قومی زبان

زبان جہاں ذریعہِ اظہار اور انسانوں کے درمیان ربطِ باہم ہے، وہاں وہ طبقاتی و قومی جدوجہد کا ذریعہ بھی ہے۔وہ جہاں ذریعہِ تعلیم ہے، وہاں حصولِ اقتدار اور دوامِ اقتدار کا آلہ بھی ہے۔ہم ایک کثیر اللسانی ملک میں رہتے ہیں، جہاں ہر ایک صوبے میں ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والی لسانی اقلیتیں ،گروہ اور قومیں موجود ہیں۔پاکستان میںرجعت پسند بورژوازی پر مشتمل حکمران طبقات اور اس کے اتحادی جاگیر دار، سجادہ نشین پیر اور ملا اور ان کی پارٹیاںہمیشہ ایک ہی زبان اردو کی حاکمیت یعنی سرکاری اور مقتدرہ زبان پر زور دیتے ہیں اور باقی زبانوں کو کم تر سمجھ کر نہ صرف نظرانداز کرتے ہیں بلکہ انہیں ا سی سرکاری زبان کے ماتحت اور تابع رکھنا چاہتے ہیں۔یہ ڈراما پاکستان میں ابتدا سے ہی کھیلا جارہا ہے۔جب پاکستان کے حکمران طبقے نے ایک ایسی زبان یعنی اردو کو یہاں کی سب زبانوں اور قوموں پر مسلط کردیا،جو یہاں کی کسی قوم کی مادری زبان نہیں تھی۔اس دن سے پاکستان کی ساری زبانیں محکوم ہوگئیں۔
پاکستان میںلازمی سرکاری زبان اردو کا کیا مطلب ہے؟ حکمران طبقے کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے، جس نے تشکیلِ پاکستان میں ایک نظریاتی آلے کا کردار ادا کیاہے۔ہندی اردو تنازع کے پس پردہ اسی زبان نے مسلمانوں کی نمائندگی کی ہے۔بعض انتہا پسندوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کو کسی نے نہیں بنایا بلکہ اردو نے بنایا ہے۔اس ضمن میںمولوی عبدالحق کہتا ہے:
”پاکستان کو نہ جناح نے بنایا نہ اقبال نے بلکہ اردونے پاکستان کو بنایا۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں میں اختلاف کی اصل وجہ اردو زبان تھی۔ سارا دو قومی نظریہ اور سارے ایسے اختلاف اردو کی وجہ سے تھے، اس لیے پاکستان پر اردو کا بڑا احسان ہے۔”
مولوی عبدالحق نے صرف اردو کو ہی مسلمانوں کی زبان قراردیا اور باقی ہماری ساری زبانوں پر کفر کا فتویٰ صادر کردیا۔ پروفیسر کرار حسین بھی یہاں کی قومی زبانوں کو اردو کے مقابلے میں کم تر تصور کرتے ہوئے کہتا ہے:
‘ ‘اپنی علاقائی زبان اور ادب پر فخر بجا لیکن یہ نہیں کرنا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس فخر کے اندر محبوس کر لیں ……اس لیے کہ یہ اس ادب کی خدمت نہیں ہوگی۔ اس لیے علاقائی ادب کے علمبرداروں سے کہتا ہوں کہ اگر اردو کا ادب قومی ادب نہیں ہے، قومی زبان نہیں ہے ان سے ورخواست ہے کہ پھر قومی زبان بناﺅ ۔اس لیے کہ اس کی ضرورت ہے کہ آج وہ دورہے کہ الگ تھلگ رہ کر کوئی جی نہیں سکتا "۔
