شاعر انساں ہی تو ہوتے ہیں۔۔

 

دلخراش کنچنائی فصیلوں سے گزرتے ہوئے
ہمیں سنائی دیتی ہیں۔
دم بھرتی بھاری سسکیاں،
پڑھنے پڑتے ہیں
سوانحئ مضامین،
دیکھنا پڑتا ہے
آبلوں سے پھٹے پیروں سے رِستا ہوا ٹنکچر۔۔۔۔!!
زیست کی آہ و بکا میں
رات کی راگنی کو جھٹک کر
دھان پان لگانے والوں کے
سر پر پناہ گاہ کیلئے نہ کوئی زمین ہے۔
نہ چلنے کیلئے کوئی ہموار آسمان،
قرطاسِ حیات پہ
ملبہِ ذات کے موقلم سے موت تحریر کرتے ہیں۔
شاعری موت ہی تو ہے۔
اک ان چاہی موت
جو اپنی گود میں لے کر پہروں بال بناتی،
نیّتی کی کوکھ سے وگھات جنم دھارتی ہے۔
شاعر عام ویکتیوں کی طرح تقریبات میں،
مہنگے سگریٹ کے برینڈز یا پوشاکِ ریشم
قابلِ قبول بنائے جانے کیلئے بدلتے ہیں۔
خلوتِ عشق سے لو لگا کر
مجذوبی کے پھندے پر خود کو ٹانک لیتے ہیں۔
کنچنائی فصیلوں پہ تَنی خوابگاہوں سے گزرے بغیر
کوئی انہیں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔

"شاعر انساں ہی تو ہوتے ہیں”۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*