درد کا دھرنا۔۔۔ امید کا مارچ

سنگت شونگال

کوہ مراد والے تربت میں بالاچ کو سرکار نے گرفتار کیا۔ اسے عدالت میں پیش کیا۔ اس کا ریمانڈ حاصل کیا۔ مگر پھر اگلے دن اسے ایک فیک encounter۔ میں تین اور بلوچ نوجوانوں کے ساتھ قتل کردیا۔
اس ناروائی ، اندھیر اور غیر بشری حرکت پر تربت اور آس پاس کے عوام غصہ سے بپھر گئے ۔ میتوں کے ساتھ ایک طویل دھرنا دیا گیا ۔ جس کے بعد میتوں کی تدفین ہوئی تو بالاچ کو کوہِ مراد میں دفنایا گیا ۔
بالاچ کی تدفین کا یہ اجتماع ایک شہید کے شایانِ شان اجتماع تھا۔یہ بلوچ یکجہتی کا اعلیٰ ترین نمونہ تھا۔لوگوں نے ہر طرح کی تفریق کو نظرانداز کر کے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ بالاچ کی تدفین کے بعد دوبارہ دھرنا دیا گیا ۔جوکہ بالآخر اسلام آباد تک عورتوں کے طویل لانگ مارچ میں بدل گیا ۔

” بلوچ یکجہتی کمیٹی” کی قیادت میں منظم کردہ تربت سے شروع ہونے والا عورتوں کا یہ مارچ طویل تقریریں کرتا ہوا، نعرے لگاتا ہوا، فاصلے طے کرتا ہوا، سرکار سے مدبھیڑیں کرتا ہوا، کوئٹہ پہنچا۔ کوئٹہ کے ریڈ زون کو تو حکومت نے کنٹینریں لگا کر بند کردیا تھا، اس لیے سریاب پہ ہی دھرنا دیا گیا ۔

تین چار دن کے بعد یہ ایک بار پھر مسنگ پرسنز کی لواحقین عورتوں کے مارچ میں بدل گیا اور اسلام آباد کی طرف جاتے ہوئے مری علاقے میں پہنچا ۔وہاں لوگوں نے امڈ امڈ کر ناز اور تقدس سے اس مارچ کا استقبال کیا۔ بہت بڑی تعداد تھی ،اور بہت باوقار جلسہ تھا۔ اور اتنی گراں قدر تقاریر تھیں کہ کوہستان دنگ رہ گیا۔
آگے کھیترانڑ کا علاقہ شروع ہوتا ہے ۔ نوجوان نسل تو جیسے پھول کے پروانے بن چکی تھی ۔ کیا بارکھان ، اور کیا رکھنی خلق ِ خدا نے کوئی روڈ ، کوئی چھت، کوئی چوک خالی نہ چھوڑا ۔ انسان ہی انسان ۔اپنی باجبروت سردار اور فرعون منش میروں معتبرین کے خوف و ناراضگی کو نظرانداز کر کے مارچ کا والہانہ استقبال کیا گیا ۔ اس کی نظیر اس سے پہلے یہاں ہزاروں سالوں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
آگے ڈیرہ غازیخان کا علاقہ تھا ۔پتہ نہیں کہاں سے لوگ نکل پڑے ۔یہاں کے بزرگ مردوں نے مارچ میں شامل اپنی بیٹیوں کو چادریں پہنا کر تکریم دی ۔احتجاج اور تحریک سے تقریباً تقریباً نا آشنا اس علاقے کےنوجوانوں اور خواتین نے پہلی مرتبہ گھروں سے باہر نکل کر نئی روایت رقم کی۔
دو دن کے بعد جب ” بلوچ یکجہتی کمیٹی” کا یہ مارچ تونسہ پہنچا تو وہاں تو مناظر ناقابلِ یقیں تھے۔دیکھنے سننے والے ہکا بکا رہ گئے ۔پہاڑوں سے اتر کر اور دیہات سے نکل کر ہزاروں بلوچ اور غیر بلوچ شہر کی سڑکوں پہ نعرہ زن ہوئے ۔ تونسہ ویٹیکن بن گیا تھا ۔۔وہاں کا اجتماع اس مارچ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔

مارچ کی اگلی منزل ڈیرہ اسماعیل خان تھا۔وہاں علی وزیر تھا، منظور پشتین کی ماں تھی۔ بہت تبرک بھرا استقبال تھا ۔

ویسے تو لانگ مارچ ہوتے رہتے ہیں مگر یہ بڑے پیمانے کا پہلا مارچ ہے جس کی قیادت خواتین کر رہی ہیں اور انہی کی بڑی تعداد اس میں شامل ہے۔بلوچ خواتین کافی عرصہ سے مزاحمتی تحریک کی علامت بن چکی ہیں۔