باوجودیکہ اردوپاکستان کی پچیس کروڑ آبادی میں ایک چھوٹی سی اقلیت کی مادری زبان ہے۔لیکن اس لسانی اقلیت میں بھی اردو کے مختلف لہجے اور بولیاں رائج ہیں۔یعنی یہ اردو کسی کی بھی مادری زبان نہیں ہے۔ جس میں ہم لکھتے پڑھتے اور بولتے ہیں۔ لیکن پھر بھی حکمران طبقہ بضد ہے کہ اردو کو بہت بڑی اکثریت پر مسلط ہونا چاہیے۔ تمام سرکاری مراسلت دیگر قومی زبانوں بلوچی، نراہوئی،پشتو، سندھی، سرائیکی اور پنجابی میں نہیں بلکہ سرکاری زبان اردو میں ہونی چاہیے۔ جو بورژوا پارٹیاں لازمی سرکاری زبان کی حامی ہیں، ان کا موقف ہے کہ پاکستان کو سالم اور غیر منقسم ہونا چاہیے اور تمام دیگر قوموں کو عظیم پاکستانی ریاست کی لازمی سرکاری زبان کی اطاعت کرنی چاہیے۔ کیوں کہ یہ اردو زبان ہی تھی، جس کے ذریعے مسلمانوں نے پاکستان حاصل کیا۔ اسی زبان نے پاکستان کی تمام قوموں کو متحد کیا ہے اور اب تک کررکھا ہے۔
اس لسانی پالیسی کے خلاف مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کی بنگالی قوم نے بھاشا اندولن کے نام سے احتجاج کیا،جس کا مقصد بنگلہ زبان کو مشرقی پاکستان کی قومی زبان کے طور پر منوانا تھا۔اس تحریک کو کمیونسٹوں کی سازش بھی قراردیا گیا۔حالاں کہ بھاشا اندولن ایکشن کمیٹی کے بارہ ارکان میں سے یوتھ لیگ کے چار کمیونسٹ شامل تھے۔ لیکن حکمران طبقے نے اس کے احتجاج کو تشدد سے کچلنے کی کوشش کی اور کئی پر امن۔ نہتے اور معصوم بنگالی طالب علموں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔یہ دن اکیس فروری کا وہ دردناک تاریخی دن تھا،جب1952 ءمیں ڈھاکہ یونی ورسٹی کے طالب علموں نے بھاشا اندولن ایکشن کمیٹی کی قیادت میں اپنی مادری زبان بنگلہ کے حق کا مطالبہ کیا۔یونی ورسٹ ی کا پولیس نے گھیراﺅ کیا، آنسو گیس اور لاٹھی کا استعمال کیا۔آخر کارپاکستانی حکمرانوںنے ان طالب علموں کے پرامن احتجاجی مظاہرے پر گولی چلادی تھی،جس کے نتیجے میںعبدالسلام، ابوالبرکت،رفیق الدین احمد،عبدالجبار اور شفیق الرحمان شہید ہوگئے اور بہت سے طالب علم زخمی ہوگئے۔” شہید ہونے والوں کی تعداد جن رپورٹوں میں دی گئی ہے ،اس میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ایک طالب علم مارا گیا اور نو زخمی ہوگئے۔بعدازاں زخمیوں میں سے دو اور فوت ہوگئے۔ ایک اور رپورٹ میں مرنے والوں کی تعداد نو بتائی گئی ہے، جن میں تین طالب علم اور چھ باہر کے لوگ تھے۔ ایک اور سرکاری رپورٹ میں شہید ہونے والوں کی تعداد انتیس اور زخمیوں کی تعداد تین سو بتائی گئی ہے۔ جب کہ ایک رپورٹ میںشہید ہونے والوں کی تعداد 165 بھی بتاتی ہے،جن میں گیاہ لڑکیاںشامل تھیں۔ بہرحال تعداد جو بھی تھی حکمران طبقے نے بنگالی طالب علموںکے خون سے اس دن کی تاریخ رقم کردی تھی۔اسی وجہ سے اسے ہر سال منایا جانے لگااور یونیسکونے اس دن کو مادری زبان کا عالمی دن قراردیاہے۔اس لیے یہ دن عالمی سظح پر منایا جاتا ہے۔
اس دن سے ساری دنیا نے سبق سیکھاہے۔اگر کسی نے نہیں سیکھاہے تو وہ پاکستانی حکمران طبقہ ہے،جس نے اس دن سے اب تک بھی کچھ بھی نہیں سیکھاہے ۔کیوں کہ جب اس واقعے کے دو عشروں بعد سات جولائی 1972 ءمیں سندھ اسمبلی نے سندھی لینگوئج بل منظور کیاتو اسے بھی اردو کے خلاف ایک سازش سمجھا گیا اوردوبارہ سندھی اور اردو تنازع شروع ہوا ۔ حکمران طبقے نے سندھی زبان کا حق مانگنے والوں کو بھی تشدد سے کچلنے کی کوشش کی اور ایک رجعت پرست شاعر نے” اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ” کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جلتی پر تیل کا کام کیا۔فسادات ،بلوے اور دنگے ہوئے ،جس کے شعلے کراچی تا پنجاب بھڑکتے رہے۔ لیکن حکمران طبقے کی جابرانہ سرکاری لینگوئج پالیسی میں کوئی بھی فرق نہیں آیا۔وہ جاری رہی اور اب تک بڑی شدومد سے جاری ہے۔دوسری طرف ستم بالائے ستم یہ کہ رجعت پسندپیٹی بورژوادانشوروں کی نام نہاد تحریک نفاذِ اردو ایسی رجعت پرست تحریک بھی جاری ہے،جسے سرکاری پشت پناہی حاصل ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تحریک کے علمبرداروںنے اردو کو تو پہلے سے ہی ہمارے سروں پر مسلط کیا ہوا ہے اور ا ب وہ مزید ا س کا کہاں کہاں نفاذ کرنا چاہتے ہیں۔
اس پر مستزاد یہ کہ پاکستانی حکمران طبقے کی بے شرمی اور ڈھٹائی دیدنی ہے کہ وہ ہرسال اس دن کو پاکستان میں سرکاری طور پر بڑی دھوم دھام سے مناتا ہے۔ یہ اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بھی منایا جاتا ہے،جس میں سرکاری اور درباری مراعات یافتہ اور مراعات جوئند ہ شاعر،ادیب اوردانشور اپنے مقالے اور نظمیں پڑھ کر بڑے بڑے انعامات و اکرامات اور مراعات حاصل کرتے ہیں۔کیوں کہ وہ اس دن کی حقیقت پر پردہ پوشی کرتے ہیں،جو دراصل پاکستانی حکمران طبقات کو ان کی ظالمانہ لسانی پالیسی کے خطرناک نتائج کی یاد دلاتی ہے۔اس طرح وہ سرکاری لینگوئج پالیسی کی حاشیہ برداری کرتے چلے آرہے ہیں۔ان میں کچھ شاعر،ادیب اور دانشور تو ایسے بھی ہیں،جو ہروقت پنی زبان کی مظلومیت و محکومیت کا رونا بھی روتے رہتے ہیں مگر اسلام آباد اور کراچی میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس اور مادری زبان کے عالمی دن کی سرکاری تقریب میں جاکر اردو کی حاکمیت کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اپنی زبان پر اردو کی حاکمیت اور اس کی مقتدرہ حیثیت کوتسلیم کرلیتے ہیں۔
قوم پرست پارٹیاں،جو پارلیمانی سیاست میں یقین رکھتی ہیں، اس لحاظ سے رجعت پرست بورژوازی سے مختلف ہیں کہ وہ قومی مادری زبانوں میں ذریعہ تعلیم کا حق تسلیم کرتی ہیں۔ لیکن جب لازمی سرکاری زبان کی ضرورت کا سوال پیدا ہوتا ہے تو وہ رجعت پرستوں سے مکمل طور پر متفق ہو جاتی ہیں کہ لازمی سرکاری زبان ضروری ہے۔اس سلسلے میںقوم پرست پارٹیوں کا رویہ دیدنی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ قومی مادری زبانوں میں پرائمری سطح پر تعلیم کی اجازت دی جائے اور اس کے ساتھ وہ لازمی سرکاری زبان کو بھی ضروری سمجھتی ہیں۔ اس کی مثال ستر کی دہائی میں بلوچستان اور خیبر پشتونخواہ میں نیپ کی ڈیڑھ سالہ قوم پرست حکومتوں نے اپنے اپنے صوبوں میں اپنی صوبائی قومی زبانوں کے بجائے اردو کو اپنے اپنے صوبوں کی قومی زبان قرار دیا۔ بعدازاں اختر مینگل کی اٹھارہ ماہ) (1997-1998پر مشتمل وزاتِ اعلیٰ کے دوران میں اور ڈاکٹر مالک کی ڈھائی سالہ(7th June 2013-23th December 2015) وزارتِ اعلیٰ کے دوران میں بھی ان قوم پرستوں کی لینگوئج پالیسی مرکزی لینگوئج پالیسی سے رتی بھر بھی مختلف نہیں تھی۔انہوں نے اپنی صوبائی لینگوئج پالیسی مرتب کرنے کے سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیاہے۔حتیٰ کہ قومی مادری زبانوں میں پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم رائج کرنے میں بھی نام رہے ہیں۔حکومت سے برطرف ہونے کے بعد انہوں نے اپنی اس ناکامی کا یہ جواز پیش کیا کہ انہیں ایسا کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔حالاں کہ ” گربہ کشتن روزِ اول” کے مصداق ڈیڑھ سالہ اور ڈھائی سالہ دورِ اقتدار ایسا کرنے کے لیے کچھ کم تو نہیں تھا۔
ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مولانا حسرت موہانی، سجاد ظہیر، ، علی سردارجعفری، کیفی اعظمی، مخدوم محی الدین،جان نثار اختر،خواجہ غلام عباس، سبط حسن اور کئی د یگر ترقی پسندوں کی زبان عظیم ہے،جو اردو ہے اور ہم اس کے کسی طور پر مخالف نہیں ہیں۔ہم اس زبان میں اس شعروادب اور دیگر تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،جو ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر وجود میں آئی ہیں۔لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اردو زبان اس کی محتاج نہیں ہے کہ لوگ اسے صرف لازمی سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے سیکھیں۔ اسے لوگ کسی جبر و اکراہ کے بغیر بھی سیکھیں گے۔ ہم کسی بھی صورت میں قومی جبر و ظلم کے خلاف ہیںاور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ کوئی ایک سرکاری قومی زبان نہ ہو،جسے پاکستان کی ان قوموں پر خواہ مخواہ مسلط کیا جائے،جن کی وہ مادری زبان ہی نہ ہو ۔ بہ الفاظِ دیگر ہم کسی ایک زبان کی دوسری زبانوں پر حاکمیت اور مقتدرہ حیثیت کے خلاف ہیں۔ہم کسی ایک زبان کو دوسری سے برتر ہرگز نہیں سمجھتے ہیں ۔ بل کہ ہر ایک زبان کو دوسری زبانوںبرابر تصور کرتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ تمام سکولوں ،کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں ذریعہ تعلیم یہااںکی تمام قومی زبانیں ہوں۔البتہ اردو اور دیگر غیرملکی زبانوں کو بحیثیت اختیاری مضامین کے پڑھایا جائے۔ان میں سے کسی ایک زبان کو جمہوری طریقے سے لنگوا فرینکا قرار دیا جائے،جو پاکستان کی سب قوموں کے درمیان رابطے کی زبان کا کردار سرانجام دے۔نیز آئین میںایک ایسا بنیادی قانون شامل کیا جائے، جو کسی ایک ملک کی تمام مراعات کو قوموں اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کو ناجائز قرار دے۔ نیز کسی ایک قوم کی زبان اور ثقافت کی دیگر قوموں کی زبانوں اور ثقافتوں پر مسلط کرنے کو بھی ناجائز قرار دے تاکہ دیگر تمام اقوام کی زبانیں اور ثقافتیں بھی ارتقاءپذیر ہوں اور نشوونما کے تمام تاریخی مدارج طے کریں۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*