صادقین

آنکھ کھولی تو گھر میں ایک ایسی شخصیت کو اپنے قریب پایا جو اپنے انداز ، اطوار اور رویے میں عام لوگوں سے بڑی حد تک مختلف تھی۔ دُبلا جسم لٹھے کا پا جامہ، ڈھیلا ڈھالا کر تہ جس پر جھولتی ہوئی شیروانی جس کے اکثر و بیشتر یا تو تمام بٹن کھلے ہوتے یا زیادہ سے زیادہ نیچے کے دو ایک بند ہوتے ، زندگی کے معمولات میں لا اُبالی پن اور بے پرواہی کا سا انداز ، کھانے کا وقت بھول گیا جب مل گیا جہاں مل گیا زندگی کی لازمی ضرور سمجھتے ہوئے کھالیا۔ نہ سونے کا کوئی مقررہ وقت ، مقام۔ جب تک جاگا جاسکا جاگے اور جب فطرت سے مجبور ہوکر نیند کے آگے بے بس ہو گئے تو جہاں ہوئے وہیں ہتھیار ڈال دیے اور دراز ہو گئے۔ جس وقت آنکھ کھلی بیدار ہوگئے۔ گھر سے نکلنے کے لیے وقت کی قید سے آزاد ، واپسی کی کسی پابندی سے مبرا۔ زندگی کی پابندیوں سے آزاد، نہ رات کے اندھیرے کی کوئی اہمیت، نہ دن کی روشنی کی کوئی اوقات، بس ”ایک زمانے کی رو جس میں دن کبھی نہ رات“ نہ کوئی مستقل قیام کی جگہ۔ جہاں پہنچ گئے اور دل لگ گیارہنے لگے۔ کچھ دن رہے۔ اس جگہ کا قرض فنی تخلیقات کی صورت میں ادا کیا اور آگے بڑھ گئے۔ اپنے قیام کو پڑاﺅ کہتے فن کے نخلستانوں میں پڑاو ¿ ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے۔ مشرق و مغرب کے اکثر ممالک کو دیکھا۔ ماہرین فن سے دادتحسین حاصل کی۔ لوگوں نے کہا کہ یہ مستقبل کے پکاسو ہیں۔ جب ان کا نام آرٹ کے بڑے بڑے مراکز میںروشن ہورہا تھا تو سب کچھ چھوڑ کر اپنے ملک میں واپس آگئے اور ایسے آئے کہ سوائے مختصر دوروں کے دوبارہ ُاُدھر کا رخ نہیں کیا۔ لوگوں نے بہت کہا ”یہاں کیا رکھا ہے یورپ جاﺅ، امریکہ جاﺅ۔ وہاں تمہاری شہرت ہوچکی ہے ۔ تمہارے قدر دانوں کا حلقہ بن رہا ہے ۔ دولت، عزت ، نام ونمود تمہارے انتظار میں ہیں۔ اس ویرانے میں تمہارے لیے کیا رکھا ہے ۔ یہاں کیا کروگے؟ “ تو ہمیشہ یہی کہا:
”یہاں آرٹ کا شعور پید ا کرنے کی کوشش کروں گا۔ ویرانے میں بہار لاﺅں گا۔ اس ریگستان میں کیکٹس بن کر رہوں گا ۔ یہاں کے لوگوں کے شعور پر جو مکڑی کے جالے بنے ہوئے ہیں ان کی نشاندہی کروں گا ۔ یہاں جب تک لوگوں میں آرٹ نہیں ہوگا لوگوں میں ذوق اور شعور کس طرح پیدا ہوگا“۔
یہ شخصیت تھی جناب صادقین کی جو رشتے میں ہمارے چچا، رویہ میں ہمارے دوست اور محبت اور شفقت میں ہمارے بزرگ تھے۔
وقت اور شب وروز کی قید سے آزاد چچا میاں خود اپنی ہی تعمیر کردہ قید میں کچھ اس طرح مقید تھے کہ زندگی کے آخری سانس تک وہ اس سے آزاد نہ ہو سکے۔ وہ قیدتھی زیاد ہ سے زیادہ کام کرنے کی خواہش کی۔ اپنے خیالات کے اظہار کی تصورات کو عملی جامہ پہنانے کی ۔ نئی نئی تخلیقات پیش کرنے کی۔ یہی ان کا مقصد حیات تھا۔ ان کی عمر کا شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرا ہو کہ جب انہوں نے اپنے اس فرض سے چشم پوشی کی ہو۔ ان کا یہ ایمان تھا کہ قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بہتر سے بہتر طریقے سے بروئے کار لانا ہی سب سے بڑی عبادت ہے۔ وہ کام کے وقت اپنے وجود کی تمام تر قوت کے ساتھ اس میں لگ جاتے اور جب تک وہ کام مکمل نہیں ہو جا تا ان کی بے قراری کوقرار نہ آتا۔ جس وقت وہ کلی طور پر کسی کام میں مصروف نہ ہوتے تو بھی ان کی انگلیاں خلامیں اس طرح حرکت کرتی رہتیں جیسے سامنے کینوس رکھا ہواور ذہن میں پیدا ہونے والے تصورات اس پر منتقل ہورہے ہیں۔ ان کے اس تخلیقی عمل کی شدت اور کرب کو شاید ہی کوئی دوسرا سمجھ سکتا ہو۔
جاری ہو اگر شدت تخلیق کا دور
مت پوچھو مری جان تو اس وقت کے طور
جو بندہِ اللہ پہ گزری وہ سب
اللہ ہی جانتا ہے ورنہ کون اور
وہ اپنی تمام زندگی کے برعکس کام کو انتہائی ترتیب اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کرتے ۔ ان کی نمائشیں فن ترتیب کی بھی ایک مثال ہوتیں۔ ماحول کو زیادہ اثر انگیز بنانے کی کوشش کرتے ۔ خطاطیوں یا تصاویر کی ترتیب میں گھٹاو ¿ کا خاص خیال رکھتے۔ خودان کولگواتے اور برش رنگ اور مختلف سائز کے کینوس ساتھ رکھتے۔ اگر انہیں کوئی ایسا گوشہ نظر آتا جس کی وجہ سے نمائش کے گھٹاﺅمیں فرق پیدا ہورہا ہوتا تو اس وقت موقع کی مناسبت سے کوئی تصویر بنا کر
لگادیتے ۔ تصاویر کے علاوہ دیگر اشیا سے بھی موقع کی مناسبت سے ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ جنگ کے موضوع پر بنائی ہوئی تصویر کے گرد مثلا خاردار تار لگا دیے یا منافقت کے بارے میں تصویر کے قریب کسی طر یقے سے اس کا اظہار کرتے۔
خطاطی کی پہلی نمائش کے موقع پر انہوں نے آرٹس کونسل کے ہال محرابوں اور صفوں سے اس طرح آراستہ کیا تھا کہ وہ ایک مقدس مقام نظر آنے لگا تھا اور آنے والے کے دل میں اس ماحول کی وجہ سے بڑا احترام پیدا ہوجاتا۔
کام کے سلسلے میں جلد بازی اور اسے کم سے کم وقت میں مکمل کر لینا ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ وہ بیک وقت کئی تصاویر پر کام شروع کرتے اور ان کی منصوبہ بندی اس طرح ہوتی کہ ایک کینوس پرسکیچ ہورہا ہے تو دوسری پر رنگ کا پہلا کوٹ اور تیسری پر اگلا مرحلہ۔ ہر تصویر کامکمل آئیڈیا اور خاکہ ان کے ذہن میں ہوتا۔ وقت کی تقسیم میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا کہ کون سی تصویر کا کون سا مرحلہ ہے اور کون سی کب اس قابل ہوگی تو اس پر اگلا مرحلہ شروع کیا جاسکتا ہے ۔اس طرح وقت کی تقسیم اور منصوبہ بندی کی بدولت کم سے کم مدت میں زیادہ سے کام ہو جاتا۔
اس طرح جس زمانے میں رباعیات کہنے کا عمل جاری تھا بلکہ رباعیات ہی کہی جاری تھیں تو ان کی تخلیق ، پھر انتخاب، ان کو فیئر کرنا ، ان کی خوش خطی اور کتاب کی ڈمی تیار کرنا ۔ یہ تمام کام ایک ساتھ جاری تھے۔ شام کو منتخب رباعیات کو خوش خط کرنا، پھر رباعیات کا انتخاب ،ان کو فیئر کرنا اور رات کو نئی رباعیات کی تخلیق جو پوپھٹنے تک جاری رہتی ۔ منہ اندھیرے ہمیں رات بھر میں کہی ہوئی رباعیات سناتے بھی تھے ۔ ہمارا جواب سوائے ”بہت اچھی “ یا ”جی جی “‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ویسے بھی ناشتے میں کون شعر سُن سکتا ہے ۔ پھر اگر ہمت ہوتی تو تھوڑا بہت ناشتہ کر لیتے اور پھر مختصر وقت کے لیے سوجاتے اور ڈھیر ہوجاتے ۔ تقریباً سہ پہر سے یہ عمل دوبارہ جاری ہوجاتا ہے ۔ اس طرح چند ماہ میںایک ہزار سے زیادہ رباعیات کی کتاب تیار ہوگئی۔