” بلوچ یکجہتی کمیٹی” کے اس پورے مارچ میں تقریباً ہر تقریر میں بلوچستان کے بالائی سردار طبقے کو مسترد کیا گیا۔ بہت خوبصورت انداز میں اِس ”طبقے“ خلاف اپنی تحریک استوار کی گئی ۔

مسنگ پرسنز کی لواحقین کی اس تحریک کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھنے کے لئے نہ اسلام آباد کے لوگ تیار ہیں اور نہ ہی بلوچستان میں مراعات یافتہ حکمران طبقہ اس کی اصل روح کو جانچنے کے قابل ہے ۔انہیں اندازہ ہی نہیں کہ یہ عورتیں سردھڑ کی بازی لگانے کو مجبور ہیں۔یہ عام وفا کا معاملہ نہیں ہے ، یہ تو umblical cord سے بندھے رشتے کے قتل کے درد پہ رد عمل ہے ۔برباد شدہ ماﺅں کا برباد کردینے والا ردعمل !

حکومت اندر سے اتنی کھوکھلی ہوچکی ہے کہ نہتی عورتوں سے ڈرتی ہے۔ یہ عورتیں کوئی تخریب کار نہیں تھیں۔ وہ انصاف لینے کے لیے اسلام آباد آئی تھیں۔
اس عورت لانگ مارچ کے شرکا پریس کلب جانا چاہتے تھے۔ مگر ”جمہوری “ اور ”عبوری “ اور ”مستقل“ سرکار کے ارفع اور سپیریر دماغوں کے مطابق انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پریس کلب جاسکیں۔ پریس کلب تو ایک پلیٹ فارم ہوتا ہے جہاں کوئی بھی متاثرہ شخص ، گروہ ، فیملی اور طبقہ جاسکتا ہے اور اپنی فریاد بیان کرسکتا ہے۔

سرکار نے اپنی پرانی نو آبادیاتی پالیسی پر چلتے ہوئے بہت تشدد اور غیر انسانی انداز میں مارچ کے شرکا کو شہر کے نواح میں روکے رکھا۔ لاپتہ افراد کی لواحقین عورتوں کے لانگ مارچ پر لاٹھی چارج اورتشدد کیا گیا ، یخ بستہ موسم میں اُن پر واٹر کینن پھینکا گیا۔۔ اور گرفتاریاں کی گئیں ۔اکیسویں صدی میں ایک ملک کے شہری اپنی شکایتیں بیان کرنے اپنے ”رپبلک “ اور ”فیڈریشن“ کے دارالحکومت کے پریس کلب نہیں جاسکتے۔

ملک کے دارالحکومت میں نہتی بچیوں، خواتین پر وحشیانہ کریک ڈاون کرکے انہیں گرفتار کیا گیا۔
اپنے ہی شہریوں کی جبری گمشدگیوں کی کسی مہذب، جمہوری، انسانی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ انسانی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔مگر مسئلے کا حل نکالنا تو درکنار متاثرہ خاندانوں کی جانب سے اپنے دکھ کا اظہار بھی حکمرانوں کو گوارا نہیں ۔

مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟:جبری گمشدگیوں کا خاتمہ، ماورائے عدالت قتل کا خاتمہ اور لاپتہ افراد کی بازیابی ۔ کوئی ذی شعور انسان ان مطالبات کی مخالفت نہیں کرسکتا۔

خواتین و بچوں کو زبردستی اسلام آباد سے نکالنے کی کوششیں شرمناک اور بھوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی تھیں۔ لوگوں کو دانستہ طور پر اشتعال دلایا جارہا تھا۔

” بلوچ یکجہتی کمیٹی” کا یہ لانگ مارچ ایک کامیاب ترین عورت لانگ مارچ رہا ۔لانگ مارچ کی ان نہتی احتجاجی عورتوں نے بلوچ سماج میں واقعتا لہریں پیدا کردیں ، ہزاروں عورتوں بچوں ، روشن فکر سیاسی ورکروں ، اور عام آدمیوں کو موبلائز کیا۔ یہ لانگ مارچ پوری بلوچ قوم کو جگانے ، گھروں سے نکلنے اور احتجاج کی شاہراہ پہ ڈالنے والا مارچ تھا۔ عوام الناس بلوچستان میں تو امڈ آیا ہی تھا، مگر پشتون علاقہ بھی دل سے سواگت کے لیے انہیں چادریں پہنا رہا تھا ۔ خود اسلام آباد کے روشن فکر لوگوں نے جہد کرنے والی ان عورتوں کا ساتھ دیا۔
یہ غلط فہمی کسی کو بھی نہیں ہے کہ محض ایک لانگ مارچ سے بلوچ کے انسانی جمہوری حقوق مل سکیں گے۔ طویل تحریکوں کے بہت سارے پڑاﺅ ہوتے ہیں۔ یہ بھی محض ایک پڑاﺅ ہے لمبی سامراج دشمن، وطن و قوم و عوام دوست بلوچ تحریک کا ۔ہم سب جانتے ہیں کہ عوامی اور قومی حقوق کی جدوجہد تو بہت طویل اور بہت کٹھن ہوتی ہے ۔

