الفاظ کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے!

 

کتاب : نوید ِ فکر
مصنف: سبطِ حسن
صفحا ت : 312
قیمت : 750 روپے
مبصر : عابدہ رحمان

پچھلے دنوں سبطِ حسن صاحب کی کتاب ’’ نویدِ فکر‘‘ میرے زیرِ مطالعہ رہی ۔ یہ ان کی پہلی تحریر ہے جو میں نے پڑھی اور پڑھ کر میں نے سوچا کہ مجھے اتنی دیرکیوں ہوئی اسے پڑھنے میں ۔ بہت پہلے پڑھ لینی چاہیے تھی۔
یہ کتاب کل چھ ابواب پر مشتمل ہے جس کا پہلا باب ’’ تھیوکریسی‘‘ ہے۔ او ر اس کے بعد اسلامی ریاست، سکولرازم، وادی سندھ کا سوشلسٹ صوفی ۔۔ پہلا باغی، پہلا سیاسی قیدی اور آخری باب زندگی کی نقش گری اور غلطی ہائے مضامین پرمشتمل ہے۔
تھیوکریسی کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ ریاست کی وہ قسم ہے جس میں حکومت کے قوانین احکامِ خداوندی سے منسوب کیے جاتے ہوں یا جہاں کا حاکمِ اعلی خدا یا خداکا اوتاریا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
اس کتاب کو پڑھ کر پتہ چلا اور جو کہ حقیقت بھی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کائنات میں مسلسل ارتقاکا عمل جاری و ساری ہے ۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہم اس عمل کو روکنے سے قاصر ہیں ۔ریاست کا وجود بھی اسی ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ میں بارہا یہ بات مری صاحب کی تاریخی کتابوں میں پڑھ چکی ہوں کہ غاروں کا زمانہ کہ جب لوگوں کی گزر بسر صرف شکار پر تھی اور پھر زراعت کی ابتدا ہوئی اور مزید پیداواری ذرائع بڑھے تو طبقات نے جنم لیا۔ وہی بات سبطِ ساحب کہتے ہیں کہ جب زمین، زمین کی پیداوار، آلاتِ پیداوارجب افراد کی ذاتی ملکیت بن گئے تو معاشرہ طبقات میں بٹ گیا تب ریاست کی ابتداہوئی۔
پھرایک اور بات جو معلوم ہوئی وہ یہ کہ پروہت راج میں ریاست کا سربراہ مذہبی پیشوا ہوتا تھا اور ریاست کے تمام امور، اس کا نظم و ضبط اسی کا کام ہوتا تھا۔بلکہ وہ ہی ریاست کا کرتا دھرتاتھا ۔ وہی مذہبی احکامات کے مطابق ، افعال کے جائز و نا جائز، جرم کی سزا کا تعین اور رعایا کے فرائض بتاتا اور اس طرح بادشاہت کو مذہبی پیشوائوں کا تعاون بلکہ اقتدار کو مذہبی جواز بھی مل گیا۔بادشاہت مقدس ٹھہری اور پوری دنیا میں مختلف وقتوں تک یہ سب قائم رہا۔ یہاں سبطِ صاحب کہنا چاہتے ہیں کہ دراصل رعایا کے دماغ کو ہپناٹائز کر دیا گیا تاکہ وہ ریاست کے قوانین کی پاسداری اور اطاعت و فرماں براداری کے عادی ہو جائیں۔ ملوکیت اور پروہت ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے تھے بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ اب بھی کرتے ہیں۔سبط ِ حسن صاحب کہتے ہیں کہ ریاستوں کا سلطنتوں میں تبدیلی کی وجہ سے ایک مذہب نہیں بلکہ کئی مذاہب ہو گئے جس نے شرعی قوانین کا نفاذ مشکل بنایااور رعیت اور ریاست میں جنگ کی ابتدا ہوئی۔
