پری ہسٹاریکل بلوچستان

کتاب کا نام: پری ہسٹاریکل بلوچستان
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: 160
قیمت : 400 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
کسی نے بہت ہی خوب صورت اور بڑے کام کی بات کی ہے کہ ” تاریخ کامطالعہ کرو، تاریخ سے واقفیت حاصل کروکیوں کہ اس میں سیاسی تدبیر کے راز پنہاں ہیں©“۔سو ہم نے اس قول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تاریخ سے واقفیت چاہی اور مختلف کتابیں پڑھنا شروع کیں ۔ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتاب ُ پری ہسٹاریکل بلوچستان ‘بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اکرم دوست صاحب کے خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ کتاب ویسے ہی پڑھنے کی جانب Attract کرتی ہے لہٰذا مزید صبر کیے بنا کتاب پڑھنا شروع کر دی۔
یہ کتاب پانچ چیپٹرز پر مشتمل ہے۔
بلوچستان کی جیالوجیکل ساخت ؛ پہلا باب : مری صاحب نے ہر باب کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے اسے مزید خوبصورت اور واضح کر دیا ہے۔ رقصِ درویش کا آغاز بگ بینگ سے ہوا کہ ایک بہت بڑے دھماکے کے نتیجے میں یہ دنیا وجود میں آگئی ۔ زمین کا پھیلاﺅ شروع ہو گیا ، آج تک یہ عمل جاری و ساری ہے۔ آہستہ آہستہ سورج اور پھر ا س کے گرد سیارے بنتے چلے گئے۔ یہاں وہ گلیلیو کی بتائی گئی تھیوری پر بھی بات کرتے ہیں کہ زمین نہ صر ف سورج کے گرد گھومتی ہے بلکہ یہ اپنے محور کے گرد بھی گھومتی ہے۔
بلوچستان کی اولین عشقیہ داستان میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ، ”ہمارا بلوچستان دو بلوچستانوں سے مل کر بنا ہے ۔ ملینوں سال قبل آج کے مغربی بلوچستان کی چاہت میں زمین کا ایک بہت بڑا ٹکڑاقطب جنوبی والی برف سے منجمد زمین سے علیحدہ ہو گیا اور اس نے آخر زمین کے ایک اور بڑے ٹکڑے کو ہزاروں میل پرے دھکیل دیا اور خود مشرقی بلوچستان بن کرمغربی بلوچستان کے پہلو میں پیوست ہو گیا ۔ دوسرے لفظوں میں پورا برِصغیر پاک و ہند مشرقی بلوچستان تک ہند آسٹریلیائی پلیٹ پر مشتمل ہے ۔“اس سب کو انھوں نے’ آسٹریلیا کا پنوں مکران کی سسی ‘کا نام دیا۔
بلوچستان…. زندگی کا رحمِ مادر؛ کتاب کا دوسرا چیپٹر:چار کروڑ ستر لاکھ سال قبل کا بلوچستان: چیپٹر کا یہ حصہ بتاتا ہے کہ بلوچستان ہمیشہ سے خشک اور بنجر نہیںتھا بلکہ یہ علاقہ گھنے سرسبز جنگل سے ڈھکا ہوا تھا اور اس کا ثبوت وہ روڈھوسس بلوچستانی سس( پونے پانچ کروڑسال قبل کی بارکھان کی وہیل مچھلی) اور بلوچی تھیریم کا دیتے ہیں ۔ روڈھوسس بلوچستانی سس کے فاسلز جو مشرقی بلوچستان کے علاقے رکھنی میں لاکھا کچ لوھما میںکِن دت کے مقام پر ملے اوربلوچی تھیریم ( ساڈھے تین کروڑ سال قبل کا بلوچستان) نامی ایک ممالیہ کے فاسلز ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں دریافت ہوئے۔ اور یہ سب ایسے ہی علاقے میں ممکن تھا کہ جہاں گھنے جنگلات ہوں ، پانی کی فراوانی ہو۔
اشرف المخلوقات …. انسان: کتاب کے تیسرے باب میں ڈارون کے مختلف نظریات دیے گئے ہیں کہ آخر انسان کی ابتدا ہوئی کیسے۔ کہیں بتایا گیا کہ انسان ۰۸ لاکھ سال پہلے درختوں پر ایپ کی طرح کے جاندار سے شروع ہوا ۔ پھر بتایا گیا کہ ا نسان جانوروں کی مخلوق سے آیا۔
انسان جس طرح سے بھی آیا لیکن اس کے ارتقائی عمل اور اس کے کمالات دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ وہ انسان جو صرف شکار اور ماہی گیری کرتا تھا ، جڑیں ، کیڑے ، گھونگے چنتا تھا اور پھر وہ وقت آیا کہ اس نے ہاتھ کی انگلیوں کو مکا بنانا سیکھا ، درختوں پر پتھر مار کر پھل حاصل کرنے لگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہاتھ کی کرامات دیکھئے کہ اوزار بنانا، عصا ، کلہاڑی بنانا سیکھی۔ ایک بہت بڑی بات یہ کہ آگ کو اپنے تابع کر لیا۔ شکار کرنا، مٹی کے برتن بنانا…. اے انسان تو کتنا عظیم ہے!