ان کا کام کرنے کا مقصد اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا یا تخلیقی عمل کے کرب سے نجات حاصل کرنا تھا ۔ رات دن کی محنت سے بنائی ہوئی تصاویر کی نمائش کے بعد انہیں یہ معلوم بھی نہیں رہتا تھا کہ وہ کہاں ہیں کس کے پاس ہیں اور کس حال میں ہیں۔ جو بھی پہچاننے والا مانگ بیٹھتا اُسے دے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں تصاویر بنانے کے باوجود ان کا اپنا کوئی کلیکشن نہیں اور سوائے اُن تصاویر کے جو اُن کے انتہائی قریبی دوستوں کے پاس محدود تعداد میں محفوظ ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں؟
ان کے حلقہ احباب میں رکشہ والے اور ہسپتال کی جمعدارنی سے لے کر ارباب حکومت ، افسران ، تاجر، صنعت کارسب ہی شامل تھے ۔ مگر وہ کسی کے گھر شاذونادر ہی جایا کرتے تھے۔ عام طو ر پر جس کسی کو ان سے ملاقات کرنی ہوتی وہ خود ہی آتا۔ 1959میں ایک وزیر صاحب نے اُن کے گھر آنے کی خواہش ظاہر کی۔ ہمارا گھر آج ہی کی طرح معمولی قسم تھا۔ہمارے والد جواُن کے بڑے بھائی تھے نے سوچا کہ ملک کا وزیر گھر آرہا ہے کم از کم ۔ ع آج ہی گھر میں بور یا نہ ہوا۔ ۔ والی صورت تو نہ ہو۔ اُنہوں نے گھر کی صفائی کا خاص اہتمام کیا۔ میز پر نئے میز پوش بچھائے۔ تمام اشیا ترتیب سے رکھیں۔ جابجا سگریٹ کے بکھرے ہوئے بے شمار ٹوٹے ایک طرف کرائے ۔ دیگر جو بھی اہتمام ہوسکتا تھا وہ کیا مگر جب چچا خود کہیں باہر سے آئے تو یہ اہتمام دیکھ کر ناگواری کا اظہار کیا اور بڑی کوشش سے پہلے والی صورت حال بحال کردی۔ اور اسی حالت میں وزیر موصوف کا استقبال کیا۔
اس کے برعکس ایک گھڑی بیرون ملک سے اُس کے بھائی نے لا کر دی ۔ وہ اُسے ہاتھ پر کیا ہی باندھتے ، پہلی فرصت میں اپنے دوست رکشہ والے کو دے دی۔ اسی طرح ہسپتال کی جمعدارنی کی جو تصویر ایک اخبار پر بنائی تھی اپنے کمرے کی دیوار پر اس طرح لگائی کہ ہرآنے والا سب سے پہلے اسی کو دیکھتا۔ اس کی شان میں ایک رباعی بھی کہی تھی۔
گو پیک بہت تھوک رہی تھی لچھمی
خدمت میں کہاں چوک رہی تھی لچھمی
اسپتال کے اس ویرانے میں
کوئل کی طرح کوک رہی تھی لچھمی
(ممکن ہے کسی مصرع میں غلطی سرزد ہوگئی ہو۔ مجھے پوری طرح یادنہیں)
ان کے رہنے کی جگہ خواہ وہ گھر ہو یا لاہور کے عجائب گھر – باغ جناح کی پہاڑی ہویا آرٹس کونسل، نیپا کا فلیٹ ہو یا جناح اسپتال یا کوئی دوسرا مقام ان کے دروازے ہر آنے والے کے لیے کھلے ہوتے۔ آنے والے آتے اور جاتے رہتے۔ ان کی عمر کی قیدتھی اور نہ مر تبے کی۔ سکول کالج کے طلبا سے لے کر ریٹائرڈ افرادسب ہی ان میں شامل ہوتے تھے۔