لیکن جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکی اور اس کتاب میں بھی بار بار کہا گیا ہے کہ ارتقا کے عمل کو روکا نہیں جا سکتا لہٰذا امریکیوں اور ہندوستانیوں کے بحری راستے دریافت ہونے کے بعد بین الاقوامی تجارت اور نو آبادیاتی نظام کی ابتدا ہوئی۔سائنسی ایجادیں اور دریافتیں کلیسا کو بوکھلاگئیں ، اس کے مفروضات اور انجیل و مسیحی تعلیمات کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔صنعت کاروں نے تو سائنس سے خوب فائدہ ٹھایا لیکن اس کے علاوہ ایک خانہ جنگی سی شرو ع ہوئی جس نے پروٹسٹنٹ فرقے کو جنم دیا۔انقلابِ فرانس نے تھیوکریسی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور برطانیہ تھیوکریسی کو ختم کرنے والا پہلا ملک ٹھہرا۔سوشلزم کا نعرہ بلند ہوا۔ سوشلزم، کمیونزم اور انقلاب پر تحریریں پڑھی جانے لگیں۔
اس چیپٹر کا اختتام ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ تھیوکریسی معاشرتی ارتقاکے ایک مخصوص عہد میں تاریخی ضرورتوں کے تحت وجود میں آئی اور جب یہ ضرورتیں باقی نہ رہیں تو وہی انجام ہوا جو غلامی کا ہوا۔ یہ جمہوریت اور جمہوری قدروں کی نفی کرتی ہے۔
کتاب کا دوسرا باب اسلامی ریاست ہے؛ جس میں معاشرتی ارتقا کا مطالعہ، حالتِ حرکت و تغیرمیں یا عالمِ سکون میں،ریاست ِ مدینہ کی تشکیل، قراٰنی آیات کی شانِ نزول اور قیامِ پاکستان، ریاست اور اس کی نوعیت میں بتایا گیا ہے۔اس باب میں یہ اہم بات معلوم ہوئی کہ چونکہ معاشرہ ایک مسلسل ارتقا سے گزر رہا ہوتا ہے۔ طرزِ معاشرت، سماجی ادارے اور عقائد و افکار میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اس لیے حقیقتوں کا مطالعہ ان کے عالمِ حرکت و تغیر اور تاریخی پس منظرمیں کرنا چاہیے نا کہ عالمِ سکون و ثبات میںتاکہ ان عوامل و محرکات کا سراغ مل سکے جو ان حقیقتوں کے ظہور کا سبب بنے اور یہ فلسفہ تاریخ کی اصطلاح میں تاریخی ذہنیت Historical mindedness کہلاتا ہے۔جب ہم ارتقا کی بات کرتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ کرہ ارض آج وہ نہیں ہے جو صدیوں پہلے تھا ۔لہٰذا تبدیلیوں کے ساتھ یہ لازم ہو جاتا ہے کہ ہم ضرورت کے مطابق تبدیلی کو اپناتے چلے جائیں ۔ یہی بات سبطِ حسن صاحب کہتے ہیں کہ مولوی ان تبدیلیوں کی نفی کرتا ہے جب کہ اجتہاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس کی مثال وہ غزوات اور غلام کی دیتے ہیں کہ مسلمان بھی غلام رکھتے تھے لیکن اب غلام رکھنا گناہ اور غزوات ِ نبوی کو آج کے مؤرخ لوٹ مار گردانتے ہیں۔
