کلات نیشنل پارٹی

مشتمل حکمران ادارے ”کلات سٹیٹ کونسل “ کا ایک اجلاس مورخہ 25اپریل کو کلات میں منعقد ہوا۔ اس میں قبائلی سرداروں نے حکومت کلات کو چند مطالبات پیش کئے۔ ایک مطالبہ یہ تھا کہ حکومتِ کلات کے نظم ونسق کو اس نام نہاد سٹیٹ کونسل کے مکمل کنٹرول میں دیدیا جائے، اور قبائلی علاقوںمیں سرداروں کے موجودہ اختیارات میں مزید اضافہ کیا جائے ۔ یعنی سردار کو قبائل پر مکمل اختیار دے دیا جائے۔
ظاہر ہے کہ اس پہ کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کا شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ پارٹی نے سرداروں کے مطالبات کی مذمت کی ۔ پارٹی کے خیال میں سرداروں کے اِن مطالبات میں حکومت ِکلات کا شیرازہ بکھر جانے اور ریاستی عوام میں بے چینی اور بدامنی پھیلنے کا اندیشہ تھا۔پارٹی نے واضح کیا کہ ریاست کلات کے قبائل میں سے نصف سے زیادہ قبائل کو سٹیٹ کونسل میں برائے نام نمائندگی تک حاصل نہیں ہے۔ نیز مالیہ دِہ طبقہ کو بھی اس کو نسل میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ مالیہ دینے والے طبقے پر تو ریاست کلات کی تمام تر آمدنی کا دارومدار تھا۔ اس طبقے کا حق تو سٹیٹ کونسل کے ان نامزد ممبروں سے بدرجہا مقدم ہے جو حکومت کلات کے خزانہ میں اپنی آمدنی سے ایک کوڑی بھی داخل نہیں کرتے ۔ پارٹی نے واضح کیا کہ سرداروں نے اپنے قبیلوں کے مفاد میں آج تک کوئی کام نہیں کیا۔ بلکہ اس کے برعکس سرداروںنے قبائل کو اپنے مظالم سے جان بلب کر دیا ہے ۔سرداروں کو کلات کے امور میں کافی اختیارات حاصل رہے مگر انہوں نے ہمیشہ اِن اختیارات کو ”سٹیٹس کو “ کی بحالی کے لیے استعمال کیا۔سرداروں کا مقصد یہ تھا کہ حکومت کی طاقت کے بل بوتے پر ریاست کی قومی تحریک اور عوام کی بیداری کو کچل دیا جائے۔ حکومت سے اپنے قبائل پر مکمل کنٹرول حاصل کر نے کا مطالبہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ سرداروں کو اپنے قبائل کا اعتماد حاصل نہیں۔ حالانکہ اب تک قبائل انہی سرداروں کے قبضہِ اقتدار میں ہیں۔
کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی نے اپنی یہ رائے دہرائی کہ ریاستِ کلات کے تمام مشکلات کاحل صرف وہ نمائندہ حکومت کرسکتی ہے جس میں تمام باشندگانِ ریاست کو بذریعہِ عام انتخابات حق نمائندگی حاصل ہو۔

کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے قیام سے پہلے ریاستی بلوچستان میں سرداروں کی عوام پر گرفت بہت سخت تھی۔وہ لوگ عوام کے استحصال اور لوٹ کھسوٹ کے لیے ریاستی انتظامی مشینری پر حاوی تھے۔ اور یوں دونوں حصہ دار بن کر عوام کی زندگی قیامت بنائے ہوئے تھے ۔کسان عوام پر طرح طرح کے ناروا ٹیکس عائد تھے ۔ ان ٹیکسوں کی جبری وصولی اور بیگار جیسے غیر انسانی معاملات میں لوگوں کو ذاتی جیلوں میں بند رکھا جاتا تھا۔ اُن کے گھر قبضے میں لیے جاتے تھے۔ اوران کو زمینوں سے بید خل کیا جاتا ۔اور ان کے عزیزوں کو یرغمال بنا کر رکھا جاتا تھا۔
اقتدار پر خان محمود خان بیٹھا تھا جسے ریاستی امور سے بالکل بھی دلچسپی نہ تھی۔ عیش و عشرت میں غرق اِس خان نے جبر کی ایسی مشنری قائم کردی جو کسی طرح کے بھی استبدادی اقدامات سے نہیں ہچکچاتی تھی۔
کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی اچھی خاصی عوامی حمایت حاصل کر چکی تھی لہذا وہ اٹھی ۔اور اس نے عوام کی شراکت اور ذمہ دار حکومت کے قیام اور ظلم ، فساد اور لاقانونیت کا خاتمہ کرنے کے مطالبات کو اپنی جدوجہد کا مرکزبنا لیا۔اسی لیے عوام الناس نے دل وجان سے اس کی حمایت کی ۔
محمود خان کی وفات کے بعد پارٹی کی سرگرم حمایتی جدوجہد کے بعد اعظم ، خانِ کلات بنا تو پارٹی خوش تھی کہ اُس کا ”اپنا آدمی “ تخت پہ ہے اس لیے عوام کے لیے بہت سی اصلاحات کرائی جاسکیں گی۔ مگر جونہی اعظم بادشاہ بنا، وہ اپنی ہر بات سے پھر گیا ۔ حکمرانی سے پہلے پارٹی سے اعظم خان کا جو رویہ تھا وہ حکمران بننے کے بعد بدل گیا۔ جبکہ سردار ،پارٹی کی مخالفت میں ابتداءسے ہی سرگرم عمل تھے ۔ انہیں وزیراعظم کلات اور پولیٹیکل ایجنٹ کی آشیر باد حاصل تھی۔ پارٹی کی اس سے باندھی ہوئی ساری توقعات خاک ہوگئیں ۔ نیشنل پارٹی اپنی روما نٹسزم میں بھول گئی تھی کہ گھوڑا گھاس سے یاری کر لے تو بھوکا مر جائے گا۔ ریاست کا بادشاہ عوام سے دوستی کرلے تو وہ بادشاہ تونہیں رہے گا ناں!۔
چنانچہ کچھ نہ ہوا۔ پارٹی خانی کو ختم کرنے کے بجائے اعظم کو خان بنانے کی اپنی جدوجہد پر نادم ہوئی۔ ناکامی کے زخم چاٹتے چاٹتے نیا لائحہ عمل سوچتی رہی۔
اسی دوران اعظم خان مرگیا اور احمد یار خان بادشاہ بن گیا۔
1933سے 1937تک احمد یار خان کا رویہ بھی پارٹی کے متعلق مستبدانہ رہا۔ خان میر احمد یار خان نے شروع میں تو پارٹی کے بارے میں اعظم والا طرزعمل جاری رکھا مگر اُسے جلد اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ پارٹی اب تو اچھی خاصی مضبوط ہے ۔ اور عوام کے ہر طبقے کی حمایت پارٹی کو حاصل ہے ۔ اس لیے اُسے نظر انداز کرنا غلط ہوگا۔ 1937میں پارٹی کی مقبولیت اور عوام میں اسے حاصل پذیرائی سے خان میر احمد یار خان تو اس نے پارٹی کے نقطہ نظر کا لحاظ رکھتے ہوئے ریاست میں غیر معمولی اصلاحات لانا منظور کر لیا۔ ان اصلاحات کی تفصیل یہ ہے ۔

