ہانی مریذ

جن دوستوں کا خیال یا دعویٰ ہے کہ بلوچ تاریخ میں محبت کرنے والوں کو ہمیشہ جسمانی طور پر ایک ہونا نصیب ہوا ہے ،،تو وہ بھی میری طرح بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔شاہ لطیف کی صفت کردہ سسی کا دل پذیر عشق دیکھیں ۔یا فرید الدین عطار کی شاعری کی عنوان رابعہ خضداری کا عشق محل (حمام )تصور کر لیں، اور وہاں سے ہوتے ہوئے آپ دلبرو جواں مرد و ملنگ شدہ مریذ تک پہنچ جائیں اوروہاں سے مست توکلی کے گنجیں دربار تک آجائیں، آپ کو محبت میں سرشار بے شمار روحوں کے حتمی فراق کی ولدوز کہانیاں اور چیخیں پاگل کردیں گی۔
بلوچ ادبی ثقافتی تاریخ میں چاکر کا درجہ بہت بلند رہاہے۔ہمارے کسی اکابر قلمکار نے اُسے ”چاکر اعظم “ لکھا تھا۔ اُسی نسبت سے ہم سب اُسے اسی نام سے بولتے لکھتے ہیں۔ حالانکہ بلوچ تاریخ میں دوسرا کوئی چاکر قابلِ ذکر رہا ہی نہیں جس سے اُسے ممتاز کرنا مقصود ہوتا۔حتی کہ عام بلوچ بلکہ بہت سے ”عالم “لوگ بھی اُسے بلوچوں کا جدِ امجد کہتے رہے ہیں(21ویں صدی میں بھی !)۔
ہم چاکر کے بارے میں بہت بات کریں گے۔ مگر یہاں ہم اُس کی ہیروازم ، بہادری ، تدبر اور لیڈر شپ کے بجائے ایک اور تذکرہ چھیڑتے ہیں۔ روشن و ملائم و دلکش چہار دہی ماہ کے چہرے پہ موجود داغ کی بات۔
چاکر ِ اعظم یا امیر چاکر کی سوانح عمری سے ایک اتنا بڑا داغ چپکا ہوا ہے جو نہ نوخاف کے معطر و صافی پانی سے دُھل سکتا ہے اور نہ ایرانی سرف و صابن سے مٹ سکتا ہے ۔وہ داغ چھ سو سال بعد ذرا بھی مدہم اور مبہم نہیں ہوا۔ وہ داغ اپنے خاص الخاص آدمی مریذ سے دھوکہ کرنے والا داغ ہے ۔ عام و خاص بلوچ چاکر کی تعریفیں کرتے ہوئے جب بھی مریذ و ہانی کی عشقیہ داستان پر آجاتے ہیں تو اُن کے دلوں سے چاکر کی ساری قدر کرامت ،لمحہ بھر کے لیے بخارات بن کر اُڑجاتی ہے۔ اُس کی ہیرو گیری پر بہت بڑا اور کالے رنگ کا سوالیہ نشان ابھر آتا ہے۔
یوں تاریخ میں لازوالی چاکر کے حصے میں نہ آئی۔ بلکہ ہانی مریذ کی اُس ٹریجک محبت میں اُس کی ٹانگ اڑائی نے اُس کے بجائے مریذ کو امر کردیا ۔حتی کہ محبت کے کھیل کی دنیاوی شکل میں آﺅٹ ہوجانے نے مریذ کوبعد کے آنے والے شاعروں عاشقوں کا انسٹرکٹر بناڈالا۔ جام اور مست جیسے شہرہ ِ آفاق شاعروں نے اُسے امام مانا۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ بلوچی شاعری میں پژمردگی، پس پائی ، عدم جدوجہد اور تسلیم ورضا کی آخری حد تک جانے کا فلسفہ بھی ،مریذ کی زندگی کے دوسرے نصف کی دین ہے۔
ہانی مندو (Mandav) کی بیٹی تھی ۔ حُسن کی نعمت بھی اُسے حاصل ہوگی، مگر کلاسیکل شاعری میں اُس کی ایک اور صفت بار بار بیان ہوئی ہے : عقل و دانش، تدبر و برداشت اور حیرت انگیز وفا ۔
مریذ ، مبارک کا بیٹا تھا ۔اس کا تعلق فقیر اور کرامتی گھرانے سے تھا۔مریذ ایک شمشیرزن، قبائلی نوجوان، تیر کمان کا مالک، (لوہیں کوانہ واژہ ) ، زبردست گھڑ سوار،اور ایک صابر و جفاکش شکاری تھا۔
مریذ و ہانی باہم منگیتر اور محب تھے……..میٹھے محبوب، لطیف محبت میں غرق، اوربے پرواہ جوڑی۔زندگی عام بلوچ کی سی تھی۔ شکار کا شوقین مریذ تیر کمان کا زبردست نشانہ بازتھا ۔ اور ہانی ایک عام بلوچ دوشیزہ جس کی عقلمندی اور فراست نے ابھی آگے جاکر آشکار ہونا تھا۔ابھی تک تو یہ بات اہم تھی کہ وہ مریذ کی منگیتر تھی۔
