ایسا زمانہ آگیا کہ ماں ، بہن ، باپ ، بھائی، دوست عزیز سب کچھ پیسہ ہے۔ تمہارے پاس زیادہ ہے تو ہزاروں عزت داروں سے زیادہ عزت دار ہوگے۔ قریب ترین دوستوں سے بھی قریب تر۔ اگر تمہارے پاس دولت نہیں ہے تو خواہ جتنی چاہو محبت کرو، اپنا تن من دے دو ۔ جتنی اچھائی کرو۔ نیک، دیندار اور دانا ہو، مشکل میں کام آﺅ، کوئی تمہیں پوچھے گا بھی نہیں کہ کس باغ کی مولی ہو۔ آج کل مہر دوستی پیسہ کے ترازو میں تلتے ہیں۔ اسی لیے دانا کہتے ہیں ” پیسہ اپنے لیے رکھو روح لوگوں کے لیے“۔ جس طرح کھیت کے کھڈے اور شگاف پانی سے بھر جائیں تو وہ نظر نہیں آتے اسی طرح دولت انسان کے عیوب چھپا دیتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ چاندی کی میخ سے لوہے کا دروازہ بھی سوراخ ہوسکتا ہے۔
ہم اپنے ارد گرد روز و شب دیکھ رہے ہیں کہ دولت کی ہوس نے وبا کی صورت میں سارے علاقے کو جکڑ لیا ہے ۔ ہمارا بلوچستان بھی پیچھے نہیں رہا۔ ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ جائز ناجائز ایسا کاروبار کرے کہ راتوں رات امیر ہوجائے ۔ جو کوئی دولت اکٹھا کرنا نہ جانتا ہو وہ بے عقل و بزدل شمار ہوتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ میرے آپ کے سامنے چھ سات برس قبل چھوٹے چھوٹے گھروں میں غربت اور سادگی سے گزارہ کرنے والے لوگ آج بڑی بڑی حویلیوں کے ”الٹرا ماڈرن“ بنگلوں میں رہتے ہیں ۔ گدھے ، اشتر اور بائے سائیکل پر سوار ہونے والوں کی سواری آج آٹھ دس لاکھ کے سوک و پجارو اور نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں ہیں۔ وہ جن کی گرمی سردی سایہ اور دھوپ میں گزرتی تھی اب ایئر کنڈیشن اور پنکھے کے بغیر رہ نہیں سکتے ۔ پیازاور شوربے سے کھانا کھانے والوں کا گزارہ اب بغیر مرغ پلاﺅ ، کڑاہی ، پڈنگ و آئس کریم کے نہیں ہوتا۔ بھنے دانے اور تربوز کا بیج کھانے والوں کی جیبیں پستہ ، بادام، چیونگم اور چاکلیٹ سے بھری ہیں۔ سٹور اس قدر بھرے کہ چھلک جاتے ہیں۔
اگر زر اور دولت ہوتو رسم ورواجوں کا بدل جانا لازم ہوتا ہے ۔ انسان جب ترقی کرتا ہے تو ظاہر ہے آگے جاتا ہے پیچھے نہیں۔ مگر گندی چیز اس مقابلے کی بدنیتی ہے ۔کہتے ہیں گھوڑی نے خود کو نعل پہنایا تو مرغی نے خود کو کیل لگادی۔کئی لوگ چکور کی چال چلنے کے لیے کوے کی طرح اچھل کر چل رہے ہیں۔
بہت سے گھروں میں میاں بیوی کی بڑی بڑی لڑائیاں جھگڑے اس بات پہ ہیں کہ تمہارے بھائی نے رنگین ٹی وی خریدا تو تم کیوں نہیں لیتے ؟ ۔ اُس کے بچے صبح انڈے ڈبل روتی کھاتے ہیں تو مجھے دیتے ہوئے تمہیں کیا موت آتی ہے ؟ ۔ اسی برابری کے بغض نے انسان کو خوار کردیا ہے ۔