لوگ فرمائشیں کرتے رہتے اور وہ پوری ہوتی رہتیں۔ کوئی آنے والا خالی ہاتھ واپس نہ جاتا۔ بعض اوقات تو کئی وقت کا کھانا صرف اس لیے ناغہ ہو جاتا کہ آنے والوں کا تسلسل ٹوٹتا ہی نہیں تھا۔ جو ان کی صحبت میں ایک بار شریک ہو جا تا وہ وہیں کا ہو ر ہتا اورآمد ورفت کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔جو لوگ اس شخصیت کی قربت سے محروم رہے وہ اس گرمجوش اور جذبے کا اندازہ نہیںکر سکتے جوان کی طبیعت کا حصہ تھا۔
صادقین نے فن کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ہر چند کہ وہ بنیادی طور پر ایک مصورتھے اور اُن کی شہرت کا آغاز بھی بحیثیت ایک مصور کے ہی ہوا تھا جس کی ابتدا پاکستان میں تو پچاس کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ہی ہوگئی تھی اور ساٹھ کی دہائی کی ابتدا ہوتے ہی اُن کا نام یورپ کے آرٹ سے تعلق رکھنے والے علاقوں میں سنائی دینا شروع ہوگیا تھا اور 1941میں وہ پیرس میں اپنی بنائی تصویر پر اعزاز حاصل کر چکے تھے اور1967میں وہ جب پاکستان آئے تو یورپ اور امریکہ کے تقریباً تمام بڑے آرٹ کے مراکز میں اپنی تصاویر کی نمائش کر چکے تھے ۔
خطاطی کی ابتدا بھی دراصل مصوری ہی کی مرہون منت ہے ۔ 1968میں وہ کراچی میں ہر ماہ بنائی ہوئی تین تصاویر کی نمائش کر رہے تھے۔ اسی سلسلے میں اُنہوں نے غالب کے اشعار پر مبنی تصاویر بنائیں اور ان کے اشعار کی چھوٹی تختیوں پر خطاطی بھی کی جس کے بعد ہی انہیں یہ بھی خیال ہوا کہ کیوں نہ آیات قرآنی کی خطاطی کی جائے ۔ اگلا مہینہ رمضان کا آرہا تھا۔ اسی کی مناسب سے اُنہوں نے خطاطی کے فن پارے تیار کیے اور یوں خطاطی کا آغاز ہوا۔
شعر پڑھنے اور لکھنے کا شوق بھی انہیں اپنی ابتدائی عمر کے ابتدائی زمانے سے ہی تھا۔ شروع میں وہ اپناتخلص صدق کہا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ان کی شاعری جو ضائع ہونے سے رہ گئی وہ ایک مختصرسی کتاب جزِ بوسیدہ “ کے نام سے شائع بھی ہوچکی ہے۔ 1969 میں انہیں باقاعدہ شاعری کرنے کا خیال آیا اور اگلے چند ماہ میں انہوں نے تقریبا پندرہ سو رباعیات کہہ ڈالیں۔
صادقین نے فن کی جس صنف میں بھی طبع آزمائی اس کا بنیادی خیال ایک ہی ہو تا تھا۔ ان کی مصوری ہو یا خطاطی یارباعیات وہ اپنے بنیادی خیال سے کہیں بھی نہیں ہٹے۔ ان کی تصاویرکی ترجمانی رباعیات میں ہوتی ہے اور اسی طرح رباعیات کی ترجمانی تصاویر کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں۔
ایک بار میں ساحری بھی کر کے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کر کے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوری بھی کر کے دیکھوں
ان کا بنیادی خیال انسانی آزادی اور اس کی محنت کی عظمت ، حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد اور معاشرے کے منافقانہ رویے کے خلاف جہاد ہے ۔ اپنے اس خیال کا اظہار وہ انتہائی بھرپور انداز سے کرتے تھے اور اس کا سمجھنا اتنا آسان ہوتا ہے کہ ایک معمولی سمجھ کا شخص بھی اس کو سمجھ لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مقبولیت عوام میں اتنی ہوئی جو شاید کسی دوسرے فن کار کے حصے میں نہ آئی ہو۔ جہاں تک خواص میں مقبولیت کا تعلق ہے اس کی وجہ توان کی فن شناسی یا اس کااظہار ہوسکتا ہے جس کو وہ خودبھی سمجھتے تھے۔
