دی پریچر (مبلغ)

دھیمے مگر پر اثر لب و لہجے کے مالک کامریڈ عیسٰی بلوچ قصے کہانیوں جیسی شخصیت رکھتے ہیں۔ انہیں غمِ دنیا ! غمِ جاناں اور غمِ ذات سے افضل ہے۔ دنیا کے ہر موضوع پر دسترس اور مطالعہ رکھتے ہیں۔ گردن گردن کتابوں میں دفن اس شخص کا کمرہ سگریٹوں اور کتابوں سے مہکتا اور ایک نامعلوم اداسی کے انگ سے بھرا رہتا تھا۔ کتابیں شیلفوں تکیوں اور بستر پر سوئی ہوئی ملتیں۔ رات ڈھلے یہ کتابوں کے درمیان جگہ بنا کر تفکر کی نیم خوابی میں ڈوبا خواب تراشنے کی تگ و دو میں سو جاتا۔ اس کی پلکوں پر نیند کی دیوی ڈرتے ہوئے دستک نہیں دیتی کہ خواب ٹوٹ نہ جائیں، اور یہ خواب گر کھلی آنکھوں سے خواب تراشنا چھوڑ نہ دے۔ میں کبھی کبھار اس کی ریاضت میں مخل ہوتا، تو مسکرا کر یوں گویا ہوتا، کہ ابھی تو غم کا یہ پہلا ستارہ جاگا ہے، ابھی تو دیر ہے تقریبِ آسماں ہونا۔ یہ گوتم زادہ اس غم میں مبتلا تھا کہ غم کیوں ہے، وسائل کی نا منصفانہ تقسیم ، معاشرتی جبر اور عام آدمی کو درپیش مسائل اس کا موضوع تھے، وہ اس موضوع سے ساری زندگی اور تاحال باہر نہیں نکلا۔ کارل مارکس کے قول اور تعلیمات کا پرچار کرتا ہوا پیمبر بہت سادہ اور سیدھا تھا۔ ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہوا سفید چاندی سے بالوں والا مفکر کویت کے دوستوں میں مبلغ کہلایا۔ کامریڈ عیسٰی بلوچ پر ان کے استاد لالہ لعل بخش رند کی چھاپ تھی، اور وہ اپنے استاد کا ذکر جس محبت سے کرتا ہے اسی محبت سے ہم بھی سرشار رہتے تھے۔ کویت کا ادبی افق اگر آج ظہیر مشتاق رانا، بدر سیماب، ساجد علی ساجد اور افروز عالم کے ناموں سے چمک رہا ہے، تو اس کے پیچھے عیسٰی بلوچ کی تربیت کار فرما ہے، میں اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا کہ میں نے عیسٰی بلوچ سے بہت کچھ سیکھا۔ عیسٰی بلوچ مفکر تو ہے ہی مگر شاعر بھی بہت اعلٰی ہے، عیسٰی کی نظمیں اس کے ہونے کی دلیل ہیں ،شاعری اس کے مکمل دکھ اور ادھورے خوابوں کا نوحہ ہے۔ عیسٰی کی شاعری پر نظر دوڑائیں تو یوں لگتا ہے، جیسے کوئی مسافر سارے دن کے تھکان اوڑھ کر پڑاو¿ ڈالے خیمہ زن ہے۔
محبت اور خلوص کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا یہ شخص مایوس ہونا نہیں جانتا، اسے اپنے سفر کی کٹھنائیوں اور رائیگانیوں سے انس ہے، اسے یقین واثق ہے کہ خوشبو سفر میں ہے، اور راستے مہکے ہوئے ہیں۔ عیسٰی دیارِ غیر (کویت) چھوڑ کر انسانوں کے جنگل کراچی کے خطہء لیاری میں اب محوِ سخن ہے، اور یہ توانا آواز لیاری سے نکل کر گرد و نواح میں پھیل رہی ہے۔
کویت چھوڑے گیارہ برس بیت گئے، مگر یادیں تو اس دلہن کی مانند ہیں جو دل آنگن سے وداع نہیں ہوتیں۔ کامریڈ عیسیٰ بلوچ سارا دن کویت کی سڑکوں پر دھوپ پھانکنے کے بعد شام ڈھلے کمرے کا دروازہ بند کر کے دل کے کواڑ کھول کر دوستوں کو صدا دیتا ہے تو دوست اس کی آواز پر لبیک کہہ کر اس کے زندان پر حاضری لگوانے پہنچ جاتے ہیں۔ عیسٰی کی نیم وا ،خمار آلود آنکھیں شام کے چوتھے زینے پر روشن ہو جاتیں، دوست اسے چھیڑنے کے لئے کمیونزم کی برائی کرتے اور پھر عیسٰی ہمیں داس کیپٹل پڑھانے لگ جاتا، اور میں داس کیپیٹل کا دف بلھے شاہ کے شعروں سے مارتا۔
عیسٰی بلوچ سے ہماری پہلی ملاقات اک مشاعرے میں ہوئی، اور پھر ہم ان کی اداو¿ں کے اسیر ہو گئے۔ بہت اچھی نظم لکھتے ہیں۔ کامریڈ عیسٰی بلوچ اور مرحوم نجم عکاشی ہر محفل میں اکٹھے پائے جاتے تھے۔ مجھ سے ملنے کے بعد مثلث کے تینوں زاویے مکمل ہو گئے۔عیسٰی بلوچ کی قیام گاہ اب وہ مےکدہ تھا جہاں رندوں میں جام بٹتے تھے۔ موسیقی ، شاعری، تاریخ، فلسفہ ،غمِ دنیا اور غمِ جاناں پر سیر حاصل گفتگو ہوتی، عیسٰی کو غمِ دنیا اور ہمیں غمِ جاناں نے کہیں کا نہیں رکھا، اور استاد نجم عکاشی کو ناقدری کا غم لے ڈوبا۔ ایک دن مرے ساتھ یار جانی افروز عالم اس محفلِ رندانہ میں چلے آئے اس دن عیسٰی بلوچ عالمِ کیف و مستی میں فرمانے لگے : — دیکھو افروز افریقہ میں دو کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں اور ہم ان کے کے لئے کچھ کر نہیں سکتے، افروز عالم زیرِ لب مسکرائے اور شرارتی لہجے میں عیسٰی سے دریافت کیا کہ اس دنیا کی آبادی کتنی ہے عیسٰی نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر افروز کو دیکھا اور فرمایا تقریباََ پانچ ارب ، افروز عالم نے کہا کہ جو باقی چار ارب اٹھانوے کروڑ لوگ کھانا کھا کر سوتے ہیں تم ان کو دیکھ کر خوش کیوں نہیں ہوتے، اللہ کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے۔ یہ کورا کرارا جواب سن کر عیسٰی کی ادھ کھلی آنکھیں پوری کھل گئیں، پھر جو بحث ہوئی اس کو سمیٹنا اور کامریڈ کو قائل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ مگر افروز عالم بھی حرفوں کے بنے ہوئے تھے، وہ ایک ایسا نکتہ سامنے لائے کہ عیسٰی بلوچ واک آو¿ٹ کر گئے۔
عیسٰی بلوچ کو فیض صاحب سے عشق تھا اور ان کی ہر ادا سے فیض صاحب چھلکتے تھے۔ ان کا بس چلتا تو وہ کوئی زنداں بنا کر اپنے آپ کو اسیر کر لیتے اور تمام عمر دار پر لٹکے رہتے۔ میں نے تو ان کے حجرے کا نام زنداں رکھ دیا تھا، اور افروز عالم فرماتے تھے کے یہ وہ زنداں ہے جس کے در پر کسی دستِ صبا کو دستک کی اجازت نہیں تھی۔