1۔ مساوی عوضانہ خون

بلوچستان میں مروج قبائلی رسم و رواج کے مطابق جت، نقیب ، درزادہ ، غلام ، ڈومب(لوڑی) اور مریٹا لوگوں کاخون بہا دوسرے بلوچ باشندوں کی بہ نسبت بہت کم تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ اگر آپس کی لڑائی مےں ایک طرف سے ایک”اصلی“ بلوچ مارا جاتا اور دوسری طرف سے تین جت یا نقیب وغیرہ مارے جاتے‘ تب بھی جت یا نقیب مقتولین کے ورثاءکو ‘مزید چار پانچ سو روپے بلوچ مقتول کے ورثاءکو بطور عوضانہ دینے پڑتے تھے ۔ عموماً پانچ جت یا اسی سماجی مرتبہ کے دیگر پانچ باشندوں کا عوضانہ ایک” اصلی“ بلوچ باشندے کے خون بہاکے برابر ہوتا تھا۔
ایک نجیب و اشرف سیاسی پارٹی کے بطورنیشنل پارٹی بنیادی طورپر اس بات کے ہی خلاف تھی کہ خون بہا دے کر قاتل‘ قید کی سنگین سزا سے بچ جائے۔ لیکن اُس کا یہ مدعا ایک پھلانگ سے تو پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لےے پہلے قدم کے طور پر پارٹی نے ریاست کلات کے تمام باشندوں کے لےے بلا لحاظ قبائل و سماجی مرتبہ مساویانہ خون بہامقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ ایک متفقہ قرار داد مےں پارٹی نے خانِ کلات اور اراکین سٹیٹ کونسل سے مطالبہ کیا کہ ریاست کے تمام باشندوں کے لےے بلا لحاظ قبائل و سماجی مرتبہ و نسب مساوی خون بہا مقرر ہو۔ ریاست کے اُس وقت کے تمام بڑے شہروںبھاگ ، لہڑی ، ڈھاڈر ، مستنگ ، خضدار ، پنجگور اور تربت مےں عوامی جلسوں کا انتظام کیا گیا۔ بڑے بڑے جلوس نکالے گئے اور مقامی جرگوں کے سامنے مظاہرے کرائے گئے ۔
۔۔۔۔۔چنانچہ سٹیٹ کونسل نے نیشنل پارٹی کے مطالبے کو جس کی پشت پر ریاست کلات کی آدھی آبادی کھڑی تھی، متفقہ طور پر منظور کرنے ،اور ریاست کے تمام باشندوں کے لےے مساوی خون بہا مقرر کرنے کا فیصلہ کردیا۔

2۔ٹیکسوں کی منسوخی

بلوچستان کی حکومت اہل مکران سے ”زرِ سر“ کے نام سے سالانہ ٹیکس لیا کرتی تھی ۔ اس ٹیکس کی شرح ہر مرد ، عورت، بچے اور بوڑھے پر دو آنے فی کس مقرر تھی۔
اسی طرح ”زرشاہ“ بھی اسی شرح سے وصول کیا جاتا تھا ۔
ان محاصل کا نصف حصہ ریاستی خزانے میں جمع ہوتا تھااور نصف پنجگور ، تربت اور تمپ کے گچکی سردار وںکو ملا کرتا تھا۔
خان احمد یار خان جب مکران کے دورے پر روانہ ہوا تو کلات سٹیٹ نیشنل پارٹی نے اس ٹیکس کو ناجائز قرار دیا اوراس کی تنسیخ کا مطالبہ کیا۔ جونہی خان تربت پہنچا پارٹی کے ایک رہنما حاجی عبدالسلام نے جو نیشنل پارٹی مکران کا صدر تھا،تین ہزار افراد کا ایک جلوس نکالا۔ اور خان کی قیام گاہ کے سامنے مظاہرہ کیا ۔پارٹی کے تین نوجوان اراکین نے دو روز تک بھوک ہڑتال کی ۔خان آف کلات نے گچکی سرداروں کی رضامندی سے ”زرِسر“ اور ”زرِشاہ“ کے زمانہِ قدیم سے مقرر ٹیکسوں کی منسوخی کا اعلان کردیا۔

