بلوچستان کی ادبی تحریک

ایک صدی کا قصہ ……!۔

کتاب کا نام: بلوچستان کی ادبی تحریک

مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری

صفحا ت: 335

قیمت: 400 روپے

مبصر: عابدہ رحمان

جی ہاں یہ دوچار برس کی بات ہر گز نہیں بلکہ سو سال کی کہانی ہے۔ ان سو سالوں میں موتیوں کی مالا بُنتے بُنتے کئی موتی بکھرتے چلے گئے …… بچھڑتے چلے گئے! لیکن حیرت کی بات ان بچھڑے موتیوں کی حسین یادوں کو ساتھ رکھتے ہوئے جب موتیوں کی اس مالا پر نظر دوڑاتے ہیں تو اس میں کوئی موتی کم نہیں ہوتا …… بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ ’ان جڑوں کو ہمہ وقت یاد کیا جانا چاہیے جو نظر نہیں آتیں مگر درخت کی ساری رعنائی، سرسبزی، بڑا پن اور سایہ داری انھی کے دم قدم سے ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ آدم زاد کو سکھی کرنے کے لیے محنت کرنے والوں کا قافلہ بہت طویل اور محترم ہے‘۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ’بلوچستان کی ادبی تحریک‘ کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ دور جو 1920 ء سے شروع ہوتا ہے اور 1967ء تک چلتا ہے جبکہ دوسرا دور 1967ء سے شروع ہو کر 2017ء تک کا ہے۔ اس تمام سفر کو دیکھا جائے تو یہ لگ بھگ سو سال بنتے ہیں۔

ادبی تحریک کا پہلا دور:

یہ طویل جدوجہد جو ایک تنظیم ’ینگ بلوچ‘ کے نام سے بظاہر ایک کم پڑھے لکھے نوجوان عبدالعزیز کرد نے1920ء میں شروع کی، جو مدرسے کے پڑھے ہوئے تھے، اسے نظامانی نے 1996ء تک جاری رکھا۔ اس زنجیرکی پہلی کڑی تو ینگ بلوچ ہے لیکن پھر اس کے بعد قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی، کسان مزدور تحریک، کمیونسٹ پارٹی، ورور پشتون، نیشنل پارٹی، انجمن اتحادِ بلوچاں، استمان گل، سندھ بلوچ پشتون فرنٹ کے نام سے ایک طویل زنجیر بنی۔1920ء سے لے کر 1997ء کل چار مرتبہ پراگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن منظم ہوئی۔ بلوچستان میں پروگریسو راٹرز ایسوسی ایشن کی شاخ 1949 ء میں قائم ہوئی۔ اس ایسوسی ایشن کا دوسرا دور لٹ خانہ کادور تھا۔

مارچ 1950ء کا خوش قسمت سال، لٹ خانے کا جنم دن، روشن خیالی اور روشن فکری کا پہلا پڑاؤ!۔

ان لٹوں نے فی الحال سٹیشنری مارٹ کی صورت میں دراصل عقل و شعور بانٹنا شروع کر دیا کہ کس طرح اپنے لوگوں کی خدمت کی جائے، انھیں ترقی کی راہ سمجھائیں اور ترقی کی اس جہدِ مسلسل میں انھیں اپنا ہم سفر بنایا جائے۔دورِ لٹ خانہ میں پشتو اور بلوچی ادب میں بڑا بنیادی کام ہوا۔ گل خان نصیر کابلوچی کلام،گل بانگ، کے نام سے چھپا۔ بابا عبداللہ جان نے بلوچ قدیم کلاسیکی شاعری کومختلف شخصیات کی زبانی یکجا کیا تو دوسری طرف آزات جمالدینی کی بلوچی شاعری ، مستیں توار، کے نام سے شائع ہوئی۔

پشتو میں، زر اؤ اقتصاد، اور، خپل واکی، اسی زمانے میں شائع ہوئیں۔

بلوچی ادب ئے دیوان، بلوچی لبزانکی دیوان اور پشتو ادبی تنظیم، پشتو ٹولنہ، کی تنظیم کاری کر کے پشتو اور بلوچی ادیبوں کو منظم اور ادب و شاعری کو فروغ دیا گیا۔مختلف بین الاقوامی کتابوں کے تراجم ہوئے۔

۔1986ء میں تیسری بار پروگریسیو ایسوسی ایشن کا سلسلہ ترتیب پایا لیکن چند میٹنگز کے بعد تنظیم غیر فعال ہوگئی۔ ایک ادبی تنظیم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے 13اگست 1989 میں لوز چیزغ (مینارِ لفظ) کی داغ بیل ڈالی گئی۔ادبی تنقیدی نشستیں چلتی رہیں۔ میٹنگز ہوتی رہیں لیکن یہ تنظیم بھی بس1993ء تک ہی چل سکی۔لیکن پھر لوز چیدغ نے مارچ 1993ء میں اپنے پرانے نام یعنی پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے نام سے کام شروع کر دیا۔اپنا گذشتہ نام پاتے ہی اس تنظیم نے جالب کی یاد میں بڑا سیمینار صوبائی صدر ڈاکٹر خدائیداد کی صدارت میں منعقد کیا جس میں مختلف مقالے پڑھے گئے۔

ادبی تحریک کا دوسرا دور:

۔1997ء میں فلسفہ، سیاست و ادب پر بحثوں اور تبصروں کا آغاز ’پریم مندر‘ سے شروع ہوا جس نے بعد میں جمعہ پارٹی کانام پایا لیکن جب سرکاری چھٹی اتوار کو ہونے لگی تو جمعہ پارٹی بھی سنڈے پارٹی کا نام اختیار کر گئی اور اب تک اسی نام سے ہوتی ہے۔

۔1997ء سے لے کر اب تک تحریک کی جدوجہد کو اگر ہم نمبر کے حساب سے گنوائیں کہ اتنی ادبی نشستیں ہوئیں، اتنے سنڈے پارٹیز ہوئیں تو یہ محض ایک گنتی ہی رہ جائے گی کہ پچاس نشستیں ہوئیں یا سو نشستیں ہوئیں جو بہرحال اپنی جگہ ایک اہم بات ہے لیکن آسانی کے لیے اسے ٹکڑوں میں تقسیم کروں گی جس سے جدوجہد کو سہی معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے۔

لوز چیدغ سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز! 1997 ء میں ماہنامہ سنگت کی اشاعت کی دراصل سنگت اکیڈمی کی بنیاد تھی۔ سنگت اکیڈمی کی پہلی کابینہ 2006 ء میں بنی جس کے پہلے صدر ڈاکٹر شاہ محمد مری تھے۔ ان کے بعد سرور آغا، وحید زہیر، ڈاکٹر منیر رئیسانی، جیئند خان جمالدینی اور عابد میر اکیڈمی کے سربراہ رہے۔ جبکہ موجودہ کابینہ ساتویں کابینہ ہے جو ڈاکٹر ساجد بزدار کی سربراہی میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام رہی ہے۔ نومبر 2019 ء میں دو سال پورے ہونے پر نئی کابینہ کا اعلان ہوگا۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’زندگی تو موت کا تریاق ہوتی ہے۔ حیات کو ثبات ہے۔زندگی کبھی نہیں مرتی۔اور اکٹھ اور اجتماع زندگی کا خاصا ہیں۔زندگی سے اس کے اس خاصے کو الگ نہیں کیا جا سکتا‘۔ لہٰذا سنگت اکیڈمی آف سائنسز ہمیشہ مختلف تقریبات کا اہتمام کرتی رہی جس سے علم کے پیاسے اپنی پیاس بجھاتے رہے۔ اس کے علاہ پوہ زانت اور سنڈے پارٹی بھی باقاعدہ نشستیں ہیں جو ماہانہ طور پر منعقد ہوتی رہتی ہیں اور صوبائی اور ملکی ادیب و دانشور اس میں شرکت کرتے ہیں۔

تقریبات: سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے اپنے اس دوسرے دور میں بے شمار تقریابات منعقد کروائیں جن اہم ترین تو سنگت کی کانفرنس ہے جو ہر دو سال بعد کی جاتی ہے جس میں نئی کابینہ کا اعلان ہو تا ہے، حلف لیا جاتاہے۔ اس کے علاوہ سنگت کی دو سالہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ مختلف موضوعات پر مقالے پڑھے جاتے ہیں اور مشاعرہ ہوتا ہے جس میں بلوچستان کی مختلف زبانوں میں شعرا اپنا تازہ کلام سناتے ہیں۔ سنگت کانفرنس کے علاوہ بابا بزنجو، گل خان،ڈاکٹر خدائیداد، جالب، بابا عبداللہ جان کے کام اور جدوجہد کے سلسلے میں سنگت اکیڈمی نے ہمیشہ بڑی تقریبات کراوئیں جس میں ملک کے ادیب اور دانشور شرکت کرتے رہے۔ گوادر کانفرنس بھی ایک اہم چیز ہے جس میں ہر سال سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی شرکت ایک لازمی امر ہے۔سنگت کانفرنس کے علاوہ سرائیکی کانفرنس ملتان میں سنگت اکیڈمی کی نمائندگی رہی۔

موضوعات: ’پوہ زانت‘کے نام سے ادبی نشست کی ابتداء جون2007ء میں ہوئی اور اب تک ہر ماہ کے آخری اتوار کوباقاعدگی سے ہوتی ہے۔ جس میں افسانے اور شاعری تنقید کے لیے پڑھے جاتے ہیں۔ مختلف مضامین بھی سنائے جاتے ہیں۔موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اتنے عرصے میں سنگت اکیڈمی نے پوہ زانت میں بے شمار موضوعات پر بحث مباحثے کیے۔ جن میں بلوچ نیشنلزم کی بنیادیں اور ارتقا، بلوچ کا ادب اور خواتین، افسانہ اور اس کی تیکنیکیں، عطا شاد کی شخصیت اور فن، کلچر اور شناخت، جاپان میں ناول نگاری، یوسف عزیز مگسی کی یاد میں، منطق اور دلیل، سعید گوہر کی شخصیت اور فن،فیض اور سوشلزم، سنگت کی آئیڈیالوجی، سٹڈی شیئرنگ، چین کا نیا ابھرتا سامراجی کردار، تعلیم اور عورتوں کی تحریک جیسے موضوعات ہیں۔

شخصیات: ادبی نشست پوہ زانت میں بلوچستان کے مختلف شعراؤ ادباء و دانشور تو شرکت کرتے ہی رہے لیکن ملک کے مختلف شہروں سے بھی ادیب و دانشور بھی اس نشست میں شرکت کے لیے آتے رہے ہیں۔ڈاکٹر فاطمہ حسن، فہمیدہ ریاض، پشاور سے ڈاکٹر سہیل انشا،پروفیسر حنیف خلیل، سلیم راز، راحت سعید، امریکہ سے نفیسہ ہود بھائی، جاوید بھٹو، ڈاکٹر انوار احمد، اسلام آباد سے ضیابلوچ، طارق رحیم، احمد سلیم، لاہور سے امجد اسلام امجد اور اسلام آباد اور لاہور سے طلباپوہ زانت میں شریک ہوئے۔

ْقراردادیں: سنگت اکیڈمی کے تمام پروگراموں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس کے آخر میں قراردادیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تمام حاضرین سے ان کی منظوری لی جاتی ہے۔

نوکیں دور اور ماہتاک سنگت: نوکیں دور کا دوسرا دور ماہتاک سنگت کے نام سے 1997ء میں شروع ہوا۔ جس کے ادارتی بورڈ میں نوکیں دور کی ہی ٹیم شامل تھی۔ اس رسالے میں انگریزی کے علاوہ بلوچستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں بلوچی، براہوی، پشتو، سرائیکی میں مضامین چھاپے جاتے ہیں۔ اس میں بلوچستان کے ادیبوں شاعروں کے علاوہ ملک کے دوسرے شہروں سے بھی تحریریں بھیجی جاتی ہیں۔

سنگت اکیڈمی کی شاخیں: ملک کے مختلف علاقوں میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی شاخیں قائم ہوئیں جو کہ اکیڈمی کی ایک اور کامیابی ہے۔ یہ شاخیں کوئٹہ کے علاوہ اسلام آباد، اوستہ محمد، ڈیرہ مراد جمالی، خاران اور بھاگ میں قائم ہو کر اپنا ایک فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔

کتاب کے آخر میں کابینہ کا طرزِ انتخاب، سنگت اکیڈمی کا آئین اور سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی مطبوعات کی فہرست دی گئی ہے۔

اس طویل سیاسی اور ادبی تحریک کوبلکہ جدوجہد کو محض چند صفحات میں سمیٹ کر اس جدوجہد کے حقیقی روح کو قاری تک منتقل کرنا اتنا آسان نہیں،لیکن اگر اسے بہت طویل بھی کیا جائے تو کیا تب بھی یہ ممکن ہوگا کہ میں سو سالوں کے ہر ہر لمحے کی تکلیف، جدوجہد، کام کی لگن، جو ان بہت سارے حسین لوگوں کے چہروں، ان کی روحوں پر اپنا نقش چھوڑتے چلے گئے، کیا میں پڑھنے والوں کو دکھا پاؤں گی؟

بس اتنا ہی کہوں گی کہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کی یہ کتاب ’بلوچستان کی ادبی تحریک‘ ضرور پڑھیں۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*