پچاس اور نوّے کی دہائیوں کی طرف جاتے حالات

قیام پاکستان سے چند ہی ماہ قبل ہماری سیاست میں ’’تازہ خبر‘‘ آنے کے بعد ’’خضر ساہڈا بھائی اے‘‘ والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ 1940کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی کم از کم تین نسلوں سے انگریزوں کے وفادار اور ’’بندوبست دوامی‘‘ کی بدولت ’’شرفا‘‘ کہلاتے جاگیرداروں نے تحریک پاکستان کی حمایت شروع کردی۔ نئی ریاست کے قیام کے بعد مگر اس کے انتظامی امور اپنی گرفت میں لینے کو یہ ’’اشرافیہ‘‘ تیار ہی نہیں تھی۔مقامی سیاست تک محدود رہنے کی عادی تھی۔’’سرکار‘‘ کو مائی باپ پکارتے ہوئے اس کی سرپرستی کے حصول کو ہمہ وقت بے چین۔

ایسے سیاستدانوں کی جبلی کمزوری کا انگریزہی کی سدھائی افسرشاہی نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ بتدریج وطن عزیز میں حتمی فیصلہ سازی کا حتمی اختیار ریاست کے سب سے منظم اور طاقت ور ادارے کے پاس چلا گیا۔سیاسی اعتبار سے یہ اختیار بھی اب ’’بندوبست دوامی‘‘ میں بدل چکا ہے۔

2017سے مگر نواز شریف سے منسوب مسلم لیگ نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والا نعرہ بلند کرتے ہوئے ہمیں اس بندوبست سے نجات دلانے کے خواب دکھانا شروع کردئیے۔ اس نعرے کو عملی صورت فراہم کرنے کے لئے طویل اور صبر آزما جدجہددرکار تھی۔اس کے لئے مگر دور حاضر کے ’’شرفا‘‘ جنہیں ان دنوں ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کہا جاتا ہے تیار ہی نہیں تھے۔شہباز شریف صاحب سے لہٰذا درخواست ہوئی کہ وہ اپنی ’’ڈیل میکنگ‘‘ صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔دائمی اداروں کو یاد دلائیں کہ وہ اور ان کی جماعت عمران خان اور ان کی تحریک انصاف سے کہیں بہتر’’منتظم‘‘ ہیں۔انہیں راندئہ درگاہ نہ بنایا جائے۔

نظر بظاہر ’’معافی تلافی‘‘ والی فریاد کی اب کم ازکم شنوائی شروع ہوگئی ہے۔جولائی 2018میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے چند اراکین کو بھی غالباََ ’’تازہ خبر‘‘ مل چکی ہے۔عمران خان صاحب کو اسی باعث تحریک عدم اعتماد کی بدولت وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لئے محلاتی سازشوں والی ملاقاتیں شروع ہوچکی ہیں۔بات چل نکلی ہے دیکؐیں کہاں تک پہنچے۔

محدود آمدنی والا ایک عام پاکستانی اور کئی برس تک سیاسی امور کارپورٹررہنے کے باوجود میں حالیہ ملاقاتوں اور ’’آنیاں جانیاں‘‘ سے بے حسی کی حد تک لاتعلق ہوں۔مہنگائی کی چکی میں پھنسا بلکہ یہ سوچنے کو مجبور کہ اگر عمران خان صاحب وزارت عظمیٰ پر فائز نہ بھی رہے تو روزمرہّ زندگی کے لئے لازمی شمار ہوئی اشیاء پر حالیہ منی بجٹ کے ذریعے ٹیکس کی جو مراعات واپس لی گئی ہیں وہ اپنی جگہ برقرار رہیں گی یا نہیں۔بہت سوچ بچار کے باوجود ’’نہیں‘‘ کے علاوہ کوئی اور جواب سجھا نہیں دے رہا۔

