عورتیں ، اور بچوں کی پرورش

عورت کے لیے فیملی لائف کا مطلب لامتنا ہی طور پر بچوں کی پرورش میں بندھ جانا ہوتا ہے۔ بچوں کی تعلیم کا کوئی چانس نہیں صرف انہیں کھلانے کے قابل ہونا ہے۔
ایک بچے کی پیدائش کے ساتھ کسان عورت اضافی کاموں کا سامنا کرتی ہے ۔بہر صورت یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک انسان کام کے لیے باہربھی جائے اور بہ یک وقت بچوں کی دیکھ بھال بھی کرے ۔ کام کسی کا انتظار نہیں کرتا اور کسان عورت کام کرنے باہر جاتی ہے تو بچوں کو گھر چھوڑ جاتی ہے۔ کوئی نحیف بوڑھی عورت، یا دوسرے بچوں سے عمر میں بڑا بچہ اُن کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ جو شخص گاؤں میں رہ چکا ہے وہ جانتا ہے کہ اُن کی دیکھ بھال کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ دودھ چھڑانے سے پہلے ایک بچہ کے منہ میں ایک Sour horn feeding ٹھنسا ہوا ہوتا ہے اور ہر طرح کے سبز ے اور چبائی ہوئی کالی روٹی کے ساتھ کی خوراک دی جاتی ہے ، پھر ایک بھیڑ کی کھال میں لپیٹ کر، ایک کھٹولے میں پٹخ دیا جاتا ہے۔ جب تک کہ وہ بے ہوش ہوجائے ، اسے ایک گھٹن دار جھونپٹری میں رکھا جاتا ہے اور رات کو تقریباً تقریباً ننگا باہر نکالا جاتا ہے ۔ ماں اسے درمیان میں خوراک دیتی رہتی ہے ۔ ہمیشہ سنائی دیتا ہے کہ ایک 6سے 8 سالہ نرس نے ایک بچے کوگرادیایاپٹخ دیا، یا اسے جلاڈالا، یا اُس کے ساتھ کچھ اور کردیا۔ ۔۔جو کچھ بھی ایک چھ سالہ کے ذہن میں آتا ہے ۔۔۔ لیکن حتی کہ اگرماں خود بچے کی دیکھ بھال کر رہی ہے تب بھی چیزیں زیادہ مختلف نہیں ہوتیں۔ اس کو بالکل معلوم نہیں ہوتا کہ ایک انسانی آرگنزم کی تعمیر کس طرح کی جائے ، ایک بچہ کس طرح بڑھوتری کرتا ہے ؟۔ اُسے مضبوط ،تناوراور صحت مند طور پر بڑھوتری کرنے کے لیے کیاکیا ضرورت ہوتی ہے؟۔ کسان عورت کی راہنمائی عموماً روایت اور تواہمات کرتی ہیں۔ مگر اگر اسے معلوم بھی ہو کہ ایک بچے کی پرورش کس طرح کرنی ہے، تو دنیا میں بہترین ارادے کے ساتھ وہ، وہ کچھ نہیں کرسکتی جس کی کہ ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک بچے کو صفائی ، گرمی اور تازہ ہوا کی ضرورت ہوتی ہے مگر ایک جھونپڑی میں دس دس لوگ رہتے ہیں ،جسے گرم نہیں رکھا جاتا اور بھیڑ کی کھالیں، گائے کے بچھڑے اور دیگر سارا کچھ وہیں ہوتا ہے۔چارونا چار وہ اسے برے جاب کے بطورترک کردیتی ہے ۔ جب بچہ بیمار ہوتا ہے تو ماں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا کیا جائے اور عموماً کوئی ایسی جگہ ہوتی ہی نہیں جہاں وہ علاج کے لیے جاسکے۔ سب سے بدترین بات یہ ہے کہ جس وقت بیماری پھیلنے والی ہو، جس طرح کہ چیچک،سکارلیٹ بخار وغیرہ، جب بچے کو آئیسولیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کیسے کیا جاتا ہے جہاں سارا خاندان جھونپڑی میں رہتا ہو؟۔ اس طرح بچے ایک دوسرے کو انفکیشن پھیلاتے رہتے ہیں اور مدد کی کمی کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ یہ حیرانگی کی بات نہیں کہ گاؤں میں آدھے بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مرجاتے ہیں۔ صرف سب سے زیادہ مضبوط زندہ رہتا ہے۔
آئیے اب ہم کسان بچوں کے سکول کی تعلیم کے معاملات کی بات کریں۔ بہت عموماً تو گاؤں میں سکول ہوتا ہی نہیں اور لکھنا پڑھنا سیکھ جانا ایک چانس کی بات ہوتی ہے ۔ لیکن اگر کوئی گاؤں کا سکول ہوبھی تو کسان اپنے بچوں کو اس میں رکھنے کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتا۔ بچوں کی گھر میں ضرورت ہوتی ہے تاکہ چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کریں، دکان کو سنبھالیں اور ہر طرح کے گھریلو معاملات میں مدد کریں۔ کبھی تو سکول جانے کے کپڑے بھی نہیں ہوتے، بالخصوص اگر یہ پڑوس کے گاؤں میں ہو۔ جو بچے سکول نہیں جاتے وہ عموماً صرف پڑھنے لکھنے اور حساب رکھنا سیکھ جاتے ہیں اور وہ بھی بدترین سطح پہ ۔ روس میں ہمارے سکول بہت برے ہوتے ہیں اور اساتذہ کو بنیادی باتوں کے علاوہ کچھ اور سکھانے کی ممانعت ہے ۔ حکومت لوگوں کو جاہل رکھ کر فائدہ لیتی ہے ، اس لیے سکولوں میں یہ بیان کرنا یا ایسی کتابیں دینامنع ہے کہ کس طرح دوسری قوموں نے آزادی حاصل کی اور اُن کے قوانین اور نظا م کس طرح کے ہیں۔ یہ وضاحت منع ہے کہ کیوں کچھ لوگ فلاں فلاں قوانین رکھتے ہیں جبکہ دوسروں کے الگ قوانین ہیں، کیوں کچھ لوگ غریب ہیں اور دوسرے امیر ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سکولوں کو سچ بتانے کی اجازت نہیں ہے اور ٹیچرز کو بچوں کو صرف خدا اور بادشاہ کے وقار کے بارے میں پڑھانا چاہیے۔ انچارج لوگ یہ دیکھنے میں بہت احتیاط کرتے ہیں کہ استاد سے کوئی سچائیاں پھسل کر باہر نہ نکلیں۔ اور وہ اُن لوگوں میں سے استاد سلیکٹ کرتے ہیں جنہیں کسی چیز کی سمجھ نہیں ہو۔ اس طرح جب بچہ سکول چھوڑتا ہے تووہ اُتنا ہی کم جانتا ہے جتناکم وہ سکول جاتے وقت جانتا تھا ۔ خود ماں بھی عموماً اسے کچھ زیادہ نہیں پڑھا سکتی اس لیے کہ وہ خود بھی کچھ نہیں جانتی۔ لیو ٹالسٹائی ’’تاریکی کی قوت‘‘ میں ایک سپاہی کی زبانی روسی کسان کی جہالت کے بارے میں کہتا ہے:’’ تو تم عورتیں کیا جانتی ہو؟۔ تم تو بس کتے کے اندھے بچوں کی طرح اپنی ناکیں گوبر میں گھونپی ہوئی ہو۔ ایک مرد کم از کم فوج میں ایک ڈینگ مارتا ہے، کھاد سے بھرے ایک ٹرین پر بیٹھتا ہے اور شہر کو جاتا ہے ، مگر تم لوگوں نے کبھی کچھ دیکھا؟۔ اپنے گندے زنانہ فریبوں کے علاوہ تم لوگ کچھ نہیں جانتیں‘‘۔ وہ یہ کہ وہ زیادہ سے زیادہ جس چیز کی امید کرسکتی ہے وہ اپنے بیٹے کو روزے رکھنا سکھاسکتی ہے اور چرچ کی عبادات سکھاسکتی ہے ، خدا اور اپنے بزرگوں سے ڈرنا، امیروں کی عزت کرنا اور بچے کو عاجزی اور صبر سکھانا۔۔۔ لہذا یہ نہیں لگتا کہ اس کے بچے مسرور تر بن جائیں او رآزاد تربن جائیں یا بہتربن جائیں اِن باتوں کے سمجھنے کے لیے : ’’سب ایک کے لیے اور ایک سب کے لیے ‘‘۔ اور شک ہے کہ اگر وہ انصاف جیتنے اور انصاف کی خاطر سٹینڈ لینے میں بہتر نکلے۔
جو کچھ ہم نے کسان عورت کے بارے میں بطور ایجوکیٹر کہا اُس کا اطلاق بطور ماں اُس عورت پر بھی ہوتا ہے جو کہ ایک کا ٹیج انڈسٹری میں کام کرتی ہے۔وہ کسان عورت اتناہی کم جانتی ہے جس پر کہ کام حاوی ہے اور اپنے بچوں کو ایجوکیٹ کرنے میں اتنی ہی لاچار ہے۔ یہ پانچ سے آٹھ برس کی عمروں میں کاٹیج انڈسٹری میں گھسیٹ کر لائے جاتے ہیں جب انہیں کچھ سادہ سے کام کرنے دیے جاتے ہیں۔ مگروہ بالغوں کی طرح کام کرتے ہیں اور عموماً انہی طویل اورلمبے گھنٹوں تک ۔ اس طرح کا کام بچے کی بڑھو تری کے لیے تباہ کن ہوتا ہے، صحت کو متاثر کرتا ہے اور بچے کی دماغی صلاحیتوں کو کند کردیتا ہے ۔ ذراسی بھی چہل قدمی سے محروم، ایک گھٹن والی کاٹیج میں بغیر صاف ہوا کے بچہ بیمار بیمار بڑا ہوتا ہے۔صبح سے رات تک یکساں کام اس کی دانش کو فاقہ زدہ بنا لیتا ہے ، اسے ترقی نہیں دیتا اور وہ احمق اور کاہل ہوجاتا ہے۔ کسی طرح کی کوئی سکولنگ نہیں ہوتی ۔ کاٹیج مزدور کم وبیش اسی وقت کھا سکتا ہے جب سارا خاندان ، بوڑھے اور بچے بغیر کسی وقفے کے کام کریں۔ ایسی حالت میں سکولنگ کیا ہوگی؟۔
فیکٹری عورت اپنی ضعیف صحت سے ممتاز ہے ۔ فیکٹری کام کے مضر حالات سے عورت کی بڑھو تری زیادہ نقصان اٹھاتی ہے۔اور ایک کمزور اور بیمار عورت کمزور بچے پیدا کرتی ہے ۔ ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ ’’ جب ماچس ساز فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورت شادی کرتی ہے ، اور عورتیں اور بچے اُن میں ورک فورس کا زیادہ حصہ تشکیل کرتے ہیں ، تو وہ خود اپنی طرح کے بیمار اور نیم زندہ نسل کے لیے ایک افزائش گاہ بن جاتی ہے ۔ صورتحال کئی ایسی بیماریوں سے مزید ابتر ہوجاتی ہے جو ایک قبل از وقت قبرکی طرف لے جاتے ہیں‘‘۔ ہمارے فیکٹری قوانین میں ایسے کوئی قوانین موجود نہیں ہیں جو حاملہ عورتوں کے لیے کام کو محدود یا ہلکا رکھتے ہوں ۔ صرف اُن قوانین میں جو کہ فیکٹری کے مزدروں پر جرمانوں سے جمع شدہ رقوم سے بچوں کی سپردگی اور تقسیم کو کنٹرول کرتے ہیں کہ یہ پیسہ دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ حمل کے آخری مرحلہ میں اور بچہ کی پیدائش سے پندرہ دن قبل عورت مزدوروں کو الاؤنس دینے کے لیے بھی ’’استعمال ہو سکتا ہے‘‘ ۔