حالانکہ مجھے انتظار نہیں !

 

حالانکہ مجھے انتظار نہیں
اپنی طرف بلانے والی سرسراہٹ
پھر بھی مجھے تیار رکھتی ہے
ایک خطرناک اور خوبصورت
پگڈنڈی پر رات بھر، چلنے کے لیے

کسی وجیہہ شاہ زادے کی طرف سے
مجھے کوئی تحفہ نہیں بھیجا گیا
سوائے ایک طلسمی آئنے کے
جو دن بھر مجھے سلائے رکھنے پر مامور ہے
اور رات بھر اِک عکس کا، کرتب دِکھانے پر

کوئی نئی زبان ایجاد نہیں کی گئی
جسے کنیزوں کی جانب سے آقائوں کے
نرم بستروں اور تاریک محّلات میں ہونے والی
سازشوں کے احتجاج میں محفوظ رکھا جا سکے

ایک خطیر رقم خرچ نہیں کی گئی
ان گویّوں کے شام کے گیتوں کی تیاریوں
میں استعمال ہونے والے سازوں کو خریدنے
کے لیے جن سے بجھے ہوئے دل، جل اٹھیں

حالانکہ مجھے انتظار نہیں
اپنی سمت چلنے والی کسی ہَوا کا
پھر بھی مجھے تیار رکھتے ہیں
ایک درخت جو محبت کی پگڈنڈی
کے قریب اپنی جڑیں پیوست رکھتا ہے
اس کے نیچے بہتی ایک طلمسی جھیل
جو ایک شبیہہ جتنی پر فریب ہے
ایک زبان جس کے حروف اس کی
چھال سے بنے کاغذوں پر اتارے جاتے ہیں
ایک بانسری جو اس کی شاخوں
سے تراش کر ہر شام دل سے بجائی جاتی ہے !

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*