3۔ بیگار کی بندش

بلوچستان کی حکومت بھی عجیب حکومت تھی۔ یہاں طبقاتی صورت بالکل نسل پرستی جیسی تھی ۔ یہاںعام قبائل سے وابستہ عوام تواونچے درجے کے ہوتے تھے۔ مگر کاشتکاری سے وابستہ لوگ دوسرے درجے کے شہری تھے۔
ریاست بھر مےں حکومت غیر قبائلی عوام یعنی ریاست کے مالیہ دینے والے طبقہ سے مفت جبری محنت یعنی بیگار لیا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ ان کے اونٹ اور بیل بھی بیگار مےںپکڑے جاتے تھے۔ اہلکاروں کی طرف سے کئی کئی دن اُن جانوروںسے مفت کام لینے کے بعد انہیںزخمی اور بھوکے حالت مےں واپس کردیا جاتا تھا۔ ستم یہ کہ اس دوران نہ تو بیگاری میں پکڑے جانے والے جانوروں کو چارہ دیا جاتا تھااور نہ ہی ان افراد کوکھانا دیا جاتا تھا جو ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ مکراُن مےں وہ منظر انتہائی درد ناک ہوتا تھا جب حکومت کا کوئی ملازم کسی بلوچ کے بیگار مےں پکڑے ہوئے اونٹ پر سوار ہوکراُسے دوڑائے جارہا ہوتا اور پیچھے پیچھے وہ غریب تن بدن سے نیم عریاں ،اورپاﺅں سے ننگا بلوچ ،گرم دھوپ مےں بھاگ رہاہوتا تھا تاکہ بروقت منزل پر پہنچ کر اُس ملازم کے لیے پانی ڈھونے اور جنگل سے لکڑیاں توڑ کر لانے کا بندوبست کرسکے۔ اس کے علاوہ اپنے اونٹ کے لیے بھی گھاس چارہ جمع کرسکے۔
مکران اور کچھی مےں یہ بیگار قابلِ نفرت صورتوں مےں رائج تھی۔
نیشنل پارٹی نے اس ظلم کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے اس کی منسوخی کا شدت سے مطالبہ کیا۔ خان کلات نے پارٹی کے مطالبہ کو منظور کر کے ایک فرمان کے ذریعے تمام ریاست کلات مےں ہر قسم کے بیگار لینے کی منسوخی کا اعلان کردیا۔

