چے گویرا کا پاکستانی دانشوروں کے نام کھلا خط 

میں ارنستو چے گویرا اپنی موت اور انقلاب کے مہینے یہ خط لکھنے پہ اس لیے مجبور ہوا کہ میری ذات آپ کی ڈرائنگ ٹاک اور بے مقصد کے کالموں کا مرکز بنی ہوئی ہے حقیقت یہ ہے کہ میری ذات ہر اس تحریک اور گفتگو کا مرکز رہی جہاں انسان کے حقوق اور اس کی آزادی اور برابری کی بات ہوئی اور مجھے اس پہ فخر ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میری زندگی انسان دشمنوں اور انسان دشمن نظام کے لیے خطرے کی علامت رہی اور میرا خوف اور ہیبت ان پر اس طرح طاری تھی کہ مجھے صرف مار کر ان انسانی حقوق کہ ڈرامہ بازوں کو سکون نہیں آیا بلکہ میری لاش کی بے حرمتی کر کے اسے چھپانے کی کوشش کی گئ ۔لیکن بالاآخر 30 سال بعد میرے جسم کو ڈھونڈ لیا گیا اور مجھے واپس کیوبا لایا گیا اور میرے ساتھ مار دیے جانے والے پانچ اور میرے ساتھیوں کے جسم بھی آج اس عمارت کے اندر ہیں جس کو انقلاب اور قربانی کا مکہ سمجھا جاتا ہے ، روح تو میری پہلے ہی پوری دنیا میں جہاں جہاں انقلاب کے دیوانے موجود ہیں بغیر کسی امتیاز کے ، ان کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر کھڑی ہوتی رہی ہے اور رہے گی ۔ انقلابیوں کی موت کو باشعور اور انسان دوست نوجوانوں کے لیے عبرت کے نشان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن قبرستان ان لوگوں سے بھرے ہیں جو ظلم اور زیادتی کو اپنے سامنے ہوتا دیکھ کر خاموش رہے لیکن ہم جیسے سر پھروں کی قبروں پر آج بھی ہر آزادی ، برابری اور مساوات کے متوالے آکر دھمال ڈالتے ہیں اور وقت کے دھارے پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑتے ہیں ۔میرے لیے یہ بات کوئی نہیں کہ مجھے الزامات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا وہ شخص جس نے اپنی زندگی گولیوں کی بوچھاڑ میں گزاری ہو اور موت گولیوں کی بوچھاڑ میں قبول کی ہو اس کے لیے یہ الزامات معمولی سی چیزیں ہیں جن کو ہر بار تاریخ جھوٹ کا پلندہ ثابت کرتی رہی ہے اور ان کو لگانے والوں کے نام کسی کو یاد نہیں ۔ہر انسانی مساوات اور برابری کی تحریک کا چہرہ چے گویرا رہا ہے اس لیے کہ انقلاب جنون ، عملیت اور کمٹمنٹ کا نام ہے اس کے لیے آپ کو انسانوں سے پیار ہونا چاہیے ، ان کا دکھ تکلیف محسوس کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہ ہمارے جیسے انسان ہیں جن سے ان کا جینے کا حق چھین لیا گیا ہے اور دماغ ہونا چاہیے جو ان برائیوں کے ذمہ داروں کا تعین اور اس کا حل نکال سکے ۔لاطینی امریکہ کو جس استحصال کا سامنا رہا اس نے مجھے اس بات پر مکمل یقین ہو گیا کہ ایسا نظام جس میں سارے انسانوں کی بہبود کو یقینی بنایا جاۓ اس کے بغیر انسانی ترقی کا عمل ایسا سفاک دھارا ہے جس میں مٹھی بھر لوگ امیر سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہےں اور اکثریت کو غربت کی چکی میں پیس دیا جاتاہے ۔