امید ِ آخریں

 

یہ ممکن ہے
ایک بند دروازے پھر ایک بار پر دستک دی جائے
ڈیوڑھی پر بیٹھا جائے
تھک کے
سوچا جائے واپسی کے لیے کونسی سمت اختیار کی جائے
پھر یاس و نا امیدی کے بوجھ سے اٹھا بھی نہ جائے
سانس سینے تک سوکھ جائے
بوجھل قدموں پہ گرد بھی بھاری لگے
یہی سوچتے سوچتے کہ ایک آواز
وہی آواز
سنائی دے
جی ہلکا ہوجائے
وقت تھم سا جائے
مڑ کے دیکھوں تو وہی رنگ
جسے میں آنسوئوں میں بھگو چکا تھا
راہ میں بھر جائے روشنی کے ہاتھ تھامے

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*