4۔ مالی، بجار اور پُرس کی تنسیخ

مندرجہ بالا ٹیکس ایسے تھے جو قبائلی سردار اپنے اپنے قبیلوںسے وصول کیا کرتے تھے ۔
مالیسالانہ ٹیکس تھا جو سردار اپنے قبیلہ کے ہر گھر سے بصورت ایک دنبہ یا اس کی قیمت پانچ روپے نقد وصول کیا کر تا تھا۔
بجارابتدائی دور مےں ایک اختیاری اور امدادی چندہ تھا جو شادی بیاہ یا کسی دوسری اہم ضرور ت کے موقع پر قبیلہ کے افراد اپنے سردار کو دیا کرتے تھے ۔ لیکن رفتہ رفتہ ‘بالخصوص انگریزی دور مےں سردار اُسے موروثی حق کے طور پر جبراً وصول کرنے لگے تھے۔ چونکہ اس کی وصولی کے لےے کوئی معیار مقرر نہ تھا اس لےے سال مےں کئی کئی بار نہ صرف قبیلہ کے سردار بلکہ سردار کے گھرانے کا ہر فرد،بجار وصول کرنے ،قبیلہ پر چڑھ دوڑتا تھا۔ یہاں تک کہ سردار صاحب نے نئی ماڈل کی کوئی موٹر کار خریدلی یا پھر کوئٹہ ، سبی یا کسی اور شہر مےں بنگلہ تعمیر کرنے کا ارادہ کرلیا تو اُس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لےے بھی اُس کے کارندے بجار وصول کرنے قبیلہ مےں نکل آتے تھے۔ اور انتہائی جبرو تشدد اور سینہ زوری سے حسبِ منشا قبائل کو لوٹ لیتے تھے۔
پُرس ایک ماتمی ٹیکس تھا۔ ابتدائی دور مےں بجار کی طرح یہ ٹیکس بھی امدادی اور اختیاری تھا۔ جب قبیلہ کا سردار، اُس کی کوئی اولاد یا کوئی قریبی رشتہ دار مرجاتا تو افراد ِقبیلہ مال مویشی یا نقدی کی صورت مےں سردار کے جانشین یا سردار کو جیسی بھی صورت ہوتی ، ماتمی اخراجات کے لیے حسب ِ مقدور کچھ نہ کچھ امداد دے دیا کرتے تھے ۔لیکن بعد ازاں انگریزی دور مےںقبائل پر ظلم و ستم کی کھلی اجازت حاصل کر کے یہ ٹیکس بھی جبراً وصول کیا جانے لگا۔
گٹہ ٹیکس بھیڑ بکریوں پر لیا جاتا تھا۔
آپ تصور کرلیں کہ اُس زمانے میں سردار کس قدر طاقتور ہوا کرتے تھے۔ اور اِن سرداری ٹیکسوں کی منسوخی کا مطالبہ کرنا سرداروں کے منہ کا نوالہ چھیننے کے مترادف تھا۔ اور اُس مطالبے پر بلوچستان بھر کے قبائلی سرداروں کی متفقہ اور شدید مخالفت کا سامناہونایقینی بات تھی۔
بہرحال نیشنل پارٹی نے قبائل کو مالی ، بجار اور پرس دینے سے انکارکرنے پر اکسانے کا کام کیا۔ بہ یک وقت ان معاملات مےں افسران سے جو کہ زیادہ تر نیشنل پارٹی کے ممبر تھے کہا گیا کہ وہ سرداروں کے معاملات کو یا تو نظر اندازکردیں یا انہےں تصفیہ کرانے مےں اِس قدر ڈھیل دے دیںکہ سردار خود اپنے مقدمہ کی پیروی کرنے سے عاجز آجائےں۔
بلوچستانی اخبارات نے (جوسندھ کے مختلف شہروں سے شائع ہواکرتے تھے )، سردار کے خلاف قبائل کو مالی ، بجار اور پرس نہ دینے پر اکسانے میں بہت بڑا ور قابل قدر کام کیا۔ چار سال پہلے سے محمد نسیم تلوی، محمد حسین عنقا، اورمحمد اسلم اچکزئی نے اپنے اخبارات کے گراں قدر مقالوں کے ذریعے ان ٹیکسوں کے خلاف پیہم پروپیگنڈہ کی مہم شروع کر رکھی تھی۔
چنانچہ سب سے پہلے جلاوان کے قبائل نے اپنے سرداروں کو مالی ، بجار اور پرس دینے سے انکار کردیا۔ سردار زہری خان موسیانی جیسے سردار کو اس سلسلے مےں مولہ مےںبڑی دقتوں کا سامنا ہوا۔ سردار رسول بخش زرک زئی کو درہ مولا مےں نڑ کے مقام پر اپنے ہی مسلح قبائلیوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ سردار رسول بخش ساسولی کے نائب کو قتل کردیا گیا اور سردار رسول بخش مینگل کو اپنے قبیلہ کے ہاتھوں وڈھ چھوڑ کر لسبیلہ میں پناہ لینا پڑی۔ بپھرے ہوئے عوام کے مقابلہ مےںبڑے بڑے گرگ صفت سردار وں کی ایسی ناکامی اور شکست‘ اورپھرحکومت کی پر اسرار خاموشی دیکھ کرجہلاوان کے دوسرے چھوٹے موٹے سردار دم بخود رہ گئے ۔
سراوان کے سردار جہلاوان کو دیکھ رہے تھے۔ جب انہوںنے جہلاوان کے سرداروں کا حشر دیکھ لیا تو وہ بھی ہمت ہار بیٹھے۔ اور انہوں نے از خود مالی ، بجار اورپُرس کے ٹیکس معاف کرنے کا اعلان کردیا۔

 

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*