فیڈل کاسٹرو

"پاکستان کے حکمرانوں اور ان کے دانشوروں کی زبانی ہم ہروقت سنتے رہتے ہیں کہ ہر ملک بین الاقوامی معاملات میں "اپنا” مفاد دیکھتا ہے-ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ فقرہ کسی بھی صورت اچھا فقرہ نہیں ہے-یہ انتہائی خودغرضی والے فلسفے کو عام انسانوں کے دماغ میں راسخ کرنے کی زبردست چال ہے- ایک ابلیسی اور وحشیانہ فلسفہ-یہ سامراجی نقطہ نگاہ ہے.
اصل بات یہ ہے کہ’اچھا ملک وہ ہے جو اپنے مفادات عمومی انسانی مفادات کے مطابق رکھے-جو عالمی امن,ماحولیات,ترقی خوشحالی اور جمہوریت کی مطابقت میں اپنے قومی آدرش متعین کرے -خود اپنی آزادای اور سالمیت برقرار رکھتے ہوئے کُل جہاں کی خیر کا سوچے اور اُس کے لیے کام کرے-
سوشلزم کی دنیا خامیوں کمزوریوں سے پاک تو نہیں-مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ نیکیوں,اچھائیوں میں اسقدر غنی اسقدر امیر ہے کہ موازنہ مشکل ہوجاتا ہے کہ کونسا سوشلسٹ ملک زیادہ انسان دوست ہے ,بین الاقوامیت پسند ہے -چلیں ہم مبالغہ سے بچنے کے لیے یوں کہتے ہیں:کیوبا میں بین الاقوامی یکجہتی کا مادہ بہت زیادہ ہے
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کیوبا نے جنوبی افریقہ میں بھی آزادای کی تحریک کی خوب مدد کی-اس نے وہاں نسل پرست سفید فام رجیم کو گرانے میں بہت مدد دی -جنوبی افریقہ کی سفید فام حکومت نہ صرف اپنے ملک میں نسل پرستی پر مبنی حکمرانی کررہی تھی بلکہ علاقہ بھر میں سامراج کے حلیف کا کام کررہی تھی-فیڈل کاسٹرو کی پاڑٹی نے فیصلہ کیا کہ جنوبی افریقہ کو پورے خطے میں بدمعاشی کرنے سے روکا جائے-کاسٹرو نے دیکھا کہ جنوبی افریقہ ‘انگولا میں بدصورت مداخلت کررہا ہےاور عوام کی مقبول عام حکومت اور تحریک کا گلا دبانے میں رجعتی اور سامراجی عزائم کا ساتھ دے رہا ہے- چنانچہ 1975 میں کاسٹرو نے ایک زور دار تقریر میں اعلان کیا کہ ماضی میں کیوبا کے اندر بہت سارے غلام انگولا کے ساحلوں سے لائے گئے تھے -انقلابی کیوبا ان کا قرض دار ہے- کیوبا جنوبی افریقہ کو اجازت نہیں دے گا کہ وہ نو آزاد انگولا کو غلام بنائے-چنانچہ اس نے باقاعدہ اپنی فوجیں اور اسلحہ وہاں بھیج دیا اور اپنے سروں اور سینوں کو ڈھال بنا کر انگولا کی آزادی کی حفاظت کرنے لگا-
اسی موقع پر امریکی کارٹر انتظامیہ نے کیوبا کو ایک پیشکش کی -کہ اگر وہ اپنی فوجیں نکال لے تو اس پہ لگی ناکہ بندی ختم کردی جائے گی- ناکہ بندی ‘جس نے کیوبا پہ بدترین اثرات چھوڑ رکھے تھے-اس ناکہ بندی نے بیرونی دنیا سے اس کے تمام روابط روک رکھے تھے-کوئی درآمدی برآمدی تجارت ممکن نہ تھی-
مگر خوبصورت کاسٹرو کے منہ میں پانی نہ آیا اور نہ ہی اس کا من للچایا-اُس نے اُس پیشکش کا یہ خوبصورت انسانی جواب دیا:
"اس بات میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہم نہ تو دباؤ میں آئیں گئے,نہ متاثر ہونگے,نہ رشوت لیں گئے اور نہ خریدے جا سکیں گئے”
کیوبا کی فوجیں پندرہ سال تک وہاں رہیں اور 1990 تک انگولا کی آزادی اور انقلاب کے دفاع میں لڑتی رہیں-جنگ تو پھر جنگ ہوتی ہے–جنوبی افریقہ انگولا میں بمباری میں کیوبا کے فوجیوں کو نشانہ بناتا رہا-کیوبا کا خون انگولا کے آزادی پسند سپاہیوں کے ساتھ گرتا رہا-کیوبا انگولا کے سینکڑوں زخمی بچوں کو نکال لایا تھا-اس نے انہیں اہنے ہاں پڑھایا لکھایا اور پھر واپس ان کے وطن روانہ کیا-چنانچہ جب نیلسن منڈیلا رہا ہوا تو اس نے کیوبائی انٹرنیشنلزم کو خراج عقیدت پیش کرنے1991 میں پہلا جذباتی دورہ کیوبا ہی کیا :”ہم یہاں ایک عظیم قرض کا احساس لیے آئے ہیں ,جو کیوبا کے عوام کا ہم پر ہے……..دنیا کا کوئی ملک اُس بےلوثی کی نظیر پیش نہیں کرسکتا جو کیوبا نے افریقہ میں دکھائی-”
اقتباس از کتاب : فیڈل کاسٹرو
مصنف : شاہ محمد مری

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*