ایک بہت مزے کی بات جو میں ضرور کرنا چاہوں گی وہ یہ کہ بہت سے ایسے کام جن کی ابتدا کا کریڈٹ عورت کو جاتا ہے، مری صاحب نے خصوصاً بیان کیے ہیں کہ ،” زمین جوتنا، اناج پیسنا،خوراک تیار کرنا، دھاگہ بنا کر لباس تیار کنا، برتن اور زیورات بنانا، آگ کو محفوظ کرنا، باغبانی کرنا۔ خاص طور پر زراعت کی ابتدا اس نے کی۔ دنیا کے مختلف خطوں میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران عورتوں کی قبروں سے ملنے والی اشیا، درانتی، آٹا پیسنے کا پتھر، چمچے، تکلا وغیرہ ان دیو مالائی قصوں کو خاصی حد تک سچا ثابت کرتے ہیں۔ زرعی معاشروں میں عورت زراعت کی ابتداکرنے کی وجہ سے زرخیزی کی علامت بن کر ابھری ۔“
دراصل شاعری اور ادب اگر معروض کے مطابق ہو اور وہ ہماری دسترس میں ہو، ہمیں ملے تویہ تاریخ کی حقیقتوں اور اس کی سچائی تک پہنچنے میںمدد کرتی ہے اور یہاں یہ ہے کہ مری صاحب کہتے ہیں کہ ہم صرف ۰۰۵ سال کے بلوچی ادب سے واقف ہیں لیکن ہم یہ ہر گز نہیں کہتے اورنہ ہی سمجھتے ہیں کہ ہم محض ۰۰۵ سال پرانے لوگ ہیں اس لیے کہ ہم مہرگڑھی ہیں اور یہ تہذیب ۰۰۰۱۱ سال پرانی ہے لیکن اس کے لیے ہمیں آرکیولوجی کی مزید دریافتوں کا انتظار رہے گا۔
مہر کا گڑھ ، بلوچستان : چو تھا باب : مہر گڑھ، جہاں دنیا کی قدیم ترین تہذیب دریافت ہوئی اور جو تقریباً ۰۰۰۹ سال پرانی ہے۔ اپنے ارتقائی عمل میں انسان نے گھاس ، جڑوں اور درختوں کی کاشت شروع کی اور اپنی خوراک کے ذرائع وسیع کر دیے۔ رفتہ رفتہ دال، گندم، جَو اور کھجور کی کاشت اسی دور میں شروع ہوگئی۔ آب پاشی اور تجارت کی ابتدا بھی اسی زمانے کی بات ہے۔ ایک مزے کی بات جو اس کتاب میں بتائی گئی وہ یہ کہ سماج میں فرق بھی تب موجود تھا اور یہ چیز اس بات سے پتہ چلی کہ قبروں کی کھدائی کے دوران دیکھا گیا کہ کچھ قبروں میں قیمتی پتھر اور زیورات بھی دفن تھے جب کہ بہت سے ایسے تھے جس میں میت کے ساتھ ایسی کوئی چیزدفن نہیں تھی۔ اور پھر تجارت کی شروعات ہوئی ایک اور مزے کی بات جو مری صاحب نے لکھی کہ تجارت نہ صرف اشیاکی بلکہ خیالات و نظریات کی بھی۔