اس کے لئے میرے لیے ساری دنیا میرا وطن اور سارے انسان میرے دل سے جڑے ہیں ۔میرے بارے میں یہ لکھنا میں کہاں پیدا ہوا میرے باپ دادا کیا تھے فضول ہے ہاں میرے نظریات میرا کام ایک کھلی کتاب ہے میں نے نو عمری میں اپنے خطے کے لوگوں کی بھوک اور تکلیف کو محسوس کیا ، اپنی آنکھوں سے ان کو ان کی ہی وسائل سے محروم کیا جانا دیکھا اور اس تکلیف نے میری زندگی کا دھارا بدل دیا ۔پاکستان میں آج بھی وہ حالات موجود ہیں جن کی تکلیف نے مجھے میرے آرام دہ گھر میں بے آرام کیا لیکن وہ سارے اس ملک کے برائلر دانشور ، جو کبھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پورے ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہوۓغریب کسان مزدور جو نظر انداز کر کے اپنے خزانے بھرتے ہیں ان گدِھوں کو مجھ سے ملایا جاتاہے اور کبھی اپنی کمزوریوں اور بزدلی کو چھپانے کے لیے مجھے ہٹلر سے ملا دیا جاتا ہے ، پاکستان میرے لیے کوئی اجنبی ملک نہیں میں دو دفعہ پاکستان آیا ہوں اور کاسترو اور میں نے کافی دیر اس بات پر قہقہ لگایا کہ پاکستانی ڈرائنگ روم دانشوروں کو میرے ایوب خان کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر کھنچوانے پر اعتراض ہے میں کیوبا کے سرکاری وفد کا سربراہ تھا اور ہم تیسری دنیا کے ممالک کے دورے کر کر اپنے ہم آواز اور اپنے ہم خیال ممالک کی جانچ کر رہے تھے لیکن ترقی معکوس کا جو سفر اس خطے نے طے کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور اس میں سب سے بڑا کردار اس خطے کے ان نام نہاد دانشوروں نے کیا جنہوں نے اپنا قلم عوام دشمن حکمرانوں کے مفادات کی حفاظت کے لیے استعمال کیا ، عوام کو گمراہ کیا اور کبھی بھی غریب مزدور ، کسان ، استاد کی بات نہیں کی ، حالت یہ ہے کہ جو کشکول اٹھا کر جن کے نام پر ، جن کی تصویریں دیکھا کر گلے پھاڑ پھاڑ کر دنیا سے سیلاب زدگان کے نام پر امداد مانگی وہ آج بھی جھونپڑیوں میں رل رہے ہیں اور آپ کے برائلر دانشور محلات میں قیام پذیر فاشسٹ لیڈروں کو انقلابی ثابت کرنے پر تلے ہیں اس سب میں پاکستان کا غریب کہاں ہے کسی کو علم نہیں اور نہ ہی کوئ اس کا پروان حال ہے ، آپ کے سرکاری اسکول سرکاری ہسپتال جس میں غریب جاتے ہیں بدحال ہیں ،صحت ، تعلیم کی سہولیات کے فقدان کے ساتھ غریب سے باوقار طریقے سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے اور اس کو جانور کے درجے پر لے جایا گیا ہے جہاں اس کو bare minimum پر زندہ تو رکھا جاتاہے لیکن ایک کونے کی صورت میں جہاں دماغ کی موت واقع ہو چکی ہے صرف آپ کے امرا ُکی ضروریات پوری کرنے کے لیے لاغر جسم ہے اور آپ کے علامہ دانشور اور تجزیہ کار