سبط صاحب یہاں یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام کا مقصد ریاست قائم کرنا ہر گز نہیں تھا اور نہ قرآن مسلمانوں کو ریاست قائم کرنے کی ہداہت کرتا ہے۔ ہجرت سے پہلے اسلامی تاریخ میں نہ کبھی ریاست رہی اور نہ ہی بعد میں دعوتِ اسلام پر خطوط میں نہ کسی طرزِ حکومت پر اعتراض کیا گیا ،نہ کوئی خاص طرزِ حکومت اختیار کرنے کو کہا گیا۔اس کامطلب ہے کہ ریاست کے بغیر بھی اسلامی معاشرہ ممکن سکتا ہے۔سبطِ صاحب نے یہ بھی بتایا کہ بہت سی اسلامی جماعتیں قراٰنی آیات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے حاکمِ وقت کی اطاعت کا جواز ثابت کرتی ہیں۔قیامِ پاکستان کے حوالے سے بھی وہ کہتے ہیں الگ ملک حاصل کرتے وقت یہ کبھی ذہن میں نہ تھا کہ پاکستان بننے کے بعد نئی ریاست کی نوعیت کیا ہوگی بلکہ مسلمانوں کو ہندو اکثریت سے الگ کر کے مسلم اکثریت کی ریاست بنانا تھا۔1935ء کے مروجہ آئین کے تحت ملک کے کرتا دھرتا افسرِ شاہی تھے اور اسلامک ریپبلک آف پاکستان کا نام دے کر حاکمیت ملک کے باشندوں کی بجائے خدا کو سونپ دی گئی۔
کتاب کا تیسرا باب سیکولر ازم ہے؛ سچ ہے کہ سکیولرازم کا سن کر ہمیشہ میرے دل میں بھی شکوک سے جنم لیتے ۔ گو کہ مجھے لگتا تھا کہ یہ وہ سب نہیں ہے جو میں اپنے ارد گرد سنتی ہوں لیکن ظاہر ہے کہ میں نے جب اس پر کچھ پڑھا نہیں تھا تو اس پر کچھ نہیں کہہ سکتی تھی ۔لیکن سبطِ حسن صاحب نے سچ کہا کہ لفظوں کا غلط استعمال سب سے بڑا گناہ ہے۔اور یہی بات انھوں نے اس باب میں ثابت کی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ،’’ سیکولر اور سیکولرازم خالص مغربی اصطلاحیں ہیں ۔ لاطینی زبان میں ’’ سیکولم‘‘ Seculum کے لغوی معنی دنیا کے ہیں ۔قرونِ وسطی میں رومن کیتھولک پادری دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک وہ پادری جو کلیسائی ضابطوں کے تحت خانقاہوں میں رہتے تھے۔ دوسرے وہ پادری جو عام شہریوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے۔کلیسا کی اصطلاح میں آخرالذکر کو ’’ سیکولر‘‘ پادری کہا جاتا تھا۔ وہ تمام ادارے بھی سیکولر کہلاتے تھے جو کلیسا کے ماتحت نہ تھے اور وہ جائداد بھی جسے کلیسا فروخت کر دیتا تھا۔آج کل سیکولرازم سے مراد ریاستی سیاسی نظم و نسق کی مذہب یا کلیسا سے علیحدگی ہے اور سیکولر تعلیم وہ نظام ہے جس میں دینیات کو تعلیم سے الگ کر دیا جاتا ہے‘‘۔
اس باب کو پڑھ کر مجھے سمجھ آئی کہ دراصل کیوں مذہبی پیشوا سیکولر ازم یا سیکولر کو کفر کہتا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ مذہبی پیشوا لوگوں کے ذہنوں کو ہپناٹائز کر کے ، کنٹرول کر کے سوچ و فکر ، سوال کرنے اور ترقی کے راستوں سے روکتی ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ سوچے گا ، عقل استعمال کرے گا، غور و فکر کرے گا تو سوال کرے گا۔ جیسا کہ سبطِ صاحب بھی کہتے ہیں کہ خوف سے بزدلی ،بزدلی سے تابعداری اور تابعداری سے غلامانہ ذہنیت جنم لیتی ہے جو تلاش و جستجو، تحقیق و تجربے اور مشاہدے سے روکتی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا امریکانا کے مطابق سبطِ حسن صاحب کہتے ہیں کہ ’’ سیکولرازم کا پہلا کلیہ آزادی فکرہے یعنی ہر شخص کو اپنے لیے کچھ سوچنے کا حق ، دوسرا کہ تمام فکری امور کے بارے میں اختلافِ رائے کا حق اور تیسرا یہ کہ تمام بنیادی مسائل مثلاً خدا اور روح کی لافانیت پر بحث مباحثے کا حق‘‘ ۔یہ سب ایک مذہبی پیشوا کہا ں برداشت کر سکتا ہے لہٰذا رازی، ابن ِ رشد، روجہ بیکن ، مارسی لیوکے مقولوں کی تعلیم کو مذہب کے خلاف قرار دیا گیا۔
وہ آگے چل کر کہتے ہیں کہ سترھویں صدی مغربی زندگی پر سیکولر ازم کی بالا دستی کی صدی، اٹھارویں صدی یورپ میں صنعتی انقلاب، سیاسی انقلاب اور روشن خیالی کے عروج کی صدی تھی ۔ مشرقی ممالک میں سیکولرازم اٹھارویں صدی میں آیا۔
اس باب کے آخری حصے میں ترکی اور برصغیر کی سیکولر تحریکوں کا احوال ہے ۔
نویدِ فکر کا چوتھا باب ، وادی سندھ کا سوشلسٹ صوف ہے؛ اس باب میں سبطِ حسن صاحب نے سرسندھ کے مشہور صوفی شاہ عنایت حسین شہید کے بارے میں لکھا ہے جنھوں نے سوشلزم کا پرچار پہلی بار سندھ میں کیا۔ اُس زمانے میں ملا ، حاکم، پیر غریبوں کو صبر شکر کی تلقین کرتے تھے۔ خود دولت بازی کر کے دوسروں کو دنیا سے فرار سکھاتے تھے۔ جب ظلم و استحصال، ناانصافی، بے اطمنانی اور جبرکے تعفن سے سانس بند ہونے لگی تو اس مفکر ، عاشقِ انسانیت نے بیمار معاشرے کواجتماعی کاشت کاری کا فلسفہ دیا۔ غریب جو سرکارگورنر، مذہبی طبقے اور جاگیردارکی غلاظت کی تکون میں محصور تھے۔طبقاتی لوٹ مار زوروں پر تھی جب اس فقیر کے نعرہء مستانہ سے جھوک کے درو دیوار گونج اُٹھے ’ الارض اللہ …! اور زمین اللہ کی ہے ،جیکو کھیڑے سو کھائے…! جو اُگائے وہ کھائے۔ اس نعرے نے ذات پات کے بیچ کھچی لکیر مٹا دی۔ کوئی مسلمان رہا نہ کوئی ہندو نہ کوئی اور مذہب … بس سب انسان تھے۔ زمین کو تمام انسانوں کا حق بتا کر ان کی عزتِ نفس کو تقویت ملی اور اس نعرہء مستانہ کی چھتری تلے غم کے مارے، مصیبتوں سے جوڑ جوڑ ہلے غریب بڑی تیزی سے اپنی اپنی زمین کے ساتھ جمع ہو رہے تھے۔ اجتماعی کاشت کاری کے اس کمیون میںایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز کہ مرشد و مرید سب محنت میں بھی شریک اور پیداوار میں بھی۔ ا س زلزلہء تحریک سے تو جھوک کی زمین لرز گئی۔ ظالم جو بزدل بھی ہوتا ہے، تحریکِ فقیراں سے خوف زدہ، غریب کی بیداری سے خوف زدہ ہو کر اس کے رگِ جاں کو آجاتا ہے اور اپنے ظلم کا انگوٹھا اس کی شہہ رگ پر مزید دبا دیتا ہے۔ سرکار، دربار،ملا، فتوے … بوکھلاہٹ میں مزید ظلم۔حاکمینِ وقت جو خود بھی ڈاکوئوں کی ذات سے تھے، ڈاکوئوں کو ساتھ ملا کر جھوک پر حملہ کر دیا اور35 شہیدوں کا تحفہ دیا۔ شاہ عنایت نے تختِ دہلی کو خبر کر دی تو بطورِ قصاص زمینیں شہدا فقیروں کے وارثوں کو دی گئیں جن پر مشترکہ زرعی نظام کو وسعت دی گئی تو جھوک کے جاگیردار تلملا اُٹھے کہ مزارعے نہ رہیں ، رعب نہ رہے تو کون سی جاگیر اور کہاں کی جاگیرداری…! تحریک پھیلتی چلی گئی ۔
