالا تحقیری حیثیت رکھتا ہے اور نہ گورا افضل مقام کا مالک ہے۔ اس کے لیے زبان، عقیدہ، رنگ، اور نسل کا امتیاز بیکار کی باتیں ہیں۔ وہ ان سب سے بلند ہے۔

منافع کا ویٹیکن انسان کی جیب ہوتا ہے۔۔۔دنیا کے ہر انسان کی جیب۔ کپٹلزم جیب کی پوجا کرتا ہے۔وہ اس وقت تک دوسرے کی جیب کی پوجا کرتا ہے جب تک کہ اسے خالی نہ کردے۔ اور ایسا وہ عالمی طور پر خریداروں یعنی صارفوں کا کلچر لاگو کرکے کرتا ہے۔ چنانچہ جس لفظ گلوبلائزیشن سے ہم آپ آشناہیں وہ دراصل کنزیومر کلچر کی گلوبلائزیشن ہے۔

چونکہ پیسہ نامی کپٹلزم کی ماں پوری دنیا میں جڑیں پھیلائی بکھری پڑی ہے۔ اسی لیے کپٹلزم اپنی ماں کی تانگ میں دنیا میں ہر جگہ پر حاضری بھرنے، اورہرکونے سے روابط رکھنے پہ ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔

ہم امیرہوں یا غریب، کالے ہوں یا گورے، ایشیائی ہوں یا امریکی، بلوچ ہوں یا عرب،سب ایک ہی عالمی نظام میں زندگی گزار رہے ہیں: سرپلس ویلیو کے نظام میں، سلطنتِ سرپلس ویلیومیں۔ باقی ہم خواہ قذافی کی طرح ٹینٹ میں سو جانے کا ناٹک کریں یا واشنگٹن میں جاکر  عبایہ میں آٹھواں عجوبہ بننے کی کوشش کریں، دراصل یہ سب کوششیں خود فریبی اور شوبازی ہے۔ ایک آدھ ملک کو چھوڑ کر سارے آٹھ ارب انسان غلامان ِدربارِ مارکیٹ ہیں اور بس۔اور دربارمیں تو بجا آوری ہوتی ہے، کوئی اکڑ، افتخار نہیں چلتے۔جو پھوں پھاں یا جوڈائیلاگ بازی صبح شام یہاں کی فیوڈل یونیورسٹیوں سے فارغ شدہ سیاست دان اور دانشورٹی وی اور فیس بک پر ہوتی ہے، سب سطحی ہے۔ کوئی نیل اور کاشغر کی پاسبانی  دوہراتے دوہراتے ہمارے لُوٹے جانے کا بندوبست کررہا ہوتا ہے، اور کوئی قومی افتخار جپتے جپتے عوام کی جیب کٹوا آتا ہے۔کپٹلزم میں لٹنے سے استثنا کی سہولت کسی عامی کوحاصل نہیں ہے۔ کپٹلزم کے ہزاروں ہاتھ ہیں، سینکڑوں پیرہیں، درجنوں آنکھیں اور بیسیوں کان ہیں۔ سرپلس ویلیو کی آماجگاہ کپٹلزم،جس کا کوئی وطن، کوئی زبان،رنگ، نسل اور مذہب نہیں ہوتا۔ وہ خود ہی یونیورس ہوتا ہے۔

کپٹلزم سپر سونک رفتار سے رواں رہتا ہے۔ یہ بہت حقارت سے نام نہاد سرحدیں توڑتا جاتا ہے، ریاستوں کی قوم پرستی کو گردن مروڑ کر اپنے لیے بڑی مارکیٹ تشکیل کردیتا ہے۔ایک وقت تھا کہ بلوچستان میں اونٹوں کے کاروان سے ہر قبیلہ اپنے اندر سے گزرنے کا ٹیکس لیتا تھا۔ تصور کیجیے کہ سومیانی بندرگاہ سے لے کر ملتان تک جانے والے مال کاروان کس کس علاقے کے سردار کو ٹیکس دیتا ہوگا۔ مگر اب کپٹلزم ایسا کرنے نہیں دیتا۔مثلاًریلوے ہر رکاوٹ کو کچلتے ہوئے اس کے مال کی ٹرانسپورٹ یقینی بناتا ہے، کنٹینروں کے لیے بین الاقوامی شاہرا ہیں ہیں۔ دیوہیکل بحری جہاز اپنے کندھوں اور سر پہ انبار لادے ایک براعظم سے دوسرے تک جاتے ہیں۔ اسی طرح مارکیٹ اور منافع ایسا نشہ ہوتا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے کاروباری معاملات اور منافع کی راہ میں رکاوٹیں اور مسائل دور کرنے کے لیے کارپوریشنوں کے منیجروں کو ضروری اور لگاتار ہوائی سفر وں کے لیے تمام سہولتوں سے آراستہ ہوائی جہاز ہمہ دم حاضر باش ہیں۔ سرپلس ویلیو  وہ ڈریگن ہے جو جب چاہے مچھلی بن کے سمندر میں کلانچیں مارے، جب چاہے زمین پہ فراٹے بھرے اور جب چاہے آسمان پہ دیوہیکل ٹرانسپورٹ جہازبن جائے۔