یعنی یہ کہ یہ کنٹی جنسی مکمل طور پر فیکٹری مالک کے ’’ہاں ‘‘یا’’ نہ‘‘ کے سپرد کیا گیا ہے ۔ درحقیقت اس طرح کی ادائیگیاں کہیں بھی نہیں ہوتیں۔ بغیر مدد کے، اور کام چھوٹ جانے کے خوف سے ، مزدور عورت بچہ جننے کے وقت تک کام کرتی رہتی ہے۔ اور وہ مکمل تندرست ہونے سے پہلے ہی کام پر واپس آجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فیکٹری عورتوں کے اتنے زیادہ حمل گرجاتے ہیں‘ اور وہ قبل از وقت بچہ پیدا کرتی ہیں اور عورتوں کے دیگر سارے امراض کی اقسام میں مبتلا ہوتی ہے۔ عورت مزدور کے لیے بچوں کے ساتھ زندگی بہت مشکل ہوتی ہے ۔ فیکٹری سے تھکی ہاری گھر آکر اُسے برتن اور کپڑے دھونے پڑتے ہیں، سلائی کرنی پڑتی ہے ، صفائی کرنی پڑتی ہے ، بچے کو کھلانا دھلانا ہوتا ہے ۔ کبھی کبھار ماں بہت خوش ہوتی ہے اگر اس کی کوئی پڑوسن ہوجو کہ اُسے بچے کو ایک ڈرنک سے فیڈ کرنے کا آئیڈ یادیتی ہے جو کہ خشخاش (پوست)سے بنی ہوتی ہے، بچہ آرام سے سوجاتا ہے اور ماں خوش ہوجاتی ہے۔اسے معلوم نہیں کہ اُس ڈرنک سے وہ اپنے بچے کو زہر دے رہی ہوتی ہے ، اس لیے کہ خشخاشمیں بہت ساراا فیون ہوتا ہے، اور افیون ایک خوفناک زہر ہوتا ہے، اور بعد میں بچے کو مکمل احمق بناڈالتا ہے ۔ جب فیکٹری مزدور عورت دن کے وقت کام کو جاتی ہے تو بچوں کو ایک بوڑھی پڑوسن کے حوالے کرتی ہے ، اور جب وہ ذرا سے بڑے ہوجاتے ہیں تو انہیں بغیر کسی نگران کے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ بچے عملی طور پر آؤٹ ڈور میں بڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ بہت بچپن سے مناسب طور پر نہیں کھاتے ، انہیں سردی لگ جاتی ہے ، وہ چھیتڑوں او رمیل کچیل میں پھرتے رہتے ہیں اور شرابیوں، بدکاریوں، لڑائی جھگڑوں اور کئی اس طرح کی چیزوں کو دیکھ دیکھ کر بڑے ہوجاتے ہیں ۔ پری سکول بچے اس طرح بڑے ہوتے ہیں۔ قصبے میں سکول موجود ہوتے ہیں مگر مضافات اور قصبہ کے سکول عموماً بہت پُر ہجوم ہوتے ہیں اس طرح کہ اُن میں داخلہ لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اور فیکٹریوں اور ملوں کے عمومی طور پر اپنے سکول نہیں ہوتے ۔ قانون فیکٹری مالکان کو مزدوروں کے بچوں کے لیے سکول قائم کرنے کی ’’اجازت‘‘ دیتا ہے مگر انہیں ایسا کرنے پر مجبور نہیں کرتا ۔ اس لیے سارے مزدوروں کے بچے سکول نہیں جاتے۔ جب بچے اُس عمر تک پہنچ جاتے ہیں جس میں وہ فیکٹری جاسکیں(ہمارے قوانین کے مطابق 12سال کا بچہ) تو وہ اپنے آپ کے لیے گزر بسر کما لینے لگتے ہیں اور جلد ہی مکمل آزاد ہوجاتے ہیں ۔ عموماً فیکٹری عورت مزدور کو اپنے بچوں کے بارے میں بہت سارا غم ہوتا ہے ، بہت ساری پریشانیاں ہوتی ہیں مگروہ کبھی کبھار انہیں دیکھ پاتی ہے اور بچے اُس کے لیے نیم اجنبی بن کر بڑے ہوجاتے ہیں۔
