شاہ مرید منظر در منظر

( پہلا منظر )

حانی زرّیں دور تھا وہ
حانی اب جب یاد کروں تو روتا ہوں
ڈاڈر ارض ِ پاک تھا گویا
سیوی جنّت کا نقشہ
تیر اندازی کی مشقیں تھیں
گُھڑ تاچی کے میلے تھے
اُونٹوں کی نا ختم قطاریں آگے آگے چلتی تھیں
تیغوں کی بَجتی شہنائی بجلی بن کر گرتی تھی
جنگی مشقوں میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی وہ دُھند نہ چَھٹنے والی تھی
ہاں ! دُھند نہ چَھٹنے والی تھی
حانی اب جب یاد کروں تو روتا ہوں

(دوسرا منظر )

حانی زرّیں دور تھا وہ
چاکر اور گُہرام کی سنگت دنیا گایا کرتی تھی
رِندوں اور لاشار کی طاقت دنیا گایا کرتی تھی
سیوی رِندوں کا مسکن تھا ‘ گنداوہ لاشاروں کا
چاکر اور گُہرام کے سینے بُغض و ریا سے خالی تھے
چاکر اور گُہرام کی آنکھیں ہر دُکھ سُکھ میں یکتا تھیں
رِندوں اور لاشار کی آنکھیں ہر دُکھ سُکھ میں یکتا تھیں
اُونٹوں کی نا ختم قطاریں
تیغوں کی بجتی شہنائی
گھوڑوں کی ٹاپوں کی دستک
تیر اندازی کی مشقیں
چاکر اور گُہرام کی تلواریں دشمن پر چلتی تھیں
چاکر اور گُہرام کے سینے ڈھال تھے اِک دوجے کے لئیے
تیغ برستے رِندوں پر تو لاشاروں کے سینے تھے
برق گرجتی لاشاروں پر تو رِندوں کے سینے تھے
چاکر اور گُہرام کی سنگت دنیا گایا کرتی تھی

( تیسرا منظر )

حانی وقت نے پانسہ پلٹا
منظر میں اب جنگی گھوڑوں کی ٹاپیں
لاشاری لشکر کی چیخیں
رِندوں کی سِسکی سُنتا ہوں
چاکر کی بُجھتی سانسوں کی غُوں غاں میں
میراں کا نوحہ پڑھتا ہوں
بیورغ اچھّا تھا مرجاتا
چاکر کو اِک سیلِ آب بہا لے جاتا
گُہرام اپنی تیغ تلے کٹ کر مر جاتا
جاڈو کاسہ لیسی کرتا بہتر تھا
یہ نوبت تو مِٹ جاتی

( چوتھا منظر )

اِک منظر خونی تیغ تلے پھر سُرخ ہوا
پھر چند اُونٹوں کے بدلے میں اِک زرّیں عہد کا قتل ہوا
پھر ڈاڈر گھوڑوں کی ٹاپوں سے گُونج اُٹھا
پِھر گنداوہ کا خُون ہوا
پِھر سیوی کی گلیوں میں موت کا رقص ہوا
وہ ڈاڈر جس میں رِندوں کے دیوان جمے ‘ سو خاک ہوا
وہ گنداوہ جس میں چِڑیوں کی چِہکاروں کی خُوشبو تھی
وہ خُوشبو ہم سے رُوٹھ گئی
وہ سیوی جس میں کویل کی کُوکُو بستی تھی
اب آہوں کی ڈھیری ہے
اِک راکھ اُڑا کرتی ہے اکثر آنکھوں میں
اِک دُھول سی اَٹکھیلی بھرتی ہے سانسوں میں
ہر شئے ہے مایہ

(پانچواں منظر )

اَب آنکھیں زہر تلاوت کرتی ہیں
لب پر زخمی نالے ہیں
چِڑیوں کی چِہکاروں میں بھی مکڑی نے جالے تانے ہیں
پیڑوں کی سرگوشی میں اب اَژدر کی پھنکاریں ہیں
ہر سرگوشی جیسے گُم ہو
کویل کی کُوکُو مدھم ہو
برگد کی شاخوں پر بیٹھے سارے پنچھی دُور دِشاؤں میں کھوئے
ڈاڈر کی گلیاں سُونی ہیں سیوی کا غم کون سُنے
جنگی طبلوں کی دھم دھم میں طوطی کی پِھر کون سُنے

(چَھٹا منظر )

گرد میں لِپٹا اِک منظر تھا اور ہر منظر پتّھر تھا
صحرا سنگ آسا وحشت تھا اور سمندر پتّھر تھا

ایک فصیلِ بے روزن کا ہر دروازہ بے دستک
ہر آہٹ پر چونک اُٹھتے ہم دل اُس در پر پتّھر تھا

مور ملخ کے لشکر آگے ہُدہُدِ شاہی بال پراں
ایک سلیماں بخت کا سایہ دوش ہوا پر پتّھر تھا

چاکر و گُہرامی لشکر کے سِینے تھے یا تیغ تبر
گوہر بُت بن کر تکتی تھی اور اِک لشکر پتّھر تھا

شاہ مرید کی آنکھیں پتّھر ‘ دل پتّھر تھا ‘ لب پتّھر
حانی سر تا پا وحشت تھی یعنی چاکر پتّھر تھا

(ساتواں منظر )

حانی اِک ویران کدہ میں آ نکلا ہوں
ذرّہ ذرّہ میں ویرانی رقص کناں ہے
چَپّہ چَپّہ میں تنہائی بول رہی ہے
دُھول میں لِپٹے مَست بگولے کوسوں کوسوں دِکھتے ہیں
سیوی جذبوں کا مرقد ہے
ڈاڈر مست بگولوں کا
گنداوہ درس ِ عبرت ہے کُتّوں کی بھونکاروں میں

ایک بگولا آہستہ چُھو جاتا ہے
اور خیالوں کی رو یکدم کٹ جاتی ہے

حانی صدیوں کی بَھٹّی میں اِک جُھلسا پَل زندہ ہے
پنکھ پسارے اِک ٹہنی پر زخمی کویل زندہ ہے
چاروں اور اداسی ہے اور چاروں اور بگولے ہیں
اِس ویران کدہ میں تنہا بس اِک پاگل زندہ ہے
تیرا پاگل زندہ ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*