پرانا کوٹ اور کتابوں کی سیل

صبح سویرے موبائل فون کی گھنٹی بجی تو میرے دل میں ایک خوف سا اٹھ گیا ۔میں نے جلدی جلدی اٹھ کر فون رسیو کیا ۔مجھے پتہ تھا کہ سویرے جب موبائل فون کی گھنٹی بجتی ہے تو یہ میرے ٹیوب ویلوں کے کسانوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے کیونکہ ٹیوب ویل کی کوئی چیز خراب ہوتی ہے تو کسان صبح سویرے فون کرتا ہے۔ دوسری طرف میرے اخوند جان والے ٹیوب ویل کے کسان ماماعبداللہ بات کرہا تھا
ماماعبداللہ نے کہا کہ ٹیوب ویل کا اسٹاٹر خراب ہوا ہے
میں نے ماما عبداللہ کو کہا
ماما جلدی سے اسٹاٹر بورڈ سے اتار کر پہلے وین پر پہنچا دو جب تک میں بھی تیار ہو جاﺅنگا
میں نے جلدی جلدی وضو کرکے نماز ادا کی ۔ جلدی سے ایک پیالی چائے پی ویسے تو میں چائے بہت پیتا ہو خاص کر سردیوں میں ۔ میری بیوی کو پتہ ہے کہ جب بھی صبح سویرے جلدی سے تیار ہوتاہوں تو ٹیوب ویل کی کوئی چیز خراب ہو گئی ہوگی  ۔اس دن وہ کسی گھریلوچیز کے لیے نہیں کہتی نہ بچوں کے لیے کسی چیز کیلے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ جب ٹیوب ویل کی کوئی چیز خراب ہوگئی اس دن میرا موڈ بھی خراب ہوجاتا ہے ۔ پہلے اس طرح نہیں تھا اب اس ہوشربا مہنگانی نے زندگی کے تمام لوگوں کی کمر توڑ دی ہے
جب میں تیار ہو کر گھر سے نکنے لگا تو بیوی نے کہا کہ آپ کا کوٹ بہت پرانا ہوگیا ہے ۔کوئی نیا کوٹ کیوں نہیں خرید لیتے ہو ۔ تو میں نے کہا کہ اس مہنگائی میں بڑی مشکل سے ان ٹیوب ویلوں کو چلا رہا ہوں کو ٹ خریدنے کے لیے میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ اس نے کہا” میں آپ کو نیا کوٹ خریدنے کے لیے پیسے دوں گی“۔

بیوی کی یہ بات سن کر میں خوش ہو ا کہ چلو کوٹ تو نیا ہوا۔ بیوی نے کوٹ کے لیے پیسے دے دیے ۔
میں ویگن میں بیٹھ کر شہر کیلے روانہ ہوا ۔شہر جاکر سٹاٹر کو مرمت کیلے مستری کو دیا ۔ اس نے اسے دیکھ کر کہا یہ آج نہیں بن سکتا ہے آج میرے پاس کام بہت ہے اپ کل آجاو
میں بھی خوش ہوا چلو اچھا ہے اسی بہانے آج بازار کا چکر لگالو ں گا۔
اس الیکٹرک والے کے دکان سے نکل کر اپنے بھائی کے گھر گیا ۔ وہ بھی تیار تھا گاڑی نکال رہا تھا مجھے دیکھ کر سلام دعا کے بعد کہا آج کہاں جاﺅ گے میں نے کہا
دوپہر کے کھانے کے بعد بازار جاﺅں گا ۔
اس نے رات کو ادھر ہو؟۔
میں نے ہاں میں جواب دیا۔ وہ خوش ہوا
پھر اس نے ”بازار میں کسی مشہور بک سیلر کا نام لے کر کہا کہ اس میں ساٹھ پرسنٹ کتابوں کا سیل لگا ہوا ہے“۔
کتابوں کا نام سن کر میں کافی خوش ہوا بھائی میرے ساتھ ایک پیالی چاے پی کرنکل گیا ۔میں سہ پہر تین بجے گھر سے نکل کر اس مشہور بک شاپ پر پہنج گیا ۔ وہاں کافی رش تھا کتاب دوستوں کا۔ میں نے بھی کچھ کتابیں لے لیں ،بیوی کے دیے ہوئے کوٹ کے پیسے دیے دیے ا اور نکل گیا ۔خیر دوسرے دن جب واپس گھر پہنچ گیا تو بیوی نے پوچھا” کوٹ خرید لیا“؟     کیونکہ میرے ہاتھ میں کتابوں کے شاپر کو دیکھ کر اسے یقین ہو ا کہ میں نے کوٹ کے بجائے کتابیں خرید لیں۔ کیونکہ بہت دفعہ میں نے اپنے عید پر کپڑوں کے پیسے سے کتابیں خرید لیں۔میں بیوی کو کتابیں دکھاتے ہوئے اپنے کمرے چلا گیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*