عمران حکومت نہیں بلکہ ریاست پاکستان نے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے -آئی ایم ایف – سے ایک تین سالہ معاہدہ کررکھا ہے۔یہ معاہدہ رواں برس کے ماہ ستمبر تک لاگو رہے گا۔ دریں اثناء تقریباََ چار ماہ بعد نیا بجٹ بھی متعارف کروانا ہوگا۔ آئی ایم ایف کا تقاضہ ہے کہ اس کے ذریعے 480ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے جائیں ۔بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی ناقابل بر داشت حد تک بڑھانا ہوں گی۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے اس کا اثر ہمارے ہاں بھی نمودار ہوتا رہے گا۔ایسے عالم میں عمران خان صاحب اپنے منصب پر برقرار نہ بھی رہیں تو میرے اور آپ جیسے پاکستانیوں کو چین ہرگز نصیب نہیں ہوگا۔

عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی خاطر برپا ہوئی ’’آنیاں جانیاں‘‘ میں فقط اسی صورت سنجیدگی سے لینے کو تیار ہوتا اگر مذکورہ تحریک کا دام بچھانے والے نیک نیتی سے یہ وعدہ کرتے سنائی دیتے کہ عمران خان صاحب کی جگہ جس شخص کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھایا جائے گا وہ آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدہ پر مزید عمل درآمد سے قطعاََ انکار کردے گا۔عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کو ازسرنو مذاکرات پر مجبور کرے گا۔ایسا وعدہ مگر ٹھوس انداز میں ہو نہیں رہا۔چند ہی روز قبل بلکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کامل خودمختاری فراہم کرنے والے قانون کی بسرعت منظوری یقینی بنانے کے لئے سینٹ سے قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی صاحب کے علاوہ اپوزیشن کے سات دیگر اراکین بھی غیر حاضر رہے۔ یہ غیر حاضری مجھ ایسے جھکی کو ’’دانستہ‘‘ محسوس ہوئی تھی۔ اسے نگاہ میں رکھتے ہوئے میں عمران خان صاحب کی جگہ سنبھالنے والے وزیر اعظم کی جانب سے آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھانے کی امید باندھنے سے قطعاً قاصر ہوں۔

محلاتی سازشوں کے ذریعے ’’نیا ماحول‘‘دکھانے کی علت مگر ہماری سیاسی اشرافیہ کا دیرینہ مشغلہ ہے۔ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے جال میں پھنساتے ہوئے وہ انگریزی محاورے والی ’’بگ پکچر‘‘ دیکھنے سے قاصر ہیں۔ سمجھ ہی نہیں پارہے کہ منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کی خودمختاری والے قانون کی منظوری کے بعد ’’پارٹی‘‘ کی طرح مہنگائی تو’’ابھی شروع ہوئی ہے‘‘۔اسے لگام ڈالنے کی ترکیب فی الوقت ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے پاس موجود ہی نہیں۔

عمران خان صاحب کی جگہ جو شخص بھی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگا وہ آنے والے دنوں میں جان لیوا ہوتی مہنگائی کا حقیقی ذمہ دار تصور ہوگا۔عمران حکومت کی طرح وہ اس کا دوش ماضی کی حکومتوں کے سر ڈالنے میں قطعاََ ناکام رہے گا۔ایسے عالم میں عمران خان صاحب کو بلکہ اپنا بیانیہ شدومد سے بحال کرنے میں مزید آسانیاں فراہم ہوجائیں گی۔وہ شہر شہر جاکر دہائی مچانا شروع ہوجائیں گے کہ ’’کرپٹ مافیا‘‘ نے ان کی حکومت کو چلنے نہیں دیا۔ وہ اگرچہ سخت اور عوام میں نامقبول اقدامات لیتے ہوئے معیشت کو بحال کرنے کے بعد اسے خوش حال وتوانا بنانے کی راہ پر گامزن تھے ۔شدید تر ہوتی مہنگائی سے اُکتائے عوام کا کماحقہ حصہ ان کا یہ دعویٰ کم از کم ہمدردی سے سننے کو آمادہ ہوگا۔یوں ’’نئی حکومت‘‘ کو بھی استحکام نصیب نہیں ہوپائے گا۔پاکستان خود کو بلکہ اس دور میں لوٹا محسوس کرے گا جب 1950اور 1990کی دہائیوں میں وزرائے اعظم اپنے منصب پر محض چند دن کے مہمان ہی تصور ہوتے تھے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*