زیبا نہیں خود کروں جو اپنی توصیف
آئے کوئی کہتا ہوں کہ رکھیے تشریف
گندھارا کا کارنس یہ گوتم لیکن
کرتا ہے میرے ذوقِ ہنر کی تعریف
لیکن جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے انہیں نہ تو اپنے آپ کو باذوق ثابت کرنے کاشوق ہوتا ہے اور نہ ہی ان میں منافقانہ اظہار کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ان کی پسند اور ناپسند کا اظہار صرف اُن کے مسائل کی ترجمانی اور وہ رشتہ ہوتا ہے جو ایک فنکار اُن کے ساتھ شامل ہو کر جوڑ تاہے اور اس کی کہی ہوئی بات عام انسان کے دل میں اتر جاتی ہے۔ صادقین نے نہ صرف معاشرے کے انتہائی پسماندہ طبقے سے رشتہ جوڑا بلکہ وہ اُسے وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط چلے گئے ۔
ہم نالے پہ کاٹتے ہیں راتیں اے یارو
کیوں ہم سے یہ کر رہا ہے گھاتیں اے یارو
ہم تو ہیں گٹر میں غرق ہم سے مت چھیڑ
یہ کوثر و تسنیم کی باتیں اے یارو
انہوں نے اپنے فن کے ذریعے اس ظلم و ناانصافی کی ترجمانی کی ہے جو ہمارے معاشرے میں جاری رہتا ہے۔ ان کی اکثر تصاویر میں رویے کی عکاسی کی گئی ہے۔ کہیں ظلم قوتوں نے انسان کا سر کاٹا ہوا ہے تو کہیں ان کی کھال اُتار رکھی ہے اوران کو پابند سلاسل کیا ہوا ہے ۔ لیکن وہ ساتھ ہی ان تمام مظالم کے خلاف ہونے والی جدوجہد میں بھی شریک ہیں۔ ان کا ہیرو سر کٹنے کے باوجودظلم کی تلوارتوڑ تا ہوا نظر آتا ہے اپنے خون سے مقتل کی زمین سیراب کرتا ہے اورانسانیت سے محبت کاپیغام دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ حق اور صداقت کی تبلیغ میں جان دیتا ہے۔
گو ہاتھ میں لرزش تھی وہیں پر لکھا
تھا خوب جلی لوح یقین پر لکھا
سر کٹتے ہی ایک لفظ محبت میں نے
انگشت سے منتقل کی زمین پر لکھا
”ہو “بھی انھی مقتل میں کہا تھا یارو
ایک وار میں پھر خون بہا تھا یارو
سر میرا کٹا پڑا تھا لیکن پھر بھی
حق حق لب سے نکل رہا تھا یارو
صادقین نے جتنی بھی تصاویر بنا ئیں ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جولوگوں کے ڈرائنگ روم کی زینت بن کر اس کی رنگین میں اضافے کا سبب بن سکتی ہو۔ اس لیے کہ ان کا ذہن ہمارے معاشرے کی بے انصافیوں اور تاریکیوں سے اس درجہ متاثر تھا کہ ان میں رنگینی ظاہر ہی نہیں ہو پاتی تھی۔ اسی سبب ان کی تصاویر میں گہرے اور تاریکی سے قریب رنگ استعمال ہوئے ہیں جو اس معاشرے کی حالت کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انسانیت کے مستقبل سے مایوس تھے۔ انہیں تصاویر میں کہیں نہ کہیں روشنی کی علامت بھی نظر آئے گی۔ وہ اس روشنی کی تلاش میں طویل عرصے تک مصائب برداشت کرنے اور جدوجہدکرنے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ نامساعد حالات کا وہ جگہ جگہ مذاق اڑاتے اور ان کے سامنے سپرپر نظر آتے۔
