جواب لیں گے

 

ہماری آنکھوں کے نیم وا سے
تاریک عدسوں میں
آج تک بھی ڈر کے موتی نہیں اگے ہیں
ہماری سوچوں میں اب تلک بھی
تمہاری وحشت سے تھرتھراہٹ نہیں پڑی ہے
ہمارے قدموں میں منزلوں کے حصول تک تو
چلتے رہنے کی خاص شکتی بچی ہوئی ہے
ہمارے منہ پہ جو جبر تالے لگا گئے ہو
پھر بھی ہماری چیخیں کاغذی قفل توڑ کے
آسمانوں کے پار جا کر تمہاری نیندیں
اڑا رہی ہیں
ڈرا رہی ہیں
ہمارے سینوں میں درد طاقت بنا ہوا ہے
ڈٹا ہوا ہے
یقین کامل ہے آج کل میں
تمہاری پسپائی کی شرمناکی کا ہم دیوانے
شہر چوکوں میں رقص کر کے
جشن سالوں منا منا کے
امن پنچھی اڑا اڑا کے
وحشتوں کا حساب لیں گے
جواب لیں گے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*