بھاری تنخواہ لے کر دن رات عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر امراء کی اقتدار کی لڑائی کی طرف مبذول رکھتے ہیں اور ان کو باور کراتے ہیں کہ یہ امیروں کا ٹولہ جس میں صرف چہروں کا فرق ہے عوام کے مسائل کے نجات دہندہ ہیں اور اس کے ذریعے اپنا مال کھرا کر رہے ہیں اور یہ سب جادوگری عوام کو جاہل رکھ کر ان کی ذہنی تربیت نہ کر کے حاصل ہوئی ہے ۔مجھے ہمیشہ سے علم اور قلم کی طاقت کا احساس رہا ہے جب ایک گوریلا جنگجو کمانڈر کے طور پر فیڈل کاسترو نے مجھے ایک گروپ کا انچارج بنایا تو میں نے ان لڑکوں کی تعلیم و تربیت پر گوریلا جنگ کی تربیت کے ساتھ زور دیا اور خود ان کو پڑھایا کتابیں پڑھ کر سنائیں اور کیوبا میں انقلاب کے بعد میری زیر نگرانی انتہائی کامیاب خواندگی کی مہم چلائ گئی کیونکہ علم ہی شعور کا راستہ ہے اور زرعی زمین کی اصلاحات متعارف کرائیں گئیں ۔میں صرف انقلاب کو اپنے قلم سے یا بندوق سے پھیلانے کا قائل نہیں میں نے اپنے عمل اور کردار سے سوشلزم اور مارکسزم کو جیا اور پھلایا ہے ۔میں ایک نئی باشعور سوشلسٹ انسان کے جنم کا متلاشی رہا ہوں جو اجتماعی ترقی کو انفرادی ترقی پر مقدم رکھے اور اس کے لیے سارے ضابطے میں نے اپنے پہ لاگو کیے ، اپنے کام کے علاوہ اپنی کمیونٹی کی بھلائی کے لیے کچھ گھنٹے یا دن بغیر پیسے لیے وقف کرنا جس کو volunteering کہا جاتا ہے اور سارے مغربی ممالک میں بے حد مقبول ہے میرا کیوبا میں متعارف کرایا گیا نظریہ ہے جس کے تحت آج بھی سرمایہ درانہ ملکوں تک میں بھی ان لوگوں کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو انتہائی مصروفیت کے باوجود اپنے اردگرد رہنے والے ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور خاص کر ہائی سکول کے بچوں کے لیے لازمی ہے یہ اسی بقول آپ کے اعلی دماغ دانشوروں کے آدم خور گویرا اور کیوبا کا شروع کردہ نظام ہے آپ لوگوں کے لیے یہ ذرا مشکل ہے ہضم کرنا لیکن وہ پہلا شخص جس نے والنٹیر کیا وہ میں خود رھا ،اور نہ میں نے یا میرے بیوی بچوں نے میرے وزیر ہونے کا کوئی فائدہ اٹھایا اور میری بیوی نے سارے تحفے جو اس کو ملے کیوبا کے سرکاری خزانے میں جمع کراۓ اور وہی بس استعمال کی جو عام کیوبن نے استعمال کی ۔والنٹیر اور اپنے خاندان کے لیے لوٹ مار نہ کرنا برائلر دانشوروں کے لیے مشکل ہے لیکن اپنے ہی ملک میں ہونے والی ناانصافیوں پر آنکھیں بند کر لینا شاید آپ کی فطرت کا حصہ ہے میرے لیے تو افریقہ کے لوگ بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے لاطینی آمریکہ کے ، آج بھی امریکہ میں اپنے حقوق کے لیے Black Lives Matter movement چلائی جا رہی ہے اس لیے 11دسمبر 1964 میں اقوام متحدہ میں سب سے پہلے اس نسلی امتیاز کے خلاف آواز چے گویرا کی گونجی تھی

