نوجوان اطالیہ

رات مخملی پوشاک میں ملبوس، ملائم ملائم قدموں سے مرغزار سے شہر کی طرف آرہی ہے اور شہر لاکھوں سنہری روشنیوں کے ساتھ اس کا سواگت کرتا ہے۔ دوعورتیں اور ایک نوجوان کھیتوں سے گزر رہے ہیں گویا وہ بھی رات کا استقبال کر رہے ہوں اور ان کے پیچھے دن بھر کی محنت کے بعد آرام کی تیاری کرتے ہوئے شہر کا دبا دبا شور آرہا ہے۔

چھ پاؤں آہستہ آہستہ اس قدیم سڑک کے سیاہ پتھروں پر پڑ رہے ہیں جسے روما کی مختلف غلاموں نے بنایا تھا اور اس گرم سکوت میں ایک عورت کی صاف اور مدھ بھری آواز گونجتی ہے:

”لوگوں کے ساتھ سختی سے نہ پیش آؤ۔۔“

”کیا تم نے کبھی مجھے سخت اور درشت دیکھا ہے، ماں؟“۔ نوجوان پر فکر لہجے میں پوچھتا ہے۔

”تم بحث مباحثہ بہت جوش اور شدت کے ساتھ کرتے ہو۔۔۔“

”میں صداقت سے بہت جوش اور شدت کے ساتھ محبت کرتا ہوں“۔

نوجوان کے بائیں ہاتھ پر ایک لڑکی چل رہی ہے اور اس کے لکڑی کے جوتے پتھروں سے ٹکرا رہے ہیں۔ وہ ایسے چل رہی ہے جیسے نابینا ہو، اس کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا ہوا ہے جہاں شام کے ستارے اپنی پوری آب وتاب سے فروزاں ہیں اور ان کے نیچے شفق شام کی دمک ہے اور اس سرخی کے پس منظر میں دو درخت جلی مشعلوں کی طرح نقش ہیں۔

”سوشلسٹوں کو اکثر جیل بھیج دیا جاتا ہے“۔ ماں نے ایک ٹھنڈا سانس بھر کر کہا۔

”ہمیشہ حالات ایسے نہیں رہیں گے“ بیٹے نے طمانیت سے جواب دیا ”اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ۔۔“

”ہاں لیکن اس وقت تک۔۔“

”کوئی طاقت ایسی نہیں ہے نہ کبھی ہوگی جو دنیا کے نوجوان دل کو ختم کر سکے۔۔“

”یہ الفاظ تو گیت کے لیے موزوں ہیں، میرے بچے۔۔۔“

”لاکھوں آدمی یہ گیت گارہے ہیں، ماں، اور پوری دنیا اسے روز بروز زیادہ دھیان سے سن رہی ہے۔۔۔ خود تم بھی پہلے کبھی میرے اور پاؤ لو کی بات کو اس قدر ہمدردی اور صبر سے نہیں سنتی تھیں جیسا تم اب سنتی ہو“۔

”ہاں، ہاں!۔۔۔۔ لیکن سٹرائک نے تمہیں تمہاری جنم بھومی سے نکلوادیا۔۔۔“

”وہ ہم دو کے لیے بہت چھوٹی جگہ ہے۔ پاؤلو وہاں رہے، ٹھیک ہے! لیکن سٹرائک میں جیت ہماری ہوئی۔۔۔“

”ہاں“ لڑکی نے گرم جوشی سے کہا”تم اور پاؤلو۔۔“

اس نے بات پوری نہیں کی اور دھیرے دھیرے ہنسنے لگی۔ پھر وہ سب چند منٹ خاموشی سے چلتے رہے۔ ان کے سامنے کسی عمارت کا کھنڈر تاریکی میں سے نمودار ہوا۔اس کے اوپر ایک میٹھی میٹھی خوشبو والا یوکلیپٹس اپنی نازک شاخیں پھیلائے ہوئے تھا اور جب وہ تینوں اس کے قریب پہنچے تو شاخیں ایک ہلکے سے ارتعاش کے ساتھ سر سرانے لگیں۔

”یہ پاؤلو ہے۔“ لڑکی نے کہا۔

ایک لمبا سا شخص کھنڈر سے نکل کر سڑک کے بیچوں بیچ آگیا۔

”کیا تمہارے دل کو خبر ہوگئی تھی کہ یہ پاؤلو ہے؟“۔ نوجوان نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

”یہ تم ہو؟“۔صدائے باز گشت کی طرح ایک مردانہ آواز آئی۔

”ہاں، ہم آگئے۔ تمہیں میرے ساتھ اور آگے جانے کی ضرورت نہیں ہے، روم تک فقط پانچ گھنٹے کی مسافت ہے اور میں نے پیدل چلنا اس لیے پسند کیا تاکہ راستے میں اپنے خیالات کو مجتمع اور مرتب کرسکوں۔۔“

وہ رک گئے۔ لمبے آدمی نے اپنا ہیٹ اتارلیا۔

”اپنی ماں اور بہن کی طرف سے کوئی فکر نہ کرنا“۔ اس نے رقت بھری آواز میں کہا”سب ٹھیک ٹھاک رہے گا!“

”میں جانتا ہوں۔ خداحافظ، ماں!“۔

وہ آہستہ آہستہ سسکیاں لے رہی تھی۔ پھر تین بندوں کی آواز آئی اور ایک مردانہ آواز نے کہا:”اب گھر جا کر آرام کرو، تمہیں بہت تھکن ہوگئی ہوگی۔ جاؤ سب ٹھیک ٹھاک رہے گا!۔پاؤ لو تمہارے لیے میرے برابر ہی ہے، اچھا ننھی بہن۔۔۔“

پھر بوسے اور پتھروں پر قدموں کی سوکھی سوکھی سرسراہٹ۔ رات کے چوکنے سکوت میں ساری آوازیں اس طرح منعکس ہوتی ہیں جیسے آئینے میں چیزیں۔

تاریکی میں ملفوف سیاہ پیکر ایک دوسرے میں جذب سے ہوگئے اور کچھ دیر تک الگ الگ نہیں ہوسکے۔ پھر خاموشی سے انہوں نے خود کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا۔ ان میں سے تین دھیرے دھیرے قدموں سے شہر کی روشنیوں کی سمت چلنے لگے اور ایک تیزی سے مغرب کی جانب روانہ ہوا جہاں اب شفق کی سرخی مدھم پڑ چکی تھی اور لاکھوں ستارے آسمان کو منور کیے ہوئے تھے۔

”خدا حافظ!“ ایک دکھ بھری پکار دھیرے سے رات کے سکوت میں گونج گئی۔

اور دور سے ایک بشاش آواز نے جواب دیا: ”خدا حافظ۔ غمگین مت ہو، ہم جلد ہی پھر ملیں گے“۔

لڑکی کے چوبی جوتے پتھروں سے لگ کر ایک کھوکھلی سی آواز پیدا کررہے تھے اور نوجوان شخص ایک خفیف سی بھرائی ہوئی آواز میں تسلی تشفی کے الفاظ کہہ رہا تھا:

”ڈونا فیلومینا، وہ بالکل ٹھیک ٹھاک رہے گا۔ آپ اس بات کا اتنا ہی یقین کیجئے جتنا کنواری مریم کے رحم وکرم کا کرتی ہیں۔ وہ مضبوط دل اور سمجھ بوجھ رکھنے والے دماغ کا مالک ہے۔ وہ محبت کرنا اور دوسروں کو اپنے سے محبت کرانا جانتا ہے۔۔۔ اور اپنے ہم جنسوں کی محبت آدمی کو بال و پر عطا کردیتی ہے جن کی مدد سے آدمی ہر چیز سے زیادہ اونچا اڑ سکتا ہے۔۔۔“‘

شہر تاریکی میں اپنی مدہم روشنیاں زیادہ سے زیادہ پھیلاتاجارہا ہے۔ لمبے آدمی کے الفاظ بھی چنگاریوں کی طرح چمک رہے ہیں۔

”جو آدمی اپنے دل میں وہ لفظ لیے ہوئے ہے جو تمام دنیا کے باسیوں کو متحد کرتا ہے اسے ہمیشہ ایسے لوگ مل جائیں گے جو اس کا سواگت کریں گے۔ ہمیشہ!“

شہر پناہ سے نکلتے ہی ایک نیچا سا سفید شراب خانہ ہے جو اپنے روشن دروازے کی چوکور آنکھ سے راہگیروں کو دعوت دینے والے انداز سے دیکھ رہا ہے۔ دروازے کے قریب تین چھوٹی میزوں پر سیاہ سیاہ سے پیکر بیٹھے تھے اور لرزتے ہوئے گیتاروں اور سارنگی کے تاروں کی تن تن کی ہم نوائی میں زور شور سے ہنس بول رہے تھے اور تفریح کررہے تھے۔

جس وقت وہ تینوں دروازے پر پہنچے تو سنگیت تھم گیا، آوازیں دھیمی ہوگئیں اور کئی آدمی کھڑے ہوگئے۔

”سلام، ساتھیو!“ دراز قد شخص نے کہا۔

اور کوئی ایک درجن آوازوں نے جوش اور شوق کے ساتھ جواب دیا:

”سلام پاؤلو، ساتھی! ہمارے ساتھ شامل ہونگے؟ شراب کا ایک جام؟“۔

”نہیں۔۔۔شکریہ!“

ماں نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا:”ہمارے آدمی تم سے بھی محبت کرتے ہیں“۔

”اوہ میرے اوپر ہنسومت۔ میں اپنے جیسے لوگوں کے لیے اجنبی تھوڑا ہی ہوں۔ وہ سب تم سے محبت کرتے ہیں تم سب اور اس سے۔۔۔“

لمبے آدمی نے لڑکی کا بازو پکڑ لیا۔ ”سب اور ایک اور بھی“۔ اس نے کہا”میں ٹھیک کہتا ہوں؟“

”ہاں“ لڑکی نے دھیرے سے کہا۔”ظاہر ہے۔“

ماں ہنسی۔ ”اوہ میرے بچو! جب میں تمہیں دیکھتی ہوں اور تمہاری باتیں سنتی ہوں تو یہ یقین کیے بغیر نہیں رہ سکتی کہ تمہاری زندگی یقینا ہماری زندگی سے بہتر ہوگی۔۔“

اور تینوں شہر کی سڑک پر، جو ایک پرانے فرسودہ لباس کے آستینوں کی طرح تنگ اور بوسیدہ تھی، نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*