اگر ہم اس بات کا حساب کر لیں کہ فیکٹری مزدور عورت بچوں کے ساتھ کتنی تکلیف میں ہوتی ہے۔ خصوصاً اگر بچہ ناجائز ہو اوراس کو پالنا پوسنا مکمل طور پر اُس کی ماں پہ ہوتو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ عورت، بچے کولاوارث بچوں کے ایک ہسپتال کو دینے پر کیوں مجبور ہوتی ہے یا ایک ایسی عورت کو جوبچوں کی دیکھ بھال میں ماہر ہو۔ کبھی کبھی اخبار میں خبریں آتی ہیں کہ فلاں بڑے صنعتی شہر میں ایک ’’فرشتوں کا کام‘‘ دریافت ہوا ہے۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں ایک عورت شیر خوار بچوں کی پرورش کرنے کے بدلے پیسے لے کر اپنی گزر بسر کر لیتی ہے اور پھر ، بھوک کے ہاتھوں، انہیں افیون کھلا کر، یا دوسرے طریقوں سے انہیں جتنی جلد ممکن ہوا گلے جہان بھیج دیتی ہے ۔ انہیں’’فرشتوں‘‘ میں بدل دیتی ہے ۔ ایک عدالتی سماعت کے بعد ’’فرشتے‘‘ بنانے والوں کو قید بامشقت دی جاتی ہے ۔مگر پھر ،کسی اور جگہ اسی طرح کے حالات ایک اور’’ فرشتوں کا کام‘‘ کو پید اکرتے ہیں؛ایک عورت فیکٹری مزدور ایک بچے کو خوراک دینا ناممکن پاتی ہے۔
یہی تقدیر گھر میں ساتھ رہنے والی ایک گھریلو ملازمہ کے بچے کی بھی منتظر ہوتی ہے ۔ ایک نوکر کو فیملی نہیں رکھنا ہوتی ہے ۔ ہرجگہ عورت نوکرانی کی ملازمت کی ایک شرط ہوتی ہے کہ اُن کے مرد ملاقاتی نہ ہوں ۔ایک شادی شدہ عورت کو ملازمت میں بددلی سے رکھا جاتا ہے اگر اس کا خاوند اس کی ملاقات کو آتا رہے ۔ اولاد کے ساتھ والی عورت کو نوکرانی کبھی نہیں رکھا جاتا ۔ اس لیے گویاعہدہ سنبھالتے ہی نوکرانی نے اپنے پورے مستقبل پر ایک معاہدہ کر لیا۔اس کی یہ صورتحال فیکٹری مزدور عورت سے بھی بد تر ہے اس لیے کہ فیکٹری مزدور عورت ایک مقررہ گھنٹوں کے لیے کام کرتی ہے او راُن گھنٹوں کے بعد وہ اپنی مالک خود ہوتی ہے ۔ ایک گھر میں ساتھ رہنے والی نوکرانی کبھی بھی خود کوفارغ نہیں کرسکتی ، اس لیے کہ اس کا سارا وقت اس کے مالک کا ہوتا ہے ۔ وہ عموماً اُسے اپنے بچوں کے ساتھ گزار نے کو کوئی وقت نہیں دیتے اور ، لہذا پسند ہویا نہیں ، اُسے اپنے بچے لاوارث بچوں کے ایک ہسپتال میں جمع کرنے پڑتے ہیں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثریت معاملات میں عورت مزدور خود کو ایک ایسی صورتحال میں دیکھتی ہے جہاں اس کے لیے اپنے بچے کی مناسب طو ر پر پرورش کرنا بالکل ناممکن ہوتا ہے ۔ وہ اپنے بچے کی پرورش کرنے کے رول سے مکمل طور پر ’’تیار نہیں‘‘ہوتی ہے اس لیے کہ وہ نہیں جانتی کہ ایک بچے کے لیے کیا اچھا ہوتا ہے اور کیا برا۔ اور وہ بچے کو تعلیم دلانا نہیں جانتی ۔ ’’سیکھے بغیر آپ ایک جوتا بھی مرمت نہیں کرسکتے ‘‘ جیسے کہ جرمن سوشلسٹ زیٹکن نے جرمنی میں عورتوں کی تحریک نامی مشہور بروشر میں لکھا۔ کیا کوئی اس بات پہ واقعی یقین رکھ سکتا ہے کہ ایک انسان کی پرورش کے لیے کسی مناسب تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی؟۔ مگر اگر مزدور عورت اپنی موجودہ حالت میں ایک ایجوکیٹر کے رول کے لیے تربیت یافتہ ہوتی تب بھی یہ مکمل طور پر وقت کا ضیاع ہوتا ۔ اُس کے پاس نہ کافی وقت ہوتا ہے ، نہ ہی مالی وسائل کہ جس سے اپنے بچے کو ایجوکیٹ کرے۔ وہ صرف ایک بات کے بارے میں سوچ سکتی ہے ،وہ یہ کہ یہ دیکھے کہ اس کے بچے کی خوراک ، پوشاک اچھی ہو۔ مگر اکثروہ اس پوزیشن میں نہیں ہوتی ہے کہ یہ گارنٹی کرے کہ اس کے بچوں کے معدے بھرے ہوئے ہیں ۔وہ انہیں مقدر کے رحم وکرم پر چھوڑ نے پہ مجبور ہوتی ہے ۔ یہی صورتحال ہے موجودہ سماجی نظام کے اندر ہے۔
ایک سوشلسٹ نظام میں بچوں کی پرورش اور تعلیم کیسی ہوگی؟ ۔ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ سوشلسٹ ،بچوں کی سماجی پرورش پر وقف ہیں۔ غصے سے بھرا ہوا بورژوازی چلّا اٹھتا ہے’’ خوفناک سوشلسٹ خاندان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور بچوں کو اپنے والدین سے چھیننا چاہتے ہیں!‘‘ ۔یہ بات یقیناًبکواس اور لغوہے اس لیے کہ ایسی بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کسی کے بھی اور کہیں پہ بھی ،دماغ میں یہ بات نہیں کہ بچوں کو ان کے والد ین سے چھینا جائے۔ جب کوئی بچوں کی سماجی پرورش کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب پہلے پہل تو یہ ہوتا ہے کہ اُن کی کفالت کی پریشانی والدین سے ہٹائی جاتی ہے او ریہ کہ سماج بچے کو مہیا کرتا ہے ۔نہ صرف زندہ رہنے کے ذرائع بلکہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ بچے کے پاس ہر طرح کی بڑھوتری کے لیے ضروری ہر چیز موجود ہو۔بچوں کی پرورش کا سب سے مشکل وقت اس سے پہلے کا ہوتا ہے جب وہ سکول جانے کی عمر پہ ہوتے ہیں ۔ مغربی یورپی ملکوں میں پہلے ہی ’’کنڈر گارٹن ‘‘نامی ادارے موجودہیں ۔ جب ایک ماں کام کے لیے روانہ ہوتی ہے تو وہ اپنے چھوٹے بچے ساتھ لیتی ہے اور انہیں کام کے ختم ہوجانے تک کنڈر گارٹن میں چھوڑ جاتی ہے ۔ وہ کام کے دوران مطمئن رہتی ہے اس لیے کہ وہ جانتی ہے کہ اس کے گھٹنوں کے بل چلنے والے بچے پہ کوئی بدقسمتی نہیں آسکتی اس لیے کہ وہ بے شمار اساتذہ اور اُن کی محبت بھری خیالداری کے تحت ہوتے ہیں۔ قہقہے اور بچوں کی آوازیں کنڈرگارٹن ہاؤس اور گارڈن کی موجودگی کا اعلان کرتی ہیں۔ پہلی نظر میں یہ نظر آتا ہے کہ وہاں کوئی نظم ونسق نہیں مگر یہ تو سرسری تاثر ہوتا ہے ۔ اُن کی سرگرمیوں کے لیے مخصوص پروگرام ہوتے ہیں۔ انہیں گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہرگروپ اپنے کام میں مشغول ہوتا ہے ۔ وہ زمین کھودتے ہیں، پودوں کی قطاروں کو پانی دیتے ہیں اور بے کار پودے اکھاڑ دیتے ہیں، باورچی خانے میں سبزیاں صاف کرتے ہیں، برتن دھوتے ہیں، لکڑی کو تراش کر ہموار کرتے ہیں، چیزوں کو آپس میں سریش (گُلو)سے جوڑتے ہیں، سلائی کرتے ہیں ،ڈرائنگ کرتے ہیں، گاتے ہیں ، پڑھتے ہیں او رکھیلتے ہیں ۔ ہر کھیل کچھ نہ کچھ سکھاتاہے اور سب سے بڑی چیز یہ ہوتی ہے کہ بچے کو صاف ستھرا ہونے کی تربیت ہو، محنت کرنے کی عادت ہو، اپنے دوستوں کے ساتھ نہ لڑنے جھگڑنے کی تربیت ہو اور آنسوؤں اورزورازوری کے بغیر دوسروں کو جگہ دینے کی تربیت ہو۔ اساتذہ جانتے ہیں کہ تین یا چار سال کے بچے کو کس طرح مصروف رکھا جائے ، وقت پر کھلا یا اور وقت پرسلایا جائے ۔ وہ فرش پر چوڑے گدے بچھاتے ہیں اور بچے ایک دوسرے کے ساتھ ایک مشترک کمبل اوڑھے لیٹ جاتے ہیں ۔ کنڈر گارٹن میں وقت گزارنا کتنا مختلف ہوتا ہے ایک کونے سے دوسرے کونے بے فائدہ آوارہ گردی کرنے سے، چھوٹے بچوں کی تقدیر ہوتی ہیں جن کے پاس مصروف رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا!۔’’مداخلت مت کرو! اس طرف مت جاؤ!‘ہٹ جاؤ !‘‘ یہی وہ الفاظ ہیں جو گھر میں بچوں کو ہر وقت بتائے جاتے ہیں ۔ البتہ، یہ کہنا لازمی ہے کہ خود مغربی یورپ میں بھی ابھی تک بہت کم اچھے کنڈرگارٹن ہیں۔ ہم نے ایک کنڈرگارٹن کی تفصیل صرف اس لیے دی ہے کہ یہ بتائیں کہ بچوں کو ایجوکیٹ کرنا بہت کم عمری سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ کہ ایک سماجی کنڈرگارٹن میں بچے اپنے لیے بہت فائدہ کے ساتھ وقت گزارسکتے ہیں اور گھر کی بہ نسبت زیادہ مسرت سے وقت گزار سکتے ہیں ۔ اگر آج بھی اچھے کنڈرگارٹن ہوں تو وہ سوشلسٹ معاشرے میں اور زیادہ اچھے ہوں گے چونکہ سماج کے تمام ممبروں سے آئے ہوئے بچوں کی پرورش ایسے کنڈر گارٹنوں میں ہوگی ۔تو یہ دیکھنا سب کے مفاد میں ہوگا کہ اُن کی جتنی ممکن ہو بہتر ین انتظام کاری ہو۔ بچے پھر کنڈرگارٹن سے سکول جائیں گے۔ ایک سوشلسٹ معاشرے میں سکول بلاشبہ ایسے نہ ہوں گے جو آج کل ہیں۔ مستقبل کے سکولوں میں شاگرد بہت زیادہ علم حاصل کریں گے اور پیداواری محنت سے بھی آشناہوں گے۔ اہم ترین فیچر یہ ہے کہ سکول صرف پڑھائیں گے نہیں بلکہ اُن کی روحانی اور جسمانی صلاحیتیں بڑھائیں گے ، تاکہ ان کی مفید اور توانا شہریوں کے بطور پرورش ہو۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*