 

“وہ ریاست جو اپنے ہی بچوں کے ساتھ ان کے رنگ کی بنا پر تعصب برتتی ہے اور موت کی وادی میں دھکیل دیتی ہے ، جہاں صرف کالے رنگ کی بنا پر مقتول کو انصاف نہیں ملتا اور اس کے قاتل کھلے گھومتے ہیں ،اور افریقی نزاد امریکیوں کو اپنے جائز حقوق کے مطالبے پر سزا دی جاتی ہے وہ ملک اور ریاست کیسے اپنے آپ کو انسانی حقوق اور آزادی کا محافظ قرار دے سکتی ہے ؟ “

میرے اوپر نسلی تعصب کا الزام لگانے والوں کو اس تقریر کو پڑھنا چاہیے اگر پڑھ سکیں کیونکہ صرف الفاظ کا پڑھنا کافی نہیں ان کے معنی سمجھنے کے لیے شعور کا ہونا بھی ضروری ہے ۔

جہاں تک میری جسمانی موت کا تعلق ہے یہ جملہ کہ میں چے گویرا ہوں اور میں زندہ زیادہ فائدہ مند ہوں اس میں سبق ہے ان سب لوگوں کے لیے جو موت تو کیا زندگی سے آنکھیں نہیں ملا پاتے ، جو لوگ بھی گوریلا جنگ سے زرا سی بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس جنگ میں دشمن کے مقابلے میں گوریلا جنگجو تھوڑے لیکن اپنی تکنیک میں بھاری ہوتے ہیں اور ہر سپاہی کی جان قیمتی ہوتی ہے اور وہ آخری لمحے تک دشمن کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔میرے سے میرا نام پوچھا گیا میں نے بتا دیا اور خود اپنے پیروں پر چل کر اپنی قتل گاہ تک گیا ، اگر اپنی جان بچانا مقصود ہوتا تو جب فوجی کمانڈر اور سی آئی اے کے ایجنٹ اندر آ کر بار بار باقی لوگوں کے بار میں معلومات لینا چاہتے تھے تو ان کو یہ جواب کہ میں ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکتا کی بجاۓ ان کو معلومات دے کر زندگی کا سودا کر سکتا تھا یہاں تک کے جب مجھے مجبور کیا گیا کہ میں فیڈل کے خلاف بیان جاری کروں تو اس سے بھی انکار کر دیا وہ سکول ٹیچر جس کی کلاس میں میں قید تھا اور جس نے آخری بار مجھے سوپ کا پیالہ دیا وہ اس کی گواہ ہے کہ اس گفتگو میں بھی میں نے اس کو مساوات اور برابری کا نظام اور سرمایہ داری نظام کی غلاظت سے سادہ الفاظ میں آگاہ کیا میں اپنی آخری سانس تک اس نظریے پر قائم رہا جس کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ گزارا ۔

میری سچائی کی گواہی میرے دشمنوں نے دی ، وقت نے دی کہ اپنے جسم جس سے دشمن اتنا خوفزدہ تھا کہ ہاتھ کاٹ کر جسم کو ایک نامعلوم مقام پر چھپا دیا گیا اور جب میری لاش کی تلاش کی گئی تو اس کو ڈھونڈنے میں ان لاتعداد گمشدہ لوگوں کی اجتماعی قبروں کی دریافت ہوئی جن کو بولو ین سامراج نے اختلاف راۓ پر مار دیا یہ وہ غریب مزدور کسان استاد درکھان تھے جن کا جرم صرف ان کے مظالم سے اختلاف کرنا تھا ، اپنے حق کے لیے بولنا اور کبھی تو صرف ناپسندیدگی کی بنیاد پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔سب کے لیے مساوی حقوق اور ایک ماڈرن سوشلسٹ آدمی کا خواب جو میں نے دیکھا اس کی شمع آج بھی روشن اور تیز تر ہے میرے چاہنے والے پوری دنیا میں آج بھی اپنے مورچے سنبھالے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو آج پوری دنیا میں دوبارہ نوجوان سوشلزم کمیونزم نہ پڑھ رہے ہوتے ۔سچ کی دلیل یہ ہے کہ وہ ہر زمانے میں سچ اور حق ہے زمان و مکاں کی قید سے آزاد ،اسکے ماننے والے زندگی اور موت کی قید سے آزاد ہوتے ہیں ، موت ان کے جسم کو ڈھا سکتی ہے ان کے نظریے کو نہیں ، سچ اور حق پر مبنی نظریہ اپنے مفادات کی جیل میں زندگی گزارتے لوگوں کی راۓ کا محتاج نہیں ۔

میری خواہش ہے کہ پاکستان کے لوگ غربت ، ناخواندگی ، بیماری سے نجات حاصل کر کے انسانیت کے اعلی مقصد کی طرف رواں دواں ہو اور انفرادیت کی جگہ اجتماعی بھلائی اور ترقی کی راہ اپنائیں اور آپ کا دانشور اپنا قلم امیر کے مفاد کے تحفظ کی بجاۓ سچائ کے لیے اور امیر غریب کی خلیج کے خاتمے کے لیے استعمال کرے ۔

آپ کا خیرخواہ

چے گویرا

(Reference: Che a revolutionary life by Jon Lee Anderson , American author , biographer and staff reporter for the New Yorker )

 

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*