اگر انسان اچھی طرح غور کرے تو اس کی ضرورتیں اتنی نہیں ہیں جتنی کہ وہ ہاتھ پاﺅں مارتا ہے ۔ مگر خدا مارے اس پلید نفس کو جس نے انسان کو اس قدر خوار و عذاب کیا ہے اور بھگائے رکھا ہے ۔ ایک بار عادت خراب ہوئی تو پھر ٹھیک ہونا قسمت سے ہی ہوتا ہے ۔ انہی غلط شدہ عادتوں کا خوف ہے کہ وہ زندگی کی ضروریات بڑھاتا رہتا ہے ۔ پہلے انسان کی ضرورتیں تین تھیں ۔ روٹی، کپڑا اور گھر۔ مگر اب صرف روٹی نہیں ہے ، گوشت چاول، سجی اور چرغہ ہے۔ ڈبل روٹی ، مکھن ، جام جیلی، فرنی اور کسٹرڈ ہیں ۔جسم کو ڈھانپنے کے لباس میں محض ویل ، چھینٹ یا خاکی و ملیشیا نہیں ، امریکہ اور جاپان کا گراں بہا کپڑا ہو۔ نرم و نازک سوٹ کچھ نہیں بھی تو دو ہزار سلائی والا ہو۔
کشیدہ کاری کی قسموں میں ”مرگ ئے پانچ، کپک ئے نال یا کہ چندن ئے ہارہ موسم “ہو۔ گھر ایک دو کمرے نہیں ۔ اگر تین منزلہ نہ ہو تو دو منزلہ تو ضرور ہو۔ پھر ڈرائنگ روم، بیڈروم ، ڈریسنگ روم ، ٹی وی لاﺅنج اور انیکسی ضروری ہیں۔ایک کار موٹر بی بی کی جدا، صاحب کی جدا، بچوں کو سکول لانے لے جانے کے لیے الگ ۔ پھر وی سی آر، فریج ، ایر کنڈیشن ، ڈائننگ ٹیبل ، ٹوسٹر ، جُو سر، روسٹر ، گرائنڈر ، بجلی کا شیور، شاور وغیرہ وغیرہ کیا کیا بلا بتر، جن کے بغیر آج زندگی بے معنی ہے ۔
دولت صرف شہروں میں نہیں ہے ۔ چھوٹے چھوٹے گاﺅں اور دیہی علاقے اس کے جلوے دیکھ رہے ہیں۔ ہوا جب چلتی ہے تو چو ہے کے بل میں بھی جاتی ہے ۔ ہر جگہ نو دو لتیے آتش بازی کرنے اور اپنے آس پاس چراغاں کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ طرح طرح سے دولت کے دکھاوے کی کوشش میں ہیں۔ اُن کی شادی بیاہ بڑے بڑے ہوٹلوں میںہوتی ہے ۔ غریب بلوچستان کے غریب لوگوں کے امیر شہر شالکوٹ (کوئٹہ) میں ایک ”سرینا“ ہوٹل کھل گیا ہے ۔ ہزار افراد کے کھانے پہ صرف لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
دلہن کے سنگھار کے لیے ما ہرکراچی سے منگوایا جاتا ہے ۔ ایک دن کے سنگھار کے لیے اٹھارہ ہزار مانگتا ہے اور کراچی آنے جانے کا جہاز کا ٹکٹ۔
پہلے میڈیکل چیک اپ کراچی میں ہوتا تھا ۔ اب نزلہ کھانسی کے علاج کے لیے لندن وامریکہ جاتے ہیں۔ اِن نودولتیوں میں تاجر، کارخانہ دار، رشوت خور سرکاری افسر، سمگلر ، منشیات فروش اور ناجائز طور پر مال ودولت جمع کرنے والے سب شامل ہیں ۔ ہمارے علاقے میں یہ بارش کا پہلا سرا ہے ۔ وہ جب برسے تو کیا خبر ،کیا سے کیا ہوجائے۔ ہوا کتنی بلند جاتی ہے ۔ خدا جانے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*