نظم

تم اپنی آواز کو ذرا
وقت کی ڈوری کے ساتھ باندھ کر
فضا میں اچھال کر تو دیکھو
ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں
بہت دور تک جاتی ہیں
ایک آدھ انگلی اگر کٹ بھی جائے تو کیا ہے
ذرا سا خوں اگر بہہ بھی جائے تو کیا ہے
لہو کا رنگ تو لال ہی ہوتا ہے
لہو کا رنگ تو لال ہی رہتا ہے

غزل

کسی بھی شوق میں منزل کا یوں گماں ہونا
کسی بھی شوق میں جذبوں کا امتحاں ہونا

ہر ایک بات پہ کرتے نہیں یقیں ایسے
ہر ایک بات پہ یوں ہی نہ بدگماں ہونا

ہر ایک چیز کی قیمت کہاں معین ہے
ہر ایک چیز کی قسمت کہاں گراں ہونا

کسے نصیب ہے درد – فراق کی لذت
کسی کسی کا مقدر ہے جاوداں ہونا

نہیں ہے کوئی ستارا زمین کی مانند
برا نہیں ہے مگر چاند کا وراں ہونا

ابھی تو خون سے بھیگا نہیں ہے دامنِ دل
ابھی تو کتنے ہی اشکوں کا ہے زیاں ہونا

ابھی تو غم کا یہ پہلا ستارا جاگا ہے
ابھی تو دیر ہے تقریبِ آسماں ہونا

برا نہیں ہے مگر شوقِ آرزو عیسی
برا ہے اپنی وفاو¿ں کا رائیگاں ہونا

نظم

لڑکھڑاتی ہوئی سانسوں کی
آتی جاتی رفتار کا شکریہ
شکریہ سر اور بدن پر اگے ہوئے
چاندی بالوں کا شکریہ
چہرے پر بکھری ہوئی بے ترتیب
اور بے معنی شکنوں کا شکریہ
بدن کا بوجھ اٹھائے ہوئے دوگام
چلنے سے بیزار قدموں کا شکریہ
دماغ – ناتوان – بے سدھ کی
بے فکری اور بے نیازی کا شکریہ
آواز کو ہوا سمجھنے والے بے غرض
اور لاپروا کانوں کا شکریہ
منظروں کو آسماں سمجھ کر
بہلنے والی نظروں کا شکریہ
گھڑی سی تال پر دھک دھک کرتی
دل کی دھڑکنوں کا شکریہ
شکریہ اے خمیدہ کمر تیری
ضعیف الحالی کا شکریہ
میں نصف صدی کی قید سے آزاد ہوا
ہر چند کہ بہت دیر بعد ہوا
پر شاد ہوا —— آباد ہوا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*