پھر یوں ہو اکہ قرآن کو ضامن ٹھہرایا گیا جو شاہ عنایت کو خیمے سے میدان تک لے آیا۔ زبان کا پاس تو غیرت مند کرتے ہیں ۔ شاہی کتے، حرص و ہوس کے غلام ، شاہِ محبت کو میدان میں لے آئے۔ ان کے سامنے ان کے پیاروں کو شہید کیا گیا۔ وہ تڑپتے رہے ، شاہ دیکھتے رہے۔ ۷ جنوری کو شاہ عنایت کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ تلوار کے بدلے گردن کا تحفہ دینے کا وعدہ پورا کیا گیا۔ شاہ عنایت کو شہید کیا گیا۔
جھوک میں تو کہرام برپا ہونا ہی تھا۔ مریدوں کو تو غضب ناک ہونا ہی تھا۔ ضمیر فروشوں نے شہر کو آگ لگا دی۔ فقیروں کا قتلِ عام کیا۔24 ہزار فقیر شہید ہو گئے۔ 7 کنویں شہیدوں کی اجتماعی قبریں بنے اور گنجِ شہیداں کا نام پایا۔ بے وقوف تھے جو زرد لباس میں فقیروں کو قتل کر کے سمجھتے رہے کہ نظریات کو قتل کر پائیں گے ۔ قتل کرنے کی کوشش تو نظریے کو مزید راسخ کر دیتی ہے۔
پانچواں باب :پہلا باغی، پہلا سیاسی قیدی میں سبطِ حسن صاحب کہتے ہیں کہ ’’ سماجی اور پیداواری رشتوں میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا نام انقلاب ہے۔ہر انقلابی کے لیے باغی ہونا شرط ہے لیکن ہر باغی انقلابی نہیں ہوتا اور نہ ہر بغاوت انقلاب کی نقیب ہوتی ہے‘‘۔ انھوں نے اس باب میں زیوس، کرونس، یورینس، پرومی تھیوس کی پوری داستانیں لکھی ہیں جس سے لگتا ہے کہ دیومالا میں بھی اقتدار کی جنگیں ہوتی رہی ہیں اور سازشیں ، عیاشیاں ہوتی رہی ہیں اور مجھے تو پڑھ کر لگتا رہا کہ جیسے ہمارے ملک کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ ان دیومالائی قصوں کو ایس کائی لس نے ڈرامے کی شکل دی۔ ڈرامے کے ڈائیلاگزبھی اس باب میں دیے گئے ہیں ۔
کتاب کے اگلے حصے میں دریافتوں جیسے آگ ، دھات، حرکت و تغیر وغیرہ کو دیو مالائی کرداروں سے اور پھر حضرت آدم سے بھی Relate کیا گیا ۔ مثلاً آگ آخر کیا ہے کہ جسے زیوس نے انسانوں سے خفیہ رکھنے کو کہا اور جب پرومی تھیوس نے راز افشاں کیا تو سخت سزا پائی۔آگ کی افادیت، انسان کے لیے زندگی ہے ۔ ساری دنیا آگ سے چل رہی ہے جو روشنی اور گرمی کی علامت ہے۔جس سے تانبا، لوہا، ٹن اور دوسری دھاتوں کو پگھلا کر نئے اور آلات بنائے گئے اور پیداواری قوت بڑھ گئی۔وہ حضرت آدم سے اس کا ربط بتاتے ہیں کہ ان دونوں داستانوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ زیوس نے آگ کو مخفی رکھنے کو کہا اور خلاف ورزی پر پرومی تھیوس سزا پاتا ہے اسی طرح حضرت آدم کو شجرِ ممنوعہ کھانے پر جنت بدر کیا گیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ وہ آخر کس چیز کا درخت تھا اس میں کیا خاصیت تھی کہ اس کا پھل کھانے پر آدم کو بہشت سے نکلنے کا حکم دیا گیا۔ قرآن اس باب میں خاموش ہے۔اس حوالے سے سبط صاحب نے مولانا مودودی اور انجیل کی توجیہات بھی دی ہیں۔اور اسی باب میں انھوں نے حرکت و تغیر یعنی جدلیت کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا۔اس سارے چیپٹر کو پڑھ کر پتہ نہیں کیوں میں مسکرا دی۔ مجھے خیال آیا کہ ان ساری مفید چیزوں کوخفیہ رکھ کر اپنی ڈیمانڈ کو کم کرنا کون گوارا کر سکتا ہے۔
آخری باب ہے؛ زندگی کی نقش گری؛ سبطِ حسن صاحب کہتے ہیں کہ انسان نے غاروں میں پچیس تیس لاکھ سالہ زندگی کی بیش تر مدت بسر کی ہے۔غار انسان کے کے اولین مولد و مسکن بھی تھے اور معبد و مقابر بھی۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کرہ ارض پر پندرہ لاکھ برس سے ہے۔ اور یہ کہ انسانی تہذیب کو تین ادوار یعنی پتھر کا زمانہ، دھات کا زمانہ اور لوہے کا زمانہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔اس باب میں وہ بتاتے ہیں کہ ابتدائی زمانہ جو چھوٹے چھوٹے قبیلوں پر مشتمل تھا جو اجتماعی زندگی گزارتے تھے جن کے آلات و اوزار مشترک جن کا شکار مشترک تھا ۔ مل کر کھاتے تھے۔ جو اشتراکی نظام کی بہترین مثال ہے۔ساحر روحانی پیشوا ہوتا تھا جس کی ضرورتیں قبیلہ پوری کرتا تھا۔تب کا انسان مذہب سے نا آشنا تھا۔ مافوق الفطرت طاقت کو نہیں مانتا تھا بس دیوی دیوتائوں کی پرستش کرتا تھا۔
کتاب کے آخر ی حصے میں بھی کچھ بہت اہم چیزوں پر بات کی گئی ہے۔جس میں توہم پرستی اور جادوٹونے ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پرانی تاریخ کے مطابق بیماریوں یا ان کی وجوہات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے بس ہر بیماری کو جن بھوت کی کارستانی سمجھتے تھے اور اس کا علاج وہ جادو منتروں سے پروہت کیا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے اسباب کے ساتھ ان کی دوائیں بھی دریافت ہوتی چلی گئیں اور بیماریوں کا علاج ہونے لگا اور لوگوں کا توہمات پر اعتقاد اٹھتا چلا گیا۔ لیکن اس کے باوجود توہم پرستی اس قدر آسانی سے کہاں جان چھوڑتی ہے لہٰذا اب جھاڑ پھونک کا کاروبار جاری ہے جسے توہم پرستوں نے آباد رکھا ہوا ہے۔
کتاب پڑھ کر میں نے ایک زبردست مسرت پائی۔ایک بہت زبردست ایک بہت ہی مفید کتاب سب کو پڑھنی چاہیے۔ لیکن میں ضرور کہوں گی کہ جب بھی کوئی یہ کتاب پڑھنے بیٹھے تو اپنی ساری تنگ نظری، ابہام کو ایک طرف رکھ کر کھلے ذہن سے پڑھے ۔اگر کوئی اسے ایک خاص مائنڈ سیٹ رکھ کر پڑھے گا، اس کو اس سے کچھ نہیں ملنے والا ، اس کا بس چلے تو اس کتاب کو بھی یاتو قتل کرے یا پھر عمر قید کی سزا دے۔ بس اتنا کہوں گی خود کو جھوٹ اور فریب سے نکالنے میں یہ کتاب مددگار ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*