سمے اک واہمہ ہے

یہ ممکن ہے
بہت پہلے
کسی بے یاد ماضی میں
کبھی کے مر چکے ہوں ہم
یہ ہم جو زندگی جیتے ہیں
پچھلی زندگی کی نیک کرنی کا صلہ ہو
حیات عارضی ہی جاوداں ہو
ہماری نیکیوں کا اجر
دھرتی کے ندی ، چشموں کے شیریں آب
پیڑوں کے گھنے سایوں
حسیں رنگوں ، مہکتے گیت گاتے موسموں
شام و سحر
تاروں بھری شب سے جڑا ہو

یہی جنٹ ہو

اور تیرا حسیں پیکر
جوانی کی عبادت کی دعا ہو

بہت ممکن ہے
ایسا ہی ہوا
ہو رہا ہو
اور تری لذت بھری قربت میں ہم
یادیں پرانی بھول بیٹھے ہوں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*