چاکر‘ بہت بڑے قبیلوی اتحاد یہ یعنی رند کا سردار تھا۔ اس لحاظ سے قوت ، دولت اور اقتدار کا مالک تھا ۔وہ شکار کا شوقین اورتلوار کا دھنی تھا …….. اور جی بھر کر سازشی بھی ۔اُسے مریذ کا دوست تو ہر گز نہیں کہا جاسکتا اس لیے کہ دوستی تو دو برابر انسانوں کے بیچ ممکن ہوتی ہے ۔ رعیت اور سردار کے بیچ برابری ناممکن ۔ وہاں تو رعیت و بھوتار والا تعلق ہوتا ہے ۔ چنانچہ برابری کے بغیر دوستی ناممکن۔
بس مریذ اور چاکر میں مشترک چیزیہ تھی کہ دونوں پہاڑی دنبوں کے شکاری تھے۔ مریذ کا نشانہ زبردست تھا اور اس کا تیر کمان بھاری ۔ وہ خود بھی بہت تندرست ،توانا اور پُھرتیلا نوجوان تھا۔ وہ شکار کے عمل میں اچھے پارٹنر کے بطور چاکر کے ساتھ شکار پر جاتا تھا۔بس۔
یہ سبی ہے، گرمی کا موسم ہے ،اور گندم کی کٹائی ہو رہی ہے ۔ چاکر کو شکار کی سوجھی۔ چنانچہ وہ مریذ کو ساتھ لیتا ہے اور صبح سویرے شکار کرنے روانہ ہوجاتا ہے ۔
چاکر شکارا سمبری
زیری مریذاسنگتی
چاکر شکار کو تیار ہوجاتا ہے
مریذ کو ساتھ لیتا ہے
وہ دونوں پہاڑی بکروں اور دنبوں کے شکار کے لیے سبی کے شمالی پہاڑوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ اور موسمِ گرما کے دن کا بڑا حصہ شکار کھیلتے ہیں۔ ڈھلتی دوپہر کووہ تھکے ہارے واپس آجاتے ہیں ۔ سخت پیاسے ہوتے ہیں ۔ چاکر کا سسر (جس کا نام معلوم نہیں ، اور نہ ہی اس کی منگیتر کے نام کا پتہ ہے ) اور مندو (مریذ کا سسر ) کے گھر‘ راستے میں پڑتے تھے ۔ چونکہ کٹائی کا موسم تھا اس لئے سب لوگ کام کاج کے سلسلے میں گھر سے باہر کھیتوں میں تھے۔ لیکن دونوں کی منگیتریں اپنے گھروں میں موجود تھیں ۔بلوچ میں نکاح سے قبل، اور بالخصوص بڑوں کی غیر موجودگی میں اپنی منگیتر کے گھر جانا ٹھیک نہیں سمجھا جاتاتھا۔ اس لیے فیصلہ ہوا کہ چونکہ اپنی منگیتر کے گھر جانا معیوب ہے اس لئے دونوں ایک دوسرے کی منگیتروں کے گھر پانی پینے جائیں گے ۔
تہ گوئر منی منگا برو
مں گوئر تئی منگہ رواں
تم میری منگیتر کے ہاں جاﺅ
میں تمہاری منگیتر کے ہاں جاﺅں گا
پانی پی کر واپس ہوتے ہیں تو چاکر غصے میں آگ بگولہ نظر آتا ہے ۔ رند کا مضبوط سردار طیش میں ہوتا ہے ۔معلوم ہوا کہ مریذ کی منگیتر ہانی نے بہت سلیقے سے کٹورا خوب صاف کر کے پانی سے بھرا ۔مگر پھر،پانی کی سطح پر جان بوجھ کربہت سے صاف  تنکے توڑ توڑ کر ڈال دیے۔ چاکر نے اس کو شرارت ، نافرمانی ،یا دشمنی سمجھا۔ اُس کو سمجھ میں نہیں آیا کہ ہانی نے ایسا کیوں کیا؟۔ پیاس سے بدحال چاکر کو پانی پینے میں بہت دشواری ہوئی اور تنکوں کو بار بار پھونک پھونک کر دور کرنا پڑا ۔یوں اُسے ٹھہر ٹھہر کر وقفے وقفے سے پانی پینا پڑا تھا۔ پیا سے کے تیز تیز پانی پینے کے لطف کو ٹھیس پہنچا تھا۔وہ سخت طیش میں تھا۔
مگر جب اُس نے مریذ کو دیکھا تو حیران ہوا۔ مریذ قے کر رہا تھا۔ اس نے حیرت سے وجہ پوچھی۔ تب اُسے اندازہ ہوا کہ ہانی کے برعکس چاکر کی منگیتر نے بغیر تنکے ڈالے کٹورا بھر کر مریذ کو دیا اور پیاسے مریذ نے بغیر وقفے کے غٹا غٹ پی لیا ۔اس لئے اُسے قے آئی ۔(بلوچی میں اِس الٹی کو ”آفاں گپتہ “ کہتے ہیں)۔
چاکر تو ششدر رہ گیا ۔ وہ مسرت آمیز حیرت میں ڈوب گیا۔ وہ ہانی کی اِس عقلمندی اور فراست سے بہت متاثر ہوا ۔ اُس کا غصہ دُھل گیا۔ اب اس کے ذہن میں یہ شیطانی خیال آیا کہ کوئی بھی طریقہ ہو وہ ہانی کو حاصل کرکے رہے گا۔
مگر یہاں ایک نکتے پر ضرور غور کریں ۔ وہ یہ کہ دنیا میں ہر جگہ عورت کے حسن اور اداﺅں سے مرعوب ہوا جاتا ہے، جبکہ یہاں اُس کے برعکس عورت کی عقل، صلاحیت اور ذہانت کشش کا باعث بن رہی ہے !!۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*