صحرا کی حرارت کو دکھاتا ہے مذاق
سورج کی تمازت کا بناتا ہے مذاق
ہاں ناگ پھنی پھیل کے اونچا ہوکر
موسم کے مظالم کا اُڑاتا ہے مذاق
وہ ایک ایسے فنکار تھے جو اپنا تعلق زندگی کی حقیقتوں سے قائم رکھتے اور خیالات اور افسانوں کی دُنیا سے ان کاتعلق کسی بھی وقت نہیں ہوا۔ انہوں نے تصاویر میں جو کچھ پینٹ کیا یا اپنی رباعیات میں جو کچھ کہا وہ زندگی کا حقیقی ترجمان ہے۔ انہوں نے اپنے فن پارے ڈرائنگ روم کی آرائش کے لیے تخلیق نہیں کیے بلکہ ان تلخ حقائق کو موضوع بنایا جن کے ذکر سے لوگ کتراتے ہیں اور ان کے لیے بد ذوقی کی علامت ہوتا ۔
میں خانہ زردار سجاو ¿ں کیسے
افسانہ حقیقت کو پاو ¿ں کیسے
موجود ہیں زندہ خار آخر تصاویر
ان کاغذی پھولوں کی بناو ¿ں کیسے
ہے ذوق جمال کو جگانے کے لیے
یہ چیز ہے دلوں میں سمانے کے لیے
کس سے کہوں تصویر نہیں ہوتی ہے
عشرتِ گہہ زردار سجانے کے لیے

صادقین اپنی فنی اور عام زندگی میں ایک کھلی کتاب تھے ۔ جو کچھ وہ سوچتے تھے اس کا اظہار وہ اپنے فن ذریعے بغیر کسی لحاظ وتکلف برملا کرتے تھے۔ ان میں منافقت نام کو نہیں تھی اس لیے وہ ایک منافق کے مقابلے میں ایک کھلے کافر کو زیادہ قابل عزت اور سچا انسان سمجھتے تھے ۔وہ اچھائی کے متلاشی تھے۔ برائیوں پر ان کی نظر نہیں جاتی تھی ۔
کب مسلکِ کفر میں ہے کچاکافر
دیتا نہیں ایمان کا غچا کافر
میری تو نظر میں ہے بہت ہی بہتر
اک جھوٹے مسلماں سے سچا کافر
انہوں نے جو بھی اسلوب اپنایا وہ ان کا اپنا تھا۔ نہ مصوری میں نہ شاعری میں اور نہ خطاطی میں انہوںنے کسی سے اصلاح لی۔کسی کا شاگرد ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔
صادقین معاشرے میں افراد کو ایک زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے منسلک سمجھتے تھے جس میں ہرکڑی اپنی انفرادیت بھی قائم رکھتی ہے اور اگر وہ الگ الگ ہوجائیں تو ان کی حیثیت لو ہے کے ایک چھلے سے زیادہ نہیں رہ جاتی ۔ اس طرح فرد کا بھی اس معاشرتی زنجیر سے اس طرح منسلک رہنا کہ اس کی آزادی ، انفرادیت اور اس کے وہ تمام حقوق جو بحیثیت انسان کے اُسے قدرت نے عطا کیے ہیں محفوظ رہیں۔ تصاویر اور باعیات میں تو اپنے اس خیال کا اظہار انہوں نے جابجا کیا ہے ۔ خطاطی میں بھی انہوں نے جو انداز اختیار کیا وہ بھی ان کے تصور کی ترجمانی کرتا ہے جس میں الفاظ آپس میں اس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ہر حرف اپنی انفرادی شکل پر مکمل طور پر قائم رہتا ہے اور اگلے حرف کو اپنے اندر سموتے ہوئے الفاظ کی شکل اختیار کرتا چلا جاتا ہے اور قاری کو ان الفاظ کو پڑھنے میں بھی مشکل درپیش نہیں آتی۔ گویا جس طرح ایک مہذب معاشرے میں انسان اپنی انفرادی شخصیت کو بغیر قربان کیے دوسرے افراد کے لیے جگہ پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور معاشرے کی زنجیر طویل تر ہوتی چلی جاتی ہے اسی طرح ہر حرف اپنی انفرادیت قائم رکھتے ہوئے الفاظ کی سطور کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*