سماج میں طاقت اور توازن کب عورت کے ہاتھ سے نکل کر مرد کے ہاتھ میں منتقل ہوا؟ جی یہ بات ہے، ۰۰۰۵ سال ق م کی جب مادرِ نسبتی اور اشتراکی نظام کے اس آخری مرحلے میں چاک سے برتن بننا شروع ہوتے ہیں۔اسی زمانے میں سماج میں اونچ نیچ کا آغاز ہوتا ہے۔ انسان ایک طرف تو پیداوار میں آسانیاں لاتے رہے اور دوسری طرف وہ مافوق الفطرت سوچ کا شکار ہوتے چلے گئے ۔ آخر وہ وقت آیا کہ سماج تو ترقی کر گیا لیکن ترکھان، کمہار اور سنار کو کم تر طبقہ سمجھا جانے لگا ۔ میرے خیال سے تو یہ وہ وقت تھا جو ترقی کے باوجود انسان ایک طرح سے مزید پیچھے چلاگیا۔
اس دور میں کوئی منظم مذہب نہ ہونے کے باوجود دیوی دیوتاﺅں کا غلبہ تھا ۔اس وقت کے امیر لوگوں نے جادو ، دم درود اور ڈرانا شروع کر دیا۔ مندر اسی دور میں بننے لگے ۔ مندر ہی خوش قسمتی اور بدقسمتی کا ڈھنڈھورا پیٹنے لگا اور لوگوں کو غیر منطقی امید اور خوف کا شکار کرنے لگے ۔ کرامات پر قبضہ ہوتا چلا گیا اور مری صاحب کہتے ہیں کہ کرامات پر قبضہ ہی اصل میں اقتدار پر قبضہ ہوتا ہے۔سائنس کو پیچھے کیا جانے لگا، جس نے ایک جامد سماج کی داغ بیل ڈالی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ،” سماج جمود کا شکار ہوتا گیا اور یہ جامد سماج ایک طرف قدرتی آفات اور دوسری طرف وحشی حملہ آوروں کے لیے آسان ہوتا گیا۔ سائنسی ترقی رک جانے سے یہ دونوں قوتیں ہزار گنا طاقت ور ہوتی جاتی ہیں۔اور خوف بڑھتا جاتا ہے۔ خوف تو عقائد کی ماں ہوتا ہے۔ عقائد پھر خوف کو جنم دیتے ہیں۔اور اس طرح دگنا ہوا خوف مزید عقیدہ پرستی کی طرف دھکیلتا جاتا ہے۔ یہ سائیکل کبھی نہیں ٹوٹتا ۔ عقیدہ، سائنس کی بہ نسبت سہل ہوتا ہے۔ چنانچہ دستکار اور کاشتکار زیردست بنا۔ اقتدار یعنی ریاست کی ابتدائی اور اولین تشکیل ہونے لگی۔“
موہن جو دڑو اور ہڑپہ ( مہر گڑھ کا بیٹا اور پوتا) پانچواں چیپٹر: اس باب میں بار بار یہ بات جو بتائی گئی کہ مہر گڑھ تباہ نہیں ہوا بلکہ نقل مکانی کر گیا۔سندھ میں آمری اور کوٹ ڈیجی کو آباد کرنے والوں کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ وہ مہرگڑھ سے گئے ہیں۔ اسی طرح مہر گڑھ سوئم سے لوگ ہڑپہ اور موہنجو دڑو کے علاقوں کی طرف چلے گئے۔موہن جو دڑو تعمیرکی ترقی یافتہ شکل ہے۔
ہمارے خطے کی انسانی تاریخ کا یہ پہلا حصہ ہے ۔ دیکھتے ہیں اگلی جلد میں کیا کچھ نئی معلومات ملتی ہیں، انتظار رہے گا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*