کپٹلسٹ امیر سے امیر تر بننے کے لیے،اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لیے،اور مارکیٹوں کی تقسیم میں بڑا حصہ لینے کے لیے،آپس میں جنگیں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔یہ اس کی پیشہ ورانہ ضرورت ہے۔ گوکہ جنگیں تو فیوڈل سماج میں بھی ہوتی تھیں مگر چونکہ وہ بہت قریب کی زمینوں پہ قبضے کے لیے ہوتی تھیں اس لیے اتنی خطرناک نہیں ہوتی تھیں۔ کپٹلزم تو عالمی جنگیں چھیڑتا ہے،ایف 16، اور ڈرون سے ہلاکت خیز بمباریاں کرتا ہے، ایٹم بم مارتا ہے ۔ یوں وہ دنیا کو اپنی مطابقت میں ڈھالتا  جاتا ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ آج ساری دنیا کپٹلزم کی مہیب ترین مشین یعنی،آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی ہلاکت خیز پالیسیوں سے بندھی ہوئی ہے۔جنہیں بہ وقتِ ضرورت ڈیزی کٹر بموں سے لاگو رکھا جاتا ہے۔ اور ناگا ساکی بنائے جاتے ہیں۔

 

کپٹلزم کی بڑی دریافت

 

دنیا بھر میں اپنی پراڈکٹ بیچنے کے لیے کپٹلزم کے بے شمار ہتھکنڈوں میں سے ایک کمال چیز”اشتہار“ہے۔ یہ اشتہار پچھلے زمانوں میں اخباروں رسالوں میں چھپتے تھے۔ پھر جب ریڈیو آیا تو اُسے استعمال کیا گیا، اب توٹی وی اور کمپیوٹر کے بے شمار ماہر اور کثیر الجہت ہاتھ (انٹرنیٹ، فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ وغیرہ) اس اشتہار بازی کے لیے وقف ہوچکے ہیں۔

اشتہار کا کیامطلب ہے؟۔ اشتہار کا مطلب ہے:”نقلی ضرورتیں پیدا کرنا“۔ آپ کے اندر بغیر بھوک کے کسی چیز کی بھوک پیدا کرنا۔بغیر ضرورت کے ضرورت پیدا کرنا۔یہ ایک غیر انسانی اورغیر فطری بھوک ہوتی ہے، اس لیے کہ یہ بھوک پیدا نہیں ہوتی، پیدا کی جاتی ہے۔ ٹائیڈی سی، پلاسٹکی سی،سوفسٹی کیٹڈ سی بھوک۔           آپ مارکیٹ کے ”دانگ زدہ“ بگ کے اونٹ بن جاتے ہیں۔ یعنی،نشانہ بنا کر آپ کو غیر ضروری اشیاکا ضرورت مند بنایا جاتا ہے۔آپ کا پیسہ بغیر کسی ضرورت کے آپ کی جیب سے پھسلتا جاتا ہے اور مارکیٹ کے مالک کے بینک میں گرتا جاتا ہے۔آپ اس کے اتنے عادی بن جاتے ہیں کہ بعد میں زیاں کا احساس ہی نہیں رہتا۔ اور آپ خود کو اکیلے میں بھی نہیں کوستے۔

پانی موجود مگر آپ کو منرل واٹر پر لگایا جاتا ہے، آپ تمباکونوشی نہیں کرتے مگر اشتہار آپ کو سگریٹوں پر لگا دیتے ہیں۔شمپو، سے لے کر کارموٹر تک اشتہار آگے آگے، انسان پیچھے پیچھے، جب تک کہ جیب کا آخری آنہ ٹکہ تک نکلا نہ ہو۔اور اب تو ٹکہ کو بھی نہیں دیکھا جاتا۔آدمی مارو اشیا خریدو، گردے بیچو،اشیا خریدو۔ لاش، وطن بیچو،اشیا خریدو۔۔