بلوچ عورتوں کی لانگ مارچ میں شامل عورتیں عام لوگ نہیں ہیں۔ یہ شدید ترین دکھ میں گوندھی ہوئی عورتیں ہیں۔ایسی عورتیں جن کے بچپن اور لڑکپن ریاست نے اُن سے چھین لیے۔ چودہ چودہ برس سے جن کے بیٹے اور بھائی گم ہیں ۔ انہیں پتہ نہیں کہ اگر وہ مار دیے گئے تو قبر کہاں ہے ، اور اگر زندہ ہیں تو کس جیل میں ہیں۔ جنہیں بہت سالوں سے یہ پتہ نہیں کہ وہ بیوہ ہیں یا ابھی خاوند زندہ ہے۔یہ شکستہ روحوں والی عورتیں ہیں، جن کے پاس جدوجہد کے علاوہ کوئی امید موجود نہیں۔ یہ عورتیں جدوجہد میں متذبذب نہ ہونے والی مجسم قوت ہیں۔ ان کے گھر کربلا ہیں، ان کے سال ، ماہ ، دن اور گھنٹے حتی کہ سیکنڈ بھی سسکیوں میں لپٹے ہوتے ہیں۔اس لیے ان کا عزم مصمم ہے ۔ انصاف کی جستجو میں یہ عورتیں اس جدوجہد میں چٹان کی صورت ہیں، بلوچ عورتیں ایک نامختمم جدوجہد کا چہرہ ہیں۔
تربت سے اسلام آباد کا یہ مارچ محض جسمانی معاملہ نہیں۔ یہ تو خاموشی کو توڑنے اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا مارچ تھا۔ یہ مایوسی کو ٹھوکر مارنے کا مارچ تھا۔ اور یہ انسانی شرف کے حصول کے طویل سفر کے ایک باوقار ٹکڑے کی تکمیل تھا۔
اہلِ حشم کو ابھی اکیسویں صدی تک بھی یہ سمجھ نہ آئی کہ ایسے مارچ انسانی مہذب سرگرمی ہوتے ہیں۔ یہ مارچ انسان کے جینز میں موجود ہوتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا صرف انسان کرتا ہے ، حق لینے کا عزم صرف انسان کے پاس ہے ۔ صرف انسان نعرے لگاتا ہے ۔نعروں کو کون قتل کرسکا ہے ۔ نعرہ تو گونج ہے ، باز گشت ہے ۔۔۔۔ اور غصہ والی آواز ، انکار والی آواز، زور آور کے حکم کو مسترد کرنے والی آواز تو آسمانوں کی بھی کی پسندیدہ آواز ہوتی ہے ۔
اور پھر یہ تو بلوچ عورت کی آواز ہے ۔ بلوچ عورت کو اب اُس روایتی انداز میں نہیں دیکھا جائے جسے ایک فیوڈل سماج کی عینک سے دیکھا جاتا تھا۔ اب بلوچ عورت سیاست میں نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ ہے بلکہ یہ اب سیاست کو لیڈ کر رہی ہے ، قوم کی قیادت کر رہی ہے۔ وہ سڑکوں پہ ہوتی ہیں، لانگ مارچوں میں ہوتی ہیں، پریس کلبوں میں ہوتی ہیں ۔ وہ نعرے لگاتی ہیں ، وال چاکنگ کرتی ہیں، اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھائے ظلم کا سامنا کرتی ہیں۔ وہ لاٹھی چارج سہتی ہیں، واٹر کینن برداشت کرتی ہیں، جیل جاتی ہیں، وزیروں کے سامنے سربلند کھڑی ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ کی قیادت میں ” بلوچ یکجہتی کمیٹی” کے اس مارچ نے دانشوروں ، سیاست کاروں اور بیوروکریٹوں کا یہ موقف ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جس کے تحت بلوچستان میں گویا ابد تک ایک قبائلی نظام جاری رہے گا ۔ یا یہ کہ بلوچ عورت ستی بن کر گھر میں ہی رہے گی۔ دنیا بھر کے روشن فکر جمہوری لوگوں کو نوید ہو کہ یہ بدلا ہوا بلوچستان ہے ۔ دانشوروں کو اپنے سیاسی سماجی تجزیے بھی بدلے ہوئے بلوچستان کے حوالے سے کرنے ہوں گے اور سیاست دانوں کو بھی اپنی سیاست اب بدلے ہوئے بلوچستان کی مطابقت میں کرنی ہوگی۔

کتنے لوگ بلوچ عورت کا یہ روپ دیکھنے کی آرزو ،اور جدوجہد میں زندگیاں لگا کر مرکھپ گئے ۔ ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اپنی آنکھوں سے عورت کو ”مکمل “ انسان کی صورت دیکھ رہے ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*