گھڑی کی ٹوٹی ہوئی سوئی

اس کی ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ الماریاں، درازوں، کمرے اور برآمدے میں حتیٰ کہ صحن کے کونے کونے میں تلاش کرنے کے باوجود گھڑی کی ٹوٹی ہوئی سوئی نہیں ملی۔
وال کلاک کے ٹِک ٹِک کے باوجود وہ وقت دیکھنے او رسمجھنے سے قاصر تھا۔ اسے ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے وقت اس کے ہاتھوں سے نکلا جارہا تھا یا شاید وہ وقت کے ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ اس نے وال کلاک کو دیوار سے اتارا اسے اوپر نیچے کیا، خاصاجھنجوڑا مگر گھنٹے والی سوئی کہیں نہیں ملی ۔ مایوس ہوکر اس نے والا کلاک کو دوبارہ دیوار پہ سجا دیا اور کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ کر وقت کے بارے میں ،وقت کو جاننے کے بارے میں سوچنے لگا۔ تنہائی اور اندھیرے نے اس کے اعصاب شل کر دیئے تھے۔ اب اسے یاد ہی نہیں رہا تھاکہ کب سے اور کتنے دنوں سے وہ اس کمرے میں مقید تھا۔
تنہائی کتنی بڑی سزا ہے او ر اردگرد سے دوری کتنا بڑا عذاب …. اسے اب اس کا اندازہ ہورہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر سب کو آواز دے …. سب کو اپنے پاس بلا کر وقت کی شکایت کرے ۔ وقت کے روٹھنے کا نوحہ بیان کرے مگر وہ ایساانہیں کر پا رہا تھا۔ اس کی آواز حلق میں گھٹ کر رہ گئی تھی۔ اسے سانس لینے میں تکلیف محسوس ہورہی تھی۔ جسم کی بڑھتی حرارت نے اس سے ہلنے اور چلنے پھرنے کی سکت چھین لی تھی۔ اس نے اِن ہیلرسے کچھ سانسیں بحال کرتے ہوئے اپنی بیوی کو آواز دی …. مگر کوئی جواب نہیں آیا۔اسے محسوس ہوا جیسے گھڑی کے بے مصرف ٹک ٹک کی آواز میں اس کی آواز دب سی گئی ہے۔ وہ وقت کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھا۔ اُسے وقت سے نکل کر جینے میں بڑی وقت محسوس ہورہی تھی۔ جانے کس وقت پہلو بدلتے بدلتے اسے نیند آگئی تھی۔
وقت اس کے سونے جاگنے سے بے نیاز اپنی رفتار سے بڑھتا گھٹتا جارہا تھا۔ٹک ٹک کر تی زندگی کے احساس کو جاگنے پر ہی کوئی معنی دیئے جا سکتے تھے ۔ خاموشی کو توڑتی ہوئی خشک کھانسی نے اس کی نیند کو شکست دے دی۔ سینے کی جکڑن نے درد کی شکل اختیار کرلی تھی۔ کمرے کے نیم اندھیرے میں اس نے ہاتھ بڑھا کر پہلو میں رکھے دوا کی بوتل اٹھائی ایک دو سپ لینے کے بعد ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ چند لمحوں میں کھانسی ، درد او رگھٹن میں کمی محسوس ہونے لگی۔
پرندوں کی چہچہاہٹ نے اسے کمرے سے باہر زندگی کے جاگنے کا پیغام دیا تو اتنے دنوں بعد اسے وقت کا اندازہ ہوا۔ اس نے پرندوںکو صحن میں ایک دوسرے سے ہم جولیوں کی طرح ملتے اورایک دوسرے کو آوازیں دیتے سنا تو ذرا دیر کو خوشی محسوس کرنے لگا۔پرندوں پر ایک دوسرے سے ملنے ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کو پیارکرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ انہیں کسی وائرس کا کوئی خطرہ نہیں۔ وہ اسی سوچ میں تھا کہ دوسرے لمحے اسے کھڑکی کے پاس آہٹ سی محسوس ہوئی ۔ ایک کالے بلے کی باہر نکلتی ہوئی آلودہ زبان دیکھ کر وہ گھبرا سا گیا۔ اس کے پنجے میں گھڑی کی سوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ لپک کر اس کے پنجے سے گھڑی کی سوئی لے آتا ۔ کالا بلّاچڑیوں کو دیکھ رہا تھا اور دوسرے لمحے ان پر لپک کر انہیں دبوچنے ہی والا تھا۔
وہ سوچ رہا تھاکہ ان چڑیوں کا وقت پورا ہونے والا ہے۔ یہ کوارنٹین میں ہوتیں تو کسی پنجرے میں قید ہوتیں اور بچ جاتیں۔ ابھی گھڑی کی سوئی اورچڑیوں کی سوئی دونوں کالے بلے کے رحم و کرم پر تھے۔
اسے وقت کو بچانا ہے یا چڑیوںکو ابھی یہ فیصلہ مشکل تھا۔
اچانک اس کے وفادار کتے موتی کی آنکھ کھل گئی او روہ تیزی سے کالے بلے کی طرف لپکا۔ چڑیوں کا غول یک دم اڑ گیا۔ کالا بلا جان بچانے کے لئے گیلری کی پشت سے گرا اور بھاگ نکلا۔ گھڑی کی سوئی بلے کے پنجے سے اس کے سامنے آگری۔ موتی کے بھونکنے کے ساتھ کالا بلا بوکھلا گیا۔اب کھڑکی کا پٹ اس کے دم کو دبوچ چکا تھا۔ چڑیوں نے ایک غول کی صورت ہوا میں اڑان بھری اور کالے بلے سے جان چھڑائی۔موتی نے کھڑکی کی طرف چھلانگ لگا ئی مگر وہ کالے بلے کو دبوچنے میں ناکام رہا۔اس نے وال کلاک کی سوئی لٹکا دی۔ اب وقت دوبارہ اپنی ترتیب میں آچکا تھا۔
کالے بلے کی سازش سامنے آگئی تھی اور اب شکاری خود شکار ہونے چلا تھا۔
موتی نے ذرا سا پیچھے جا کر تیزی سے کھڑکی کی طرف اڑان بھری او رکالے بلے کو گردن سے دبوچ کر واپس زمین پرآ دھمکا۔ کالے بلے نے بہت ہاتھ مارے مگر ناکام رہا۔ موتی اسے گھسیٹتے ہوئے موڑ مڑ چکا تھا۔
ویران گلی کے سناٹے کی طرف دیکھ کر اس نے خود سے پوچھا” کیا بلا اور چڑیوںکے درمیان اب انسانوں کا کوئی کردار رہا؟ ۔کیا وہ سب کو رینٹین ہوگئے ؟
ایک دوسرے سے دور ہوگئے؟

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*