”زمانہ جیٹ کی رفتار سے ترقی کر رہا ہے۔ ہر لمحہ چیزوں کی شکلیں بدل رہی ہیں۔ گذشتہ سال کی مر سیڈیز نئے ماڈل کے سامنے جیسے چھکڑا، پرانی استری نئی کے سامنے بالکل کھٹارا۔۔۔آج خریدو، کل پرانی۔آپ اشتہار کے زور پہ نیا موبائل فون خریدیں گے مگر اشتہارہی تین ماہ کے اندر اندر آپ کے اس موبائل کوبے کار اور آؤٹ ڈیٹڈ ثابت کر دے گا، اور آپ سے اس کاجدید ماڈل خریدوائے گا۔نیا نیا،جدید جدید،لذیذلذیذ۔  بس خریدتے جاؤ، کُڑھتے جاؤ، ترستے جاؤ۔ پھر خریدو، پھر پچھتاؤ۔ سب کچھ پاکر بھی وہی محرومی، نامرادی اور احساسِ کمتری“۔ (عصمت چغتائی۔ خریدلو)

اشتہار کافر نہیں کفار چیز ہے۔ یہ بہت نازسے،تسلسل کے ساتھ، آپ سے چیزیں خریدواتا رہتا ہے۔ہم عصمت چغتائی کو نقل کریں گے جس نے ”خرید لو“ میں ہمیں سب کچھ ایسے انداز میں سمجھایا کہ میرا قلم واپس جیب میں۔ ”جب کبھی نیا فیشن آتا ہے، تو فوجی ناکہ بندی سی شروع ہوجاتی ہے۔چپکے چپکے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تیار کر کے ہر سٹور کی ہر شاخ میں مال پہنچا دیا جاتا ہے۔ ہر شوکیس سجادیا جاتا ہے اور پھر حملہ شروع ہوتا ہے۔ خرید لو۔ جلدی۔ فوراً۔ نہیں تو مٹ جاؤگے، تباہ ہوجاؤ گے۔ ساری عمر سردھنو گے۔ وقت جا رہا ہے۔ سٹاک ختم ہوجائے گا، ابھی، اسی دم نہ خریدا تو قیامت آجائے گی، عاشق منہ پھیر لیں گے، شوہر طلاق دے دیں گے، باس نوکری سے نکال دیں گے، ساری عمر کنواری یا طلاقن بن کر سسکو گی۔ نقد خرید۔۔۔ چلو قسط پر، ادھار ہی خریدلو، ورنہ یہ معمہ حل کرو تو مفت ہی لے جاؤ۔۔۔نقد خریدو، تو ساتھ میں  بسکٹ کا ڈبہ مفت۔۔۔ مفت۔۔۔  ایک دم خریدو تو صابن کی ٹکیاں بالکل مفت۔

”روٹھے ساجن کو منانا چاہو تو فلاں جھاڑو فوراً خریدو، باس کو غلام بنانا چاہو تو اسی دم نیا چولھا خریدو۔میاں طلاق دے رہا ہے۔دوسری عورت پر ریجھ رہا ہے، کیونکہ وہ ہمارا بغل گند لوشن اور منہ کی سڑانددور کرنے والا پیسٹ استعمال کر تی ہے۔ گھر نہ بگاڑو، تم بھی خرید لو۔۔۔“۔

”اچھی نوکری چاہیے تو جسم کو نکیلا اور ننگا دکھانے والی برا خریدو!۔

”اس کمبل میں خواب زیادہ سہانے ہوں گے“۔

”یہ میدہ کیک بنانے میں استعمال کرو، وہ تمہیں گود میں اٹھا لے گا“(تصویر۔۔۔ایک ہیرو کی گود میں ٹانگیں چلاتی حسینہ)

”پڑوسن کا میاں بہت بوسے لیتا ہے، کیونکہ وہ ہماری نئی استری استعمال کرتی ہے، تم کیوں ترسو؟“۔

کارپوریٹ سیکٹر کے اشتہارات بہت ہی مقبول باتوں کو پیش نظر بنا کر تیار کی جاتی ہیں۔ اور یہ الگ سے اشتہاری کمپنیاں کرتی ہیں۔ عمل کرنے والے مسلمانوں کا علاقہ ہے تو ملٹی نیشنل فارماسیوئیکل کمپنیاں سائنسی قوانین کو پس پشت ڈال کر اپنے منافع کی خاطر پراڈکٹ ادویات کے ڈوز تک بدل دیتے ہیں۔ اگر کوئی ٹیبلٹ صبح دوپہر شام والی ہے تو رمضان میں اشتہارآجاتا ہے: ایک گولی سحر اور ایک افطار۔

اسی طرح انقلاب کے نام سے تھر تھر کانپنے والی ٹویوٹا کمپنی کی ایک طاقتور پک اپ ہے، اس کا نام ہی  revolutionہے۔ چے گویرا کی تصوریر ٹی شرٹوں، مگوں اور دیگر بڑے پیمانے پہ تیار کی جانے والی یاد گاری اشیا پر لگادی جاتی ہیں اور دنیا بھر میں بیچی جاتی ہیں۔

کچھ ادیبوں کے ساتھ بہت گھنی داڑھی اور قمیص شلوار اور چترالی ٹوپی پہنے ایک صحت مند پروفیسر بھی چین گیا۔وہاں چینی لوگ اس کی بے شمار تصویریں بنانے لگے۔ اکیلے میں، گروپ میں، پوزبنوا بنوا کر۔ مولوی صفت پروفیسر صاحب بھی خوشی خوشی تصویریں کچھواتے رہے۔ وہیں ہمارے مترجم نے بتایا کہ ممکن ہے اس کی تصویر کوئی اپنی کمپنی کی شراب کی بوتلوں پہ لگائے۔ وفد کے کسی ممبر نے لقمہ دیا کہ اگر یہ مردانہ کمزوری دور کرنے کے تیل کی شیشی پہ لگائی گئی تو؟

 

کپٹلسٹ اتنا سرمایہ کیوں چاہتا ہے؟

 

منافع ایسی پیاس ہے کہ کسی طور بجھتی ہی نہیں۔ اِس پیاسے ایک فیصد آبادی کے ہونٹ مکران کی ریت کی طرح سوکھے ہی رہتے ہیں۔ پیٹ پانی (منافع) سے پھولا ہوا مگر لب خشک۔یہ لب کبھی تر ہوتے ہی نہیں۔اس پیاس کو بلوچی میں ”آف ڈھاگ“ کہتے ہیں۔ کپٹلسٹ  کو سرپلس ویلیو کے ”آف ڈھاگ“ کی بیماری لگی ہوتی ہے۔

یہ پیاس کیوں؟ یہ حرص کیوں؟۔ اور وہ اس قدر زیادہ سرپلس ویلیو سے حاصل کیے ہوئے سارے سرمایہ کو استعمال کہاں کرتا ہے۔ اس بے پناہ سرمایہ کا انت آخر کیا ہے؟۔

یہ سرمایہ تین مدّوں میں مکمل طور پر خرچ ہوجاتا ہے۔ اتنا کہ اُس کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ لہذا وہ پھر پیاسا ہوجاتا ہے۔اور پھر پاگل پن میں مزید سرمایہ نچوڑنے میں لگ جاتا ہے۔

وہ مد یہ ہیں:

۔1۔ گننے کا شوق، گنتے رہنے کا جنون۔ بینک بیلنس۔ امیر ترین شخص کہلائے جانے کا شوق۔”سب سے بڑا خیرات کرنے والا“ بننے کا شوق۔ بلوچی کی ایک فوک کہانی کہتی ہے کہ ایک بھکاری سارا دن بھیک مانگتا تھا۔ شام کو اپنی جھونپڑی میں پہنچ کر کھڈا کھودتا۔ وہاں پڑے ہوئے پچھلے سارے سکے اور نوٹ گنتا، پھر آج کی ریز گاڑی گن کر اُس میں شامل کرتا، دوبارہ کھڈے میں دفن کرتا اور سکون سے سو جاتا۔ بستی کے شرارتی بچوں کو اس کی اس عادت کی خبر ہوگئی اور انہوں نے ایک شام اس کی آمد سے ذرا پہلے کھڈے سے پیسے نکال کر جھونپڑی میں دوسرے کونے میں رکھ دیے۔ شام کو جب پیسہ گننے کا شوقین بھکاری آیا تو سیدھا کھڈے کی طرف گیا۔ اسے خالی دیکھا تو وہیں مرگیا۔

۔2۔ وہ اس انبار سرمائے کا ایک حصہ اپنی ضروریات (عیاشی) پہ صرف کرتا ہے۔ عیاشی جو کبھی ختم نہیں ہوتی، کبھی کم نہیں ہوتی۔۔ لامحدود اور لامختتم۔ وہ اپنی طرح پورے معاشرے کو  consumptionسے مسرت کے حصول کے نامعقول کنفیوژن میں ڈال دیتا ہے۔ ایک طرح کی حرص، ہوسناکی اور بھیڑیا گیری ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

گورکی نے بہت بڑے پیسے والے آدمی کا انٹرویو لیا کہ اس کی کونسی خواہش ہے جو ابھی پوری نہیں ہوئی۔ اُس نے اپنے وسیع لان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور ترین دو ملکوں کے سربراہوں کی اپنی اس لان میں کُشتی کروانا چاہتا ہوں۔

۔3۔ بقیہ سرمایہ پھر وہ پیداواری عمل میں ڈال دیتا ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*