آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑی معیشت

ہمارے خلاف مذکورہ بالا چارج شیٹ تیار کرنے کے بعد ہماری ہر نوع کی اشرافیہ نے یکسوہوکر فیصلہ کرلیا ہے کہ بہت ’’عیاشی‘‘ ہوگئی۔ پاکستان کو بطور ریاست برقرار رکھنا ہے تو معیشت کو اب ’’دستاویزی‘‘ بنانا ہوگا۔بجلی کی ہر صورت کم از کم اتنی قیمت تو ادا کرنا ہوگی جو اس کافی یونٹ پیدا کرنے میں خرچ ہوتی ہے۔گیس اور پیٹرول کے نرخ بھی ’’عالمی معیار‘‘ کے مطابق ادا کرنا ہوں گے۔

’’عالمی معیار‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے ترجمانوں کی فوج ظفر موج ہم پاکستانیوں کی فی کس آمدنی کا دیگر ممالک کی فی کس آمدنی سے ہرگز تقابل نہیں کرے گی۔ اس حقیقت کو بھی کامل سفاکی سے نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ عوام کی بے پناہ اکثریت ہر ماہ 20ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے کے درمیان آ مدنی والی بریکٹ میںمقیدہوچکی ہے۔ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بھی نگاہ میں نہیں رکھی جاتی۔اصرار بلکہ یہ ہوتا ہے کہ پاکستان ایک خوش حال  ملک ہے۔ ہمارے شہروں کے مہنگے ریستورانوں میں بیٹھنے کی جگہ حاصل کرنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔نئی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی خریداری میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے۔دنیا کی ہر نعمت سے مالا مال ہوئے پاکستانی برف باری کے مناظر دیکھنے کو بے قرار رہتے ہیں۔اپنی آمدنی مگر ریاست سے چھپاتے ہیں اور اس پر واجبی ٹیکس ادا کرنے کو بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ ’’ٹیکس چور‘‘ اور ’’عیاشی‘‘ کی عادی ہوئی اس قوم کو اب ’’دستاویزی معیشت‘‘ کے شکنجے میں جکڑ کر سیدھی راہ پر چلایا جائے گا۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ شکنجے کو ’’اصلاحات‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔اس کی حمایت میں جناتی انگریزی میں مضامین لکھنے والے ’’دانشور‘‘ تاویلیں گھڑنے کو ہمہ وقت آماد ہ ہیں۔

چند دن قبل بجلی کے فی یونٹ نرخ میں تین روپے کا اضافہ ہوا۔منگل کی رات پیٹرول کے ایک لیٹر کی قیمت میں بھی یکمشت بارہ روپے اضافے کا اعلان کردیا گیا۔یہ بھاری بھر کم اضافہ شب خون کی مانند تھا۔ہمیں مگر یہ بتاتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش ہورہی ہے کہ غریبوں کے یک وتنہا ہمدرد ہوتے ہوئے وزیر اعظم صاحب مذکورہ اضافے کی منظوری کو رضا مند نہیں ہورہے تھے۔ معاشی ’’حقائق‘‘ کے روبرو مگر بالآخر بے بس ہوگئے۔مہنگائی کی زد میں بے بس محسوس کرتے ہوئے بھی ہمیں کم از کم اس حقیقت کو بھلانا نہیں چاہیے کہ ذاتی طورپر وہ انتہائی ایمان دار ہیں۔وہ اور ان کا خاندان منافع بخش دھندوں میں ملوث نہیں۔سادہ زندگی گزارتے ہیں اور اقتدار اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کو بے قرار بھی نہیں۔

ہمارے جی کو بہلانے کو جو دلائل گھڑے جارہے ہیں پاکستان کے محدود اور کم آمدنی والے لاکھوں گھرانوں کو تسلی فراہم کرنہیں سکتے۔ ٹھوس حقیقت ہے تو فقط اتنی کہ بجلی اور پیٹرول کے نرخوں میں جو گرانقدر اضافہ ہوا ہے اس کی وجہ سے ہر ماہ ایک لاکھ روپے کمانے والا گھرانہ بھی اب خود کو اپنے موجود مقام سے غربت کی پاتال میں لڑھکتا محسوس کرے گا۔ دنیا کے کسی بھی ملک کو استحکام فقط اسی صورت نصیب ہوتا ہے اگر وہاں کے عوام کی اکثریت اس گماں میں مبتلا ہو کہ محنت وصلاحیت کی بدولت وہ غربت سے نچلے متوسط طبقے اور وہاں سے نسبتاََ مطمئن متوسط طبقے کی جانب گامزن ہے۔ انگریزی میں اسے Upward Mobilityوالی فضا کہا جاتا ہے۔وطن عزیز میں اس کے قطعاََ برعکس صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔حکومت مگر اس کے ادراک کو بھی آمادہ نہیں۔

گزشتہ چند دنوں میں مثال کے طورپر وزیر اعظم صاحب نے غیر ملکی نشریاتی اداروں کو یکے بعد دیگرے انٹرویوز دئیے ہیں۔ان تمام انٹرویوز میں بنیادی طورپر وہ دنیا کو یہ پیغام دیتے سنائی دئیے کہ افغانستان ایک خوفناک معاشی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔وہاں کے باسیوں کو بھوک اور بے روزگاری سے بچانے کے لئے لازمی ہے کہ طالبان حکومت کوفی الفور تسلیم کیا جائے۔ افغانستان کے عوام کی اس حکومت کے ذریعے مناسب دیکھ بھال کا ہنگامی بندوبست ہو۔

غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ا فغانستان میں ابھرتے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان صاحب اس حقیقت سے قطعاََ غافل نظر آئے کہ فقط اسلام آباد میں جسے پاکستان کا برسوں سے ’’ماڈل‘‘ اور پرامن شہر تصور کیا جاتا ہے رواں برس کی جنوری میں 12پولیس مقابلے ہوئے۔اس شہرمیں دن دھاڑے ڈاکہ زنی کی وارداتوں میں بھی ذہن کو مفلوج کردینے کی حد تک اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے دیگر شہروں حتیٰ کہ دیہات سے بھی معاشی بنیادوں کی وجہ سے ہوئے جرائم میں اضافے کی خبریں آئے چلی جارہی ہیں۔

ہمیں ہر پل کی خبر دینے کا دعوے دار ’’آزاد وبے باک‘‘ میڈیا ایسی وارداتوں کی کماحقہ رپورٹنگ بھی نہیں کرپارہا۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ضمن میں ہوئی ملاقاتوں کا چسکہ فروشی کے اہتمام کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے محض ’’صبح گیا یاشام گیا‘‘ والا ماحول بنارہا ہے۔ یوٹیوب پر چھائے ذہن ساز بھی سینہ پھلاتے ہوئے عمران خان صاحب کے ’’تاریخ ساز‘‘ دورئہ چین کے بعد اب وزیر اعظم کی ماسکو میں پوٹن سے ملاقات کے منتظر ہیں۔ امریکہ کو سمجھایا جارہا ہے کہ وہ بندے کا پتر نہ بنا تو پاکستان ایران ،چین اور روس کے ساتھ مل کر اسے کم از کم ایشیاء کے لئے قطعاََ بے اثر ملک بنادے گا۔

سنا ہے دورِ حاضر میں ہر شے کا Dataدستیاب ہے۔ربّ کریم سے فریاد ہے کہ اس ہنر کا کوئی ماہر درد مندی سے ایسے اعدادوشمار بھی جمع کرے جو ہمیں بتائیں کہ پاکستان میں متوسط طبقہ تیزی سے سکڑرہا ہے یا نہیں۔اگر یہ طبقہ واقعتا سکڑ رہا ہے تو سیاسی عدم استحکام بھی دیوار پر لکھا ہوا نظر آنا چاہیے۔اس کے تدارک کے لئے ریاستی جبرنہیں ٹھوس معاشی اقدامات کی ضرورت ہے۔

عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کی تیاریوں میں مصروف اپوزیشن والے بھی حکمران اشرافیہ کا حصہ ہوتے ہوئے ایسے اقدامات کی بابت گفتگو سے گریز کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کو مہنگائی کے طوفان کا ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں۔ یہ وعدہ کرنے کی مگر جرأت نہیں دکھاپارہے کہ اگر عمران خان صاحب کو ہٹاکر اقتدار میں آئے تو آئی ایم ایف کے ساتھ 2019میں ہوئے معاہدے کو برقرار رکھنے سے کاملاََ انکار کردیں گے۔

آئی ایم ایف کو للکارنے کی مجھ جیسے کم علم صحافی کی جانب سے گفتگو ہو تو نہایت رعونت سے غیر ملکی یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ’’ماہرین معیشت‘‘ یاد دلانا شروع کردیتے ہی کہ عالمی معیشت کے نگہبان اداروں سے پنگالینے کے بعد پاکستان شمالی کوریا جیسا ملک بن سکتا ہے جس کے ساتھ کوئی اور ملک کاروبار کرنے سے قبل سوبارسوچتا ہے۔حال ہی میں لاطینی امریکہ کے ارجنٹائن میں قائم ہوئی نئی حکومت نے مگر آئی ایم ایف کے ساتھ اس معاہدے پر عملدرآمد کرنے سے صاف انکار کردیا جو سابقہ حکومت نے طے کیا تھا۔اس معاہدے کی بدولت ارجنٹائن کو اپنی معیشت سنبھالنے کے نام پر آئی ایم ایف نے ریکارڈ ساز رقم فراہم کی تھی۔ نئی حکومت نے اس قرض کی واجب قسطیںادا کرنے سے بھی انکار کردیا۔ آئی ایم ایف بالآخر ارجنٹائن کا حقہ پانی بند کرنے کے بجائے اس کے ساتھ نئے معاہدے کے لئے مذاکرات کو مجبور ہوا۔

پاکستان کے پاس 2019میں ہوئے معاہدے پر نظرثانی کی صلاحیت وسکت اب بھی ہر صورت موجود ہے۔آئی ایم ایف کو اس کے لئے رضا مند کرنے کے لئے ہمیں مگر امریکہ سے بھی کوئی نیا مک مکا کرنا ہوگا۔ہم مگر "Absolutely Not”کا اعلان کرچکے ہیں اور پوٹن کے ساتھ جپھی ڈالنے کی تیاریوں میں مصروف۔صدر بائیڈن کا ہمارے وزیر اعظم کو ایک سال گزرجانے کے باوجود کوئی فو ن بھی نہیں آیا ہے۔ خداراآئی ایم ایف کے سخت گیر رویے کو اس کے